عمران خان کی گرفتاری میں پولیس ناکام
شیئر کریں
لاہور ہائی کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں گرفتاری کے لیے زمان پارک میں 2 روز سے جاری پولیس آپریشن کو عارضی طور پرروکنے کا حکم دے دیا ۔21گھنٹے پولیس زمان پاک کے باہر رہی لین عمران خان کو گرفتار کرنے میں ناکام رہی بعد ازاںلاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے زمان پارک میں پولیس آپریشن روکنے کے لیے دائر فواد چوہدری کی درخواست پر سماعت کی ۔ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شان گل عدالت میں پیش ہوئے، وکیل عمران خان نے کہا کہ میں عمران خان کا دفاع نہیں کر رہا لیکن جو زمان پارک کے باہر ہو رہا ہے، وہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔وکیل عمران خان نے کہا کہ جیسا فلموں میں دیکھا ویسا وار زون بن چکا ہے، اکیس گھنٹے سے زمان پارک کے باہر پولیس لگی ہے، ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے، یہ درخواست لاہور ہائی کورٹ میں قابل سماعت نہیں ہے۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میرے سامنے چار پٹیشنز ہیں، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اسلام آباد سے کون پولیس افسر لاہور آیا ہے، وفاقی حکومت کے وکیل نے موقف اپنایا کہ یہ چیک کرنا پڑے گا۔ عدالت نے کہا کہ جو بھی اسلام آباد پولیس کی طرف سے آپریشن کی سربراہی کر رہا ہے ہم اسے بلا لیتے ہیں، وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس کی نمائندگی ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کرتے ہیں۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ اس معاملے کو کسی طرح ٹھیک بھی تو کرنا ہے، وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد پولیس لاہور ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتی، عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اگر اسلام آباد پولیس کے افسر عدالت میں پیش نہ ہوئے تو ہم ان کے وارنٹ جاری کریں گے۔وکیل عمران خان نے کہا کہ ڈی آئی جی آپریشنز اسلام آباد آپریشن کی قیادت کر رہے تھے، اپنی ہی آنسو گیس سے زخمی ہوئے، اس دوران لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب اور چیف سیکریٹری پنجاب، اسلام آباد پولیس کی طرف سے آپریشن کی سربراہی کرنے والے افسر کو عدالت میں طلب کرتے ہوئے حکم دیا کہ تین بجے تمام افسر عدالت میں پیش ہوں۔وکیل وفاقی حکومت نے کہا کہ اسلام آباد کے پولیس افسر سے رابطہ نہیں ہو سکا، اسلام آباد ہائی کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا ہے، وکیل عمران خان نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں وارنٹ گرفتاری کا معاملہ چیلنج ہوا ہے۔عدالت نے آئی جی سے استفسار کیا کہ آپ بتائیں مسئلے کا حل کیا ہے، آئی جی نے کہا کہ ہم الیکشن کی میٹنگ میں تھے باہر نکلے تو پتہ چلا کہ اسلام آباد پولیس لاہور میں ہے، اسلام آباد پولیس نے معاونت مانگی اور ہمیں وارنٹ دکھائے، ہمارے چودہ پولیس اہلکار زخمی ہوئی پھر تین سو اہلکار مزید بھیجے گئے، ڈنڈوں سوٹوں سے پولیس پر حملہ کیا گیا 59 مزید اہلکار زخمی ہوئے۔آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں نے فیصلہ کیا تھا کہ کوئی اہلکار یا افسر اسلحہ لیکر نہیں جائے گا، ہم واٹر کینن اور ٹئیر گیس سے حالات پر قابو پایا، دوسری طرف سے پٹرول بم آنا شروع ہوئے جس سے ہماری دو گاڑیاں تباہ ہوئیں، ایلیٹ کی گاڑی پر حملہ کیا گیا پی ایس ایل کی ٹیمز یہاں ٹھہری ہوئی ہیں، اسکے بعد رینجر کو طلب کیا گیا اس پر حملہ کیا گیا، اسلام آباد پولیس افسران پر بھی حملہ ہوا۔