میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
جڑواں شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل

جڑواں شہر میں ٹرانسپورٹ کے مسائل

منتظم
جمعرات, ۱۵ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

مکرمی جناب
پاکستان جب سے معرضِ وجود میں آیا ہے کچھ قوانین اور کچھ اداروں کے نظام تب سے ہی وہی چلے آ رہے ہیں.جو اس وقت بنائے گئے تھے. ان میں نہ تو کوئی تبدیلی کی گئی اور نہ ہی ان میں کوئی اصلاحات کی گئیں جن میں پبلک ٹرانسپورٹ بھی وہی پرانا گھِسا پِٹا نظام ہے جسے اب تک اسی نظام کے تحت ہی چلایا جارہا ہے.دنیا کے بیشتر ممالک آج ترقی کرکے اپنے ملک اپنی عوام کو جدید سہولیات مہیا کر رہے ہیں.جب کہ پاکستان میں صدایوں سے وہی پرانا نظام چلا آرہا ہے جہاں گاڑیوں کا اول تو کوئی اڈا نہیں اور اگر ہے تو وہاں مسافروں کے لیے کوئی سہولیات نہیں،میں پاکستان کے سارے شہروں کی بات نہیں کرتا.پاکستان کے صرف اْس شہر کی بات کرتا ہوں جو پاکستان کی نمائندگی پوری دنیا میں کرتا ہے.اور چونکہ موصوف کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے اور ان ٹرانسپورٹ کا استعمال روز کا معمول ہے اس لیے یہاں کے درپیش مسائل اور ان مسائل کا بہتر طور پہ حل بتایا جا سکتا ہے.جڑواں شہر روالپنڈی اسلام آباد میں زیادہ تر سفر لوکل ٹرانسپورٹ پر کرتے ہیں.جبکہ لوکل ٹرانسپورٹ پہ سفر کرنا کسی اذیت سے کم نہیں،کئی کئی گھنٹے گاڑیوں کا انتظار کرنا،اڈے پہ مناسب سہولیات کا نہ ہونا،مسافروں کے لیے بیٹھنے کا انتظام نہ ہونا بارشوں کے موسم میں کیچڑ اور پانی سے مسافروں کو سخت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اسلام آباد میں سب سے بْری حالت کراچی کمپنی اور آبپارہ کے اڈوں کی ہے دکھ اور افسوس کی بات تو یہ ہے کہ سب حالات اسلام آباد جیسے شہر میں دیکھنے کو ملتا ہے جو پورے ملک کی نمائندگی کرتا ہے جب یہاں کے حالات ایسے ہوں گے تو باقی شہروں کی حالتِ زار پہ کیا شکوہ کیا جاسکتا ہے.اس کے علاوہ کچھ روٹس پہ چلنے والی گاڑیاں صبح کے اوقات میں سکول شفٹیں اٹھاتی ہیں جس سے مسافروں کو سخت تنگی کا سامنا رہتا ہے اور یہ عرصہ دراز سے ہفتے کے شروع دنوں میں لازمی رہتا ہے۔کہیں کسی سٹاپ پہ گاڑی نہیں ہوتی تو کہیں کسی سٹاپ پہ چار چار گاڑیاں کھڑی ہوتی ہیں ان گاڑی والوں کا جس ا سٹاپ سے دل کرتا ہے گاڑی بھرنا شروع کر دیتے ہیں مگر مجال ہے کوئی پوچھنے والا ہو.اسی طرح ترنول سے سیکٹریٹ تک چلنے والے کوسٹر کی حالت اندر سے بہت خستہ ہے ۔جبکہ مسافروں بھیڑ بکریوں کی مانند گاڑی بھر لیا جاتا ہے ۔اور اسی طرح کے حالات روالپنڈی کی ٹرانسپورٹ کے ہیں اگر کسی سٹاپ پر مسافر موجود نہیں ہوں گے تو کتنی کتنی دیر ٹھہر جائیں گے اب جیسے گرمیوں کا موسم آنے کو ہے گرمیوں کے موسم میں یہ عالم ہوتا ہے کہ مسافر حضرات گرمی میں پسینے سے شرابور گاڑی میں بیٹھے ہوتے ہیں جبکہ کنڈیکٹر اور ڈرائیور گاڑی سے باہر بیٹھ کے سگریٹ نوشی کرنے میں مصروف ہوتے ہیںجو کہ یہی کام کسی چھوٹے گاؤں،قصبے وغیرہ میں دیکھنے کو ملتا ہے۔اگر روالپنڈی /اسلام آباد میں دی جانے والی سروس ایسے معیار کی ہونگی تو پاکستان کے باقی شہروں کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے۔
جبکہ اسلام آباد میں لوکل ٹرانسپورٹ کا ایسا جدید نظام ہونا چاہیے کہ پہلے ا سٹاپ سے لے کے آخری سٹاپ تک گاڑیوں کو ایک نمبر سیریز کے مطابق چلایا جائے جو ہر دس منٹ بعد گاڑی نکلے اس سے مسافروں کو بھی پتہ چلتا رہے گا کہ کونسی گاڑی نمبر جا رہی ہے اور پیچھے باقی کتنی رہ گئی ہیں دوسراگاڑی والے بھی یا تو شفٹیں اٹھائیں گے یا پھر لوکل روٹس پر نیک نیتی سے گاڑی چلائیں گے.بزرگ مرد و خواتین کے لیے لوکل روٹس پہ چلنے والی ٹیوٹا گاڑیاں مشکل کا سبب بنتی ہیں اترنے چڑھنے میں دقت کا سامنا رہتا ہے.تنگ تنگ سیٹوں کی وجہ سے کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے سیٹوں کو پھلانگ کے آخری سیٹوں پہ بٹھانا اٹھانا کسی اذیت سے کم نہیں جب کہ اکثر بزرگ حضرات osteoporosis کے مرض میں مبتلا ہوتے ہیں جنہیں کافی تکلیف کا سامنا رہتا ہے۔اس کے لیے بہتر ہے روٹس پہ ایسی گاڑیاں لائی جائیں جن میں ان چیزوں کو لازمی قرار دیا جائے مثلاََ روٹ پہ چلنے والی ہر گاڑی اچھی حالت میں ہو،گاڑی میں سیٹیں اطراف میں ہوں اور درمیان سے جگہ خالی ہو،ہر گاڑی میں ائرکنڈیشنر کی سہولت موجود ہو،ہر روٹ پہ چلنے والی گاڑی کا اپنا مخصوص رنگ ہو یہ وہ چند بنیادی چیزیں ہیں جس پہ سفر کرنے والے ہر مسافر کا حق ہے کیونکہ کرایہ بڑھانے والے اور کرایہ لینے والے انہی مسافروں سے من مانے کرائے وصول کرتے ہیں۔
ڈاکٹر سید مشرف حسین بخاری


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں