وزیراعلیٰ گیس کمپنی پر سیخ پا کیوں ہوئے۔۔عوام کا درد یا انور مجید کی رضا مندی ؟
شیئر کریں
الیاس احمد
وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ یوں تو وزارت اعلیٰ ملنے کے بعد متحرک نظر آرہے تھے لیکن دو تین ماہ میں پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ان کے پرکاٹ دیے، اب وہ اونچی اڑان تو اڑنا چاہتے ہیں لیکن اڑ نہیں پاتے۔ مراد علی شاہ کو اب صرف چند چھوٹے محکموں اور وفاقی حکومت سے جھگڑے کی حد تک چھوڑا گیا ہے۔وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے جس طرح صوبے کے حوالے سے فیصلے کیے ہیں، اس سے عوام اور سیاسی حلقوں کے علاوہ بیورو کریسی بھی خاصی حد تک مایوس ہوئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اکثر فیصلے کہیں اور سے آتے ہیں اور حکم یہ ہوتا ہے کہ ان پر مِن و عن عمل کیا جائے اور وہ مجبور ہو کر اس پر عمل کرتے ہیں جس کی سب سے بڑی مثال آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ کی جبری چھٹی اور پھر ان کی خدمات واپس وفاقی حکومت کے حوالے کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ ان کو پتہ ہے کہ جب ان کے والد عبداللہ شاہ وزیراعلیٰ تھے تو ان کے پرنسپل اسٹاف افسر (پی ایس او) اے ڈی خواجہ تھے پھر مرتضیٰ بھٹو قتل کیس میں بھی اے ڈی خواجہ کو انکوائری ملی تو انہوں نے اس انکوائری میں پی پی کے رہنمائوں کو انتقام کا نشانہ نہیں بنایا اور عبداللہ شاہ نے ہمیشہ اے ڈی خواجہ کی عزت کی۔ مگر آج مراد علی شاہ نے دو مرتبہ اے ڈی خواجہ کو ہٹانے کی ناکام کوشش کرکے اپنی جگ ہنسائی کروائی ہے ۔
اب ان کا رخ سوئی سدرن گیس کمپنی کی طرف ہوگیا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے خزانہ کے ساتھ پچھلے9 سال سے کھیلنے والے مراد علی شاہ کو سوئی سدرن گیس کمپنی کے معاملے پر سندھ کی یاد آگئی، وہ ایسے بات کر رہے تھے کہ جیسے ان کو سندھ کا اتنا غم کھا رہا ہے کہ انہوں نے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے۔ وزیراعلیٰ کو واقعی سندھ کے عوام یاد آگئے ہیں یا نوری آباد میں واقع پاور پلانٹ عزیز ہے جس میں حکومت سندھ اور انور مجید شراکت دار ہیں ؟اور انور مجید کی خوشنودی ہی ان کے اقتدار کو طوالت دے سکتی ہے؟ اصل کہانی یہ ہے کہ حکومت سندھ اور انور مجید نے مل کر نوری آباد میں ایک بجلی گھر بنایا ہے اس میں 1500 میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی، پہلے اس بجلی گھر کو ہوا (ونڈ) پر چلانا تھا لیکن کسی فنی خرابی کے باعث فوری طور پر ہوا سے بجلی گھر چلانا مشکل بن گیا ہے جس پر ماہرین نے کہا کہ گیس کنکشن دیا جائے، اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے رابطہ کیا تو انہیں بتایا گیا کہ پہلے تو بڑے کنکشن پر پابندی ہے یہی وجہ ہے کہ ملتان ، فیصل آباد، نوری آباد، کوٹری اور کراچی کے بیشتر صنعتی ادارے یا تو بند ہوگئے ہیں یا پھر ان کو مخصوص وقت کے لیے گیس فراہم کی جاتی ہے اور ہفتے میں ایک دو دن ناغہ بھی کیا جاتا ہے۔ جس پر وزیراعلیٰ سندھ نے وزیراعظم کو خط لکھا ۔چار روز قبل وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گیس کے نئے کنکشن پر عائد پابندی ختم کردی ،اس پر وزیراعلیٰ سندھ نے سوئی سدرن گیس کمپنی سے رابطہ کیا کہ فوری طور پر گیس کنکشن فراہم کیا جائے۔ حکومت سندھ نے پہلے ہی رواں مالی سال 2016-17 کے دوران صوبہ بھر میں مختلف شہروں اور مضافات میں 37 نئے کنکشن کی درخواست دے رکھی ہے جو اب آخری مراحل میں ہے، صرف ڈیمانڈ نوٹ جاری کرنا باقی ہے ۔لہٰذاسوئی سدرن گیس کمپنی نے مؤقف اختیار کیا کہ پہلے نئے 37 کنکشن لگائے جائیں گے، اسی دوران پائپ لائنیں بچھانے کا کام بھی شروع کیا جائے گا اور چھ ماہ میں پائپ لائن بچھ جائیں گی ،اس کے بعد نوری آباد کے پاور پلانٹ کو گیس فراہم کی جائے گی اور اب جبکہ نئے کنکشن پر پابندی ختم ہوچکی ہے تو ترتیب کے مطابق سب سے پہلے فیصل آباد، کراچی، ملتان، کوٹری، نوری آباد سمیت ایک درجن صنعتی علاقوں کو نئے گیس کنکشن فراہم کیے جائیں گے، جس پر وزیراعلیٰ سیخ پا ہوگئے اور سندھ اسمبلی میں دھواں دار تقریر کر ڈالی اور دھمکی دی کہ سوئی گیس کمپنی کے دفاتر پر دھاوا بول کر قبضہ کرلیں گے ،جس کے بعد ان سے انور مجید تو خوش ہوگیا لیکن باقی ہر جگہ سے ان کو ناراضگی ملی۔
بعدازاں انہیں پارٹی قیادت اور وفاقی حکومت نے سمجھایا کہ اس طرح کی باتیں بغاوت کہلاتی ہیں یہ قومی حساس تنصیبات ہیں ان پر اگر حکومت سندھ نے قبضے کی کوشش کی تو فوج آکر قبضہ چھڑا لے گی ،اس لیے ایسی بات کرکے حکومت سندھ کے لیے پیچیدگیاں پیدا نہ کریں۔ تب انہوں نے اس موضوع پر بات کرنا بند کردی ہے اور اب مروجہ قانون کے تحت نوری آباد پاور پلانٹ کے لیے گیس کنکشن لینے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں، انہوں نے سندھ اسمبلی میں سندھ کا رونا رویا مگر اصل میںیہ انور مجید کو خوش کر کرنے کی کوشش تھی۔