میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کرشماتی سیاسی اتحاد سے حاصل ہونے والی کامیابی

کرشماتی سیاسی اتحاد سے حاصل ہونے والی کامیابی

منتظم
جمعرات, ۱۵ مارچ ۲۰۱۸

شیئر کریں

سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں حکومت اور اس کی اتحادی جماعتیں ہارگئی ہیں اور جیت اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کے حصے میں آئی ہے جنہوں نے اپنے امیدوار صادق سنجرانی اور سلیم مانڈوی والا کو بالترتیب چیئرمین اور وائس چیئرمین منتخب کرالیا، الیکشن سے پہلے کامیابی کے دعوے تو سارے فریق ہی کرتے ہیں اور یہاں بھی کررہے تھے لیکن اپوزیشن اتحاد نے دعویٰ کیا تھا کہ چیئرمین کے لیے اْن کے امیدوار کو 57ووٹ ملیں گے اور اتنے ہی ملے اس کا مطلب یہ ہے کہ اْن کے رابطے مضبوط تھے اور ووٹ پکے تھے، سینیٹ کے ایوان کے اندر سیاسی جماعتوں اور آزاد ارکان کی تعداد تو معلوم تھی، جماعتوں کی وابستگیاں اور جھکاؤ کا بھی کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور تھا لیکن یہ شاید پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ اتنی تعداد میں آزاد ارکان سینیٹ کے رْکن بنے ہیں، عام طور پر صرف فاٹا کے ارکان ہی آزاد ہوتے تھے لیکن اس باربلوچستان سے آزاد ارکان منتخب ہوئے، کامیاب چیئرمین صادق سنجرانی بھی آزاد تھے لیکن انہیں تین بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم پاکستان کے دونوں دھڑوں کے ووٹ ملے اس سے اْن کی ہر دلعزیزی کا بھی اندازہ ہوتا ہے، کہ تین بڑی سیاسی جماعتیں انہیں ووٹ دینے پر متفق تھیں۔

مسلم لیگ (ن) کو الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے چیلنج کررکھا تھا کہ وہ اگر سینیٹ کی سب سے بڑی جماعت ہونے کی دعویدار ہے تو اپنا چیئرمین منتخب کرکے دکھائے، آصف علی زرداری تو بہت پہلے سے کہتے چلے آرہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ کا چیئرمین منتخب نہیں کرانے دیں گے اس لحاظ سے دونوں کے دعوے درست ثابت ہوئے اور جو کچھ انہوں نے کہا سچ کردکھایا، ویسے تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف دونوں ایک دوسرے کی حریف ہیں اور عمران خان عام جلسوں میں آصف علی زرداری کے متعلق جس طرح کے القابات بے دھڑک استعمال کرتے رہتے ہیں اْن کے پیشِ نظر بظاہر اس کا امکان تو نہیں تھا کہ دونوں جماعتیں کسی ایک امیدوار پر متفق ہوجائیں گی لیکن حیران کن حد تک تحریک انصاف نے دونوں ووٹ پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ اْمیدواروں کو ہی دیئے، چیئرمین صادق سنجرانی کے بارے میں تو تحریک انصاف پھر بھی یہ موقف اختیار کرسکتی ہے کہ وہ آزاد تھے لیکن سلیم مانڈوی والا تو آصف علی زرداری کے جیالے ہیں، کہنے کو تو وہ پیپلز پارٹی کے رکن ہیں اور اسی نے انہیں امیدوار بنایاتھا لیکن وہ پارٹی کی سیاست سے زیادہ آصف علی زرداری کا دم بھرتے ہیں۔

سینیٹ کے دو بڑے عہدیداروں کے انتخاب میں جو سیاسی تقسیم نظر آئی کیا اس کا اثر عام انتخابات پر بھی پڑے گا؟ یہ سوال اس لحاظ سے اہم ہے کہ یہ منزل بھی زیادہ دور نہیں ہے اور جولائی تک عام انتخابات متوقع ہیں اب چودھری شجاعت حسین کے بقول اتحاد کی برکت سے اگر اپوزیشن جماعتوں نے حکومت اور اس کے اتحادیوں کو شکست دے دی ہے تو کیا وہ نہیں چاہیں گی کہ اسی طرح کے اتحاد کا مظاہرہ عام انتخابات میں بھی کریں اور مزید برکات سمیٹ کر ایسی کامیابیاں بھی حاصل کریں جس کی وجہ سے وہ حکومت سازی کرسکیں، عام انتخابات تک اتحادوں کی شکل کیا بنتی ہے یہ تو ابھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا لیکن سینیٹ کے تازہ تجربے کے بعد بعید نہیں ہے کہ اگر عام انتخابات میں کوئی پارٹی سادہ اکثریت حاصل نہ کرسکے اور ایک سے زیادہ جماعتوں کو مل کر مخلوط حکومت بنانی پڑے تو پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف ایک ہی پلیٹ فارم پر نظر آئیں اور الزامات کو طاقِ نسیان پر رکھ کر خوشی خوشی مخلوط حکومت بنالیں۔

ایم کیو ایم کی سیاست ہمیشہ سے اسی طرح رہی ہے اس کے من کی موج آئے تو قومی اسمبلی کے انتخابات کا بائیکاٹ کردیتی ہے اور پھر تین دن بعد ہی پورے جوش و خروش سے صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں شریک ہو جاتی ہے، سینیٹ کے انتخاب میں بھی اس نے اپنی یہ’’ درخشاں روایت‘‘ برقرار رکھی، چیئرمین کا ووٹ تو پیپلز پارٹی کے حمایت یافتہ امیدوار کو دے دیا جبکہ وائس چیئرمین کا ووٹ یہ کہہ کر نہیں دیا کہ ہم پیپلز پارٹی کے امیدوار کو ووٹ نہیں دے سکتے، ایسی مرنجاں مرنج سیاست کی توقع ایم کیو ایم سے ہی کی جاسکتی ہے۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے وہ اس بات پرشاکی تھی کہ اْس کے 18۔ ارکان سندھ اسمبلی نے اپنے ووٹ فروخت کردئے اور نتیجے کے طور پر ایم کیو ایم کے نامزد کردہ تین امیدوار ہار گئے اور پیپلز پارٹی کے امیدوار کامیاب ہوگئے، چیئرمین کے ووٹ میں اس نے ثابت کردیا کہ وہ اس صدمے کو بڑی آسانی سے بھول بھی سکتی ہے لیکن سلیم مانڈوی والا کو ووٹ دیتے وقت شاید زخم اچانک ہرا ہوگیا ہو۔

عام انتخابات کی نئی صف بندیاں اگرچہ سینیٹ کے اس نئے تجربے کی روشنی میں ہی ہوں گی لیکن ان کا کینوس چونکہ بہت وسیع ہوتا ہے اس لیے ضروری نہیں کہ یہ تجربہ وہاں بھی کامیاب ہو، ویسے بھی بالواسطہ اور محدود انتخاب کے تجربے کو براہ راست اور سینکڑوں حلقوں میں ہونے والے انتخاب پر منطبق نہیں کیا جاسکتا، ویسے بھی سینیٹ کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے سوا تقریباً ہر جماعت کے ارکان کو یہ شکایت رہی ہے کہ اْس کے ارکان نے ووٹ مہنگے داموں فروخت کیے، ایک ایک ووٹ کا ریٹ کروڑوں روپے بتایا گیا، عمران خان تو ووٹوں کی فروخت پر اپنے ارکانِ اسمبلی سے اتنے نالاں تھے کہ اْن کے خلاف فوری کارروائی کرنا چاہتے تھے، اس مقصد کے لیے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سے رپورٹ بھی مانگی تھی عبوری طور پر ناموں کی فہرست بھی عمران خان کے حوالے کی گئی جس میں بتایا گیا تھا کہ ان ارکان نے ممکنہ طور پر ووٹ فروخت کیے ہیں لیکن اب محسوس ہوتا ہے کہ تحریک انصاف تازہ کامیابی کی خوشی میں پہلی ناکامی کی کلفت بھول جائے گی۔

فرض کریں تحریک انصاف کے جن ارکان نے ووٹ فروخت کیے وہ ایسا نہ کرتے تو تحریک کا ایک آدھ سینیٹر مزید منتخب ہوجاتا تو ایسی صورت میں بھی چیئرمین کے عہدے کے سلسلے میں تو کوئی جوہری تبدیلی واقع نہ ہوئی، پھر بھی صادق سنجرانی ہی نے چیئرمین ہونا تھا اور تحریک انصاف نے انہیں ہی ووٹ ڈالنے تھے کیونکہ اْن کا انتخاب پوری طرح سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا اور اْن کی ہر دلعزیزی کی وجہ سے یہ ممکن ہوا کہ متحارب جماعتیں انہیں ووٹ دینے کے معاملے پر متحد نظر آئیں، اس لیے جن ارکانِ اسمبلی نے ووٹ فروخت کیے وہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ تو ’’بونس‘‘تھا جو انہوں نے حاصل کرلیا ’’مفت‘‘ ووٹوں کا نتیجہ بھی تو ایسی ہی چیئرمین شپ کی صورت میں نکلنا تھا تاہم اگر ملک میں جمہوریت کو مضبوط کرنا ہے اور سینیٹ کے انتخاب میں پیسے کے عمل دخل کو روکنے میں سیاسی جماعتیں نعروں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے پر یقین رکھتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ارکانِ اسمبلی ووٹ فروخت نہ کریں تو اس کے لیے براہ راست انتخاب کی جانب جانا ہوگا، ورنہ تین سال بعد ہم پھر وہی کچھ دیکھ رہے ہوں گے جو ابھی دیکھا بلکہ بْھگتاہے۔
(تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں