ہوا سے براہِ راست پانی بنانے والی مشین
شیئر کریں
میساچیوسٹس(ویب ڈیسک) امریکی سائنسدانوں نے ایک ایسا آلہ ایجاد کرلیا ہے جو سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرتا ہے اور ہوا میں موجود نمی کو براہِ راست پانی میں تبدیل کردیتا ہے۔ اگرچہ اس طرح کے آلات اور طریقے بہت پہلے سے دنیا میں موجود ہیں لیکن یا تو ان کی کارکردگی بہت کم ہے یا پھر وہ ہوا سے پانی ’چوسنے‘ کے لیے بہت زیادہ توانائی استعمال کرتے ہیں تاہم ایم آئی ٹی اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے کے ماہرین کی یہ مشترکہ ایجاد اس لحاظ سے مروجہ مشینوں اور آلات کے مقابلے میں بہتر ہے کیونکہ یہ اپنی توانائی کی ضرورت سورج کی روشنی سے پوری کرتی ہے جبکہ ساتھ ہی ساتھ یہ شدید گرمی کے ماحول اور صرف 20 فیصد نمی والی ہوا سے بھی پانی کشید کرسکتی ہے۔ ’’سولر پاورڈ ہارویسٹر‘‘ نامی یہ آلہ ہوا میں موجود آبی بخارات جذب کرکے انہیں مائع پانی میں تبدیل کرنے کےلیے ’’میٹل آرگینک فریم ورک‘‘ (ایم او ایف) کہلانے والے مادّے سے استفادہ کرتا ہے۔ فی الحال اس آلے کا پروٹو ٹائپ تیار کرلیا گیا ہے جس میں 1 کلوگرام ایم او ایف استعمال کیا گیا ہے اور وہ 20 فیصد نمی والی ہوا سے 12 گھنٹے میں 2.8 لیٹر پانی حاصل کرسکتا ہے۔ اس پروٹوٹائپ کی موجودہ کارکردگی 20 فیصد ہے لیکن ’ایم او ایف‘ کو مزید بہتر بنا کر اسے 40 فیصد تک پہنچانے پر کام جاری ہے۔ ایم او ایف میں سالمات کی ساخت کچھ ایسی ہوتی ہے: یہ آلہ ایجاد کرنے والی ٹیم کے ایک رکن عمر یاغی کا کہنا ہے کہ مستقبل میں شمسی توانائی کی اضافی صلاحیت سے لیس ہونے کے بعد یہ آلہ 24 گھنٹے مسلسل کام کرسکے گا اور کیونکہ اس میں کوئی متحرک پرزہ نہیں اس لیے حرکت کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا خطرہ بھی نہیں۔ اگرچہ دنیا میں پانی کی کوئی کمی نہیں اور سطح زمین کا دو تہائی سے زیادہ رقبہ سمندروں پر مشتمل ہے وہ نمکین ہے یعنی انسانی استعمال کے قابل نہیں۔ دوسری جانب اس وقت دنیا کی دو تہائی آبادی کو پینے کا صاف پانی میسر نہیں جبکہ یہ آبی قلت انسانی آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی جارہی ہے۔ عمر یاغی کے بقول ان تمام مسائل کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ کرہ زمین کی ہواؤں میں مجموعی طور پر 13,000,000 ارب لیٹر پانی (آبی بخارات کی شکل میں) ہر وقت موجود رہتا ہے اور اگر کوئی ایسا طریقہ ایجاد کرلیا جائے جو اسے پینے کے قابل (مائع) پانی میں تبدیل کرسکے تو یہ انسانیت کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ سولر واٹر ہارویسٹر بھی ایسی ہی ایک کوشش ہے جس کی تفصیلات ہفت روزہ تحقیقی جریدے ’’سائنس‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔