پاک افغان مقدر مشترک ہے (آخری قسط)
شیئر کریں
روس نے نور محمد ترکئی کوعظیم استاد اور مصلح کا خطاب دیا ،بلاشبہ وہ ایک ادیب اور دانشور تھے ۔گویا پاکستان کی سلامتی کو نئے اندیشوں اورخطرات نے گھیر لیا۔ جنرل ضیاء الحق نے نور محمد تر کئی کے نام خط میں مبارکباد بھیج دی اور اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کرنے کا خواہاں ہے۔ اور پاکستان اچھی ہمسائیگی کے اصولوں پر عمل پیرا رہے گا۔ جنرل ضیاء الحق اور نور محمد تر کئی کے درمیان کیوبا کے دار الحکومت ہوانا میں غیرجانبدار ممالک کی کانفرنس کے موقع پر ملاقات بھی ہوئی۔ ضیاء الحق چاہتے تھے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنائو و ابہامات کا خاتمہ ہو۔ چونکہ نور محمد تر کئی سویت یونین کی طاقت کے خمار میں مبتلا تھے نے جنرل ضیاء الحق کا تمسخر اُڑایا۔تاریخ کا جبر دیکھئے کہ جس نور محمد تر کئی کو روسیوں نے اُستاد کے خطاب سے نوازا تھا پھر اسی استاد پر غصہ بھی نکال رہے تھے۔ کیونکہ تمام تر قتل و غارت گری ،دار و گیرکے، حالات کی خرابی میں اضافہ ہی ہورہا تھا۔ سویت یونین کے لیے برابر مسائل بڑھ رہے تھے۔ آخر کار ’’ اُستادِ کبیرنور محمد ترکئی ‘‘ جس کے ذریعے افغانستان پر ’’فساد کبیر‘‘ مسلط کیا گیا ،قتل کردیے گئے۔در اصل انقلاب کے ساتھ ہی انقلابیوں کے درمیان اقتدار کی کشمکش اور محلاتی سازشیں شروع ہو گئی تھیں۔۔۔۔
نور محمد ترکئی حفیظ اللہ امین کو راستے سے ہٹانے کی منصوبہ بندی کر چکے تھے ۔جو روسیوں کے تعاون کے بغیر ممکن نہ تھا، جبکہ حفیظ اللہ بھی مخالفین کی حرکات و سکنات پر پوری طرح نظر رکھے ہوئے تھے ۔وہ ذہین شخص تھے ،خلق پارٹی کے سیکریٹری جنرل جیسے بڑے عہدے پر فائز رہے ۔وزیر اعظم اوروزارت دفاع کے اہم منصب پررہ کر وہ گردوپیش سے پوری طرح باخبر تھے۔چنانچہ قبل اس کے اُن پر وار کیا جا تا، حفیظ نے نور محمد ترکئی کی زندگی کا خاتمہ کردیا اور صدر بن گئے۔حفیظ اللہ امین اگرچہ افغان عوام کی مزاحمت کے آگے کامیاب نہ تھے، تاہم جس خوف نے روسی منصوبہ سازوں کو حفیظ اللہ امین کو فوری طور پر ہٹانے اور اسے ہلاک کرنے پر مجبور کیا وہ اس کی پاکستان سے بنائو کی تیز رفتار کوشش اور روسیوں کے اثر و نفوذ کو ختم کرنا تھا۔ حفیظ اللہ امین اگرچہ مارکسٹ تھا، لیکن معروضی حقائق کا اسے جلد ادراک ہوا۔ امین افغان فوج میں بھی زبردست اثرو رسوخ کا حامل تھا۔ اس نے پاکستان سے تعلقات کی بحالی میں زیادہ دلچسپی لی۔جنرل ضیاء الحق سے1979 کے ماہ نومبر اور پھر دسمبر میں ملاقات کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور سویت افواج کی افغانستان میں براہ راست مداخلت سے انکار کیا اور روسی مشیروں جو ہزاروں کی تعداد میں افغانستان میں موجود تھے کے افغانستان سے جلد انخلاء کا عندیہ دیا۔وہ مجاہدین سے بھی صلح کی نیت رکھتاتھا تاکہ حکومت مخالف جنگ رک جائے۔ امین نے روسی افواج کی مداخلت کے معاہدے کو نظر انداز کیا ،کہ روس کو انقلاب کی حفاظت کے لیے فوج بھیجنے کی ضرورت نہیں۔ آغا شاہی جنرل ضیاء الحق کے دور میں امور خارجہ کے مشیر تھے ، ان کا 29دسمبر کو کابل کا دورہ طے تھا ۔ اس حوالے سے بنیادی تیاریاں ہوچکی تھیں ۔ یعنی 29دسمبر کو مذاکرات کے بعد طے شدہ امور و معاملات کا اعلان کیا جانا تھا ۔ روس نے حفیظ اللہ امین اورپاکستان کے درمیان تعلقات کی بہتری کی جانب پیشرفت سبوتاژ کرتے ہوئے راتوں رات پاکستان کے افغانستان پر حملے کا فسانہ گھڑلیا۔ حفیظ اللہ کو یقین دلانے کی کوشش کی کہ پاکستان نے امریکی افواج کی مدد سے افغانستان پر قبضے اور حملے کا منصوبہ بنا رکھا ہے اور بحر ہند میں موجود امریکی بحری بیڑا پاکستان کے ساحلوں پر پہنچ گیا ہے اور پاکستان کی افواج بھی تیار کھڑی ہیں۔ روسی سفارتخانے نے حفیظ اللہ امین کو گمراہ کرنے کے لیے من گھڑت رپورٹ تیار کی اور اسے امریکی و پاکستانی افواج کی نقل و حمل کی سیٹلائٹ تصاویر دکھائیں۔ روسی سفارتخانے کا اصرار تھا کہ پاکستان سے مذاکرات محض چند دن کے لیے ملتوی کئے جائیں اور دار الحکومت کابل کی حفاظت کے لیے فی الوقت تھوڑی سی روسی فوج طلب کی جائے۔یو ں حفیظ اللہ امین نے پاکستان کو آگاہ کردیا کہ کابل ایئر پورٹ برفباری کی وجہ سے استعمال کے قابل نہیں۔ آغا شاہی کابل نہ جاسکے۔ ادھر روسی افواج اور اسلحہ کابل ایئر پورٹ پر اترنا شروع ہوگیا۔ روسی افواج نے کابل ایئر پورٹ اور دار الحکومت کے اہم مقامات اپنے انتظام میں لے لئے۔ حفیظ اللہ امین کی حکومت کے اہم اوربااعتماد افراد دھوکے سے مختلف مقامات پر غیر محسوس انداز میں یرغمال بنائے گئے ۔ حفیظ اللہ امین کو منصوبے کے تحت پہلے ہی شہر کے اندر واقع صدارتی محل سے قصرِ دار الامان منتقل کیا جاچکا تھا۔ یہ مقام شہر سے باہر تھا تاکہ فوجی کارروائی کے دوران عوام میں کوئی اشتعال پیدا نہ ہو۔ پیش ازیں روسی فوجی حکام کی قصرِ دار الامان میں امین سے مذاکرات ناکام رہے۔ اس ملاقات میں روسی فوجی حکام نے امین کو مجبور کرنے کی کوشش کی کہ وہ روس سے افغانستان میں باقاعدہ فوجی مداخلت کی درخواست کرے۔ مگر روسی افواج پہلے ہی پیش قدمی شروع کرچکی تھیں۔ ایوان صدر کا محاصرہ ہوچکا تھا۔ ملاقات کے دوران حفیظ اللہ امین کو مارنے کی کوشش ناکام ہوئی۔ کہا جاتا ہے کہ جنرل وکٹر پاپوٹن حفیظ اللہ امین کے محافظ کی گولی سے مارا گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ وہ بعد میں ہونے والی جھڑپ میں مارے گئے تھے، جس کی نعش کی حوالگی کا روسی فوجی حکام نے مطالبہ بھی کیا تھا۔ بہر حال قصر ِدار الامان پرہونے والے حملے کا حفیظ اللہ امین اپنے مختصر سے حفاظتی دستے کے ساتھ دو گھنٹے تک مقابلہ کرتا رہا۔کہا جاتا ہے کہ امین کا سترہ سالہ بیٹا مارا گیااور بیٹی زخمی ہوگئی۔ ایک روسی جنرل نے آکر حفیظ اللہ امین کی زندگی کا خاتمہ کردیا۔ حفیظ اللہ امین کی نعش غائب کردی گئی۔ قصر ِدار الامان چھلنی چھلنی ہوگیا۔حفیظ اللہ امین کے اہل خانہ نے پاکستان میں پناہ لے لی۔حکومت نے ان خواتین و بچوںکو ،کو ئٹہ کے ہنہ اڑک کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں ٹھرایا۔حکومت پاکستان نے راقم کے والد مو لانا نیاز محمد درانی مرحوم اور جماعت اسلامی کے صوبائی امیرعبد المجید خا ن مرحوم کو ذمہ داری سونپ دی کہ ان کی مر ضی معلوم کی جائے کہ آیا وہ پاکستان میں سکونت اختیار کرنا پسند کریں گے یا کسی اور ملک جانا چاہیں گے۔ بعد ازاں پاکستان کے زیر انتظام حفیظ اللہ امین کے خاندان کے افراد غالباً یورپ چلے گئے ۔ انقلاب ثور کے دوران ہونیو الی قتل و بربریت کے باعث کابل کے عوام پہلے ہی خوف اور عدم تحفظ کا شکار تھے۔ حفیظ اللہ امین کے خلاف روسی آپریشن کے دوران کابل کے شہری بھاری اسلحے کی گہن گرج سن رہے تھے۔ پر بے بس گھروں میں دبکے ہوئے تھے۔ روس نے ببرک کارمل کو صدارت کی کرسی پر بٹھادیا ۔ جس نے امین کو سی آئی اے ایجنٹ ، پاکستان کا دوست اور افغانستان کا فسطائی پتا نہیں کن کن القابات سے نوازا ۔ ببرک کارمل نے کہا کہ حفیظ اللہ امین چین اور امریکا کی ہدایت پر افغانستان کے پ
شتون علاقے پاکستان کے حوالے کرنا چاہتا تھا، وہ وطن فروش تھا۔افغان کمیونسٹ ہم پیالہ و ہم نوالہ ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی جان کے درپے تھے ،اختلاف رائے ناقابل برداشت تھا،موقع ملتے ہی مخالف کو موت کے گھاٹ اتار دیتے ،جیل خانوں میں ڈال دیتے ۔یہ سلسلہ ڈاکٹر نجیب اللہ کے دور صدارت تک چلتا رہا ہے ۔ ڈاکٹر نجیب نے اپنے جنرلوں،حکومتی منصب داروں اور پارٹی رہنماؤں کے کہنے اور دبائوپر جوزجانی ملیشیا کو کابل آنے دیا ۔اس ملیشیا نے کابل ایئر پورٹ ، ٹیلی ویژن و ریڈیواسٹیشن اور دیگر اہم جگہوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں ۔ڈاکٹر نجیب کو اپنی ہی جماعت، وطن پارٹی کے محمود بر یالئی،فرید مزدک اور جنرل نبی عظیمی،جنرل مومن،جنرل آصف دلاور،جنرل بابا جان،اور وزیر خارجہ عبد الوکیل جن کو جنرل رشید دوستم کا تعاون حاصل تھا ،نے بے دست و پا کردیا ۔یعنی اقتدار سے محروم کر دیا اور کابل سے نکلنے بھی نہیں دیا ۔ ڈاکٹر نجیب اللہ جب رات دو بجے ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوئے تو ایک حکومتی کمانڈر رازق نے اسے روکا ،ظاہر ہے اس کمانڈر کو پہلے ہی ہدایات مل چکی تھیں۔جہاں سے ڈاکٹر نجیب اللہ نے سیدھے اقوام متحدہ کے دفتر میں جاکر پناہ لے لی۔اور پھرجوزجانیوں نے کابل میں لوٹ مار کا بازار گرم کردیا ،عورتوں تک کو بے آپرو کردیا گویا اقدار، روایات اور شرم و حیا کی ہر حد پار کردی ۔ کمیونسٹ دور کے باقیات نے اپنا اثر قائم رکھا اور ہر سیاسی عمل میں حصہ دار بن گئے ۔افغان جہادکو ناکامی سے دوچار کرنے میں پاکستان کا کردار بھی مخفی نہیں ۔ وہاں گلبدین حکمت یار کی حکومت بننے نہیں دی گئی۔ حالانکہ گلبدین حکمت یار شخصی و گروہی حکومت کے اول دن سے قائل نہ تھے، وہ آغاز جہاد سے آج تک انتخابات کے نتیجے میں بننے والی قومی حکومت کی بات کرتے ہیں۔ طالبان کی حکومت ختم کرنے اور ہزاروں لاکھوں افغانوں کے قتل عام میں پاکستان امریکا کے شانہ بشانہ تھا۔ ناقابل معافی جرم کا ارتکاب پاکستان نے بھی کیا ہے۔ اب اگر امریکا چاہتا ہے کہ طالبان اور کابل حکومت کے درمیان مصالحت ہو تو اس کے لیے پہل امریکا کی جانب سے ہونی چاہیے۔امریکا اپنے اور نیٹو فورسز کے انخلاء کا ٹائم فریم دے تاکہ افغانستان میں ایک آزاد و خود مختار قومی حکومت کی تشکیل کا راستہ کھلے ۔ اور یہ سرزمین کسی کے مفادات کے خلاف استعمال نہ ہو۔ طالبان کی نمائندہ حیثیت قبول کرنا ہوگی۔افغانستان میں سیاسی و جمہوری عمل و اقدار کی ضرورت ہے ۔ کابل پر ماتحت گروہ کی حکومت مسئلے کا ہر گز حل نہیں۔امارت اسلامیہ یعنی طالبان اگر بات چیت کے عمل میں شریک ہوتے ہیں تو اس کے یقیناً افغانستان کے حالات اور سیاست پر دوررس اثرات مرتب ہوںگے ۔ ملا اختر منصور ایک وژنری رہنما تھے ان کی سیاسی حالات پر گہری نظر تھی ۔ ملااختر منصور نے روس اور ایرانی حکام سے راہ ورسم قائم کرلی تھی ،لہٰذا امریکا بہرحال اسے راستے سے ہٹانا چاہتا تھا۔ شاید پاکستان بھی ملااختر منصور کی اس اپروچ سے خوف زدہ تھا ۔ سویت یونین کے صدربرژنیف نے کہا تھا کہ روس اپنی جنوبی سرحد کی حفاظت کے لیے افغانستان میں داخل ہوا تھا۔تو کیا روس، امریکا اور نیٹو کی موجودگی میں اب اپنی جنوبی سرحد محفوظ سمجھتا ہے ؟ اگر نہیں تو افغانستان ایک اور بھیانک جنگ کا مرکز بننے جارہا ہے۔ ضروری ہے کہ امریکا سمیت تمام ممالک افغانستان میں قومی حکومت کے قیام میں مدد کریں اور افغان حکومت کو بھی یہ حقیقت اب سمجھ لینا چاہیے کہ پاکستان و افغانستان کے مفادات باہم جڑے ہوئے ہیں۔اور بھارت ایک فریب ہے جس نے افغانستان کو ڈھال بنا رکھا ہے۔ ضروری ہے کہ پاکستان بھی اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھے ۔ ظاہر شاہ مرحوم کس قدر اچھے نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ ’’پاکستان اور افغانستان کا مقدر مشترک ہے۔ ‘‘
٭٭…٭٭