سادہ بیانی اور مذہبی بیانیہ
شیئر کریں
سادہ بیا نی ہمارے ہاں ہمیشہ بہار ساون کی ہریالی بن گئی ہے، اور کسی بھی موضوع پر گفتگو ہو، اس کے سادہ ہونے کا مطالبہ شدید ہوتا ہے۔ آج کل جو گفتگو اہمیت رکھتی ہے یا کوئی اہمیت اختیار کر جاتی ہے، وہ صرف میڈیائی ذرائع پر ہی واقع ہوتی ہے۔ میڈیائی ذرائع سے باہر گفتگو سادہ ہو یا مشکل وہ سرے سے زیر بحث ہی نہیں، کیونکہ وہ زندہ در گورِ کتاب ہوتی ہے۔ میڈیا سے باہر بھی جدید معاشروں میں مراکز علم قائم ہیں مثلاً یونیورسٹیاں، مختلف مراکز تحقیق، بحث و مباحث کے حلقے وغیرہ اور وہاں گفتگو اور مکالمہ علم کے معیارات پر ہوتا ہے، میڈیا کی شرائط پر نہیں۔ ہمارے ہاں چونکہ ایسے مراکز کے حالات بھی کچھ زیادہ تسلی بخش نہیں ہیں، اس لیے جو آدمی میڈیا پر سادگی سے ابلاغ کر سکتا ہو، اور لوگوں تک اس کی رسائی ممکن ہو وہی عالم اور دانشور ہے۔
ایک بات میڈیا مطالعات میں اصول کی حیثیت رکھتی ہے، اور اس کا تعلق سیاست، معیشت، مذہب یا سائنس سے نہیں بلکہ خود میڈیا سے ہے۔ اس کا نام انگریزی میں خاصا مشکل سا ہے۔ اہل علم اس سے واقف ہیں اور سادگی پر بات کرتے ہوئے اسے منہ سے نکالنا مناسب نہیں۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ میڈیائی ابلاغ کے لیے انسانوں کے درمیان فہم کی پست ترین مشترک سطح معیار ہو گی۔ یہ شرط ہر گفتگو، ہر ابلاغ اور ہر موضوع کے لیے ہے۔ میڈیا میں اظہار کے لیے سیاسیات، معاشیات، سائنس اور مذہب کو اس معیار کی پاسداری کرنا ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ میڈیا پر سیاست بھی سادہ ہے، معیشت بھی سادہ ہے، سائنس بھی سادہ ہے اور مذہب بھی سادہ ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو میڈیائی گفتگو فہم عامہ سے دائیں بائیں ہو جاتی ہے اور میڈیا کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ میڈیا کا اصل کام لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ جس طرح سے لوگ سادہ ہیں، اسی طرح سے معاشی اور سیاسی نظام بھی سادہ ہے۔ انسان کی اجتماعی زندگی میں میڈیا کا رول چونکہ بہت بڑھ گیا ہے، اور اس کی موجودگی تقریباً مستقل ہے، اس لیے وہ عوام کو باور کرانے میں کامیاب ہے کہ دنیا بہت سادہ ہے، اس لیے کہ میڈیا پر سادہ ہے۔ فہم عامہ کی پست ترین مشترک سطح کا اصول تو نصاب میں درج ہے یعنی ذہن کی پست ترین سطحِ فہم پر کھڑے ہوئے بغیر میڈیا میں ابلاغ کو ممکن نہیں بنایا جا سکتا۔ لیکن جو نہیں لکھا وہ یہ ہے کہ میڈیا میں انسانی جذبات بھی پست ترین مشترک سطح پر ہی اظہار پا سکتے ہیں۔
میڈیا پر گفتگو کی شرائط میں اہم ترین سادگی ہے جو ایک لازمی اور درکار پستی سے حاصل ہوتی ہے۔ دوسری شرط یہ ہے کہ دن اور رات کی طرح ہر گفتگو کے سِرے پہلے سے قائم ہوتے ہیں۔ ایک آدمی کچھ معلومات دے کر بتاتا ہے کہ دن ہے، دوسرا فرماتا ہے کہ رات ہے اور کچھ اضافی معلومات سامنے لاتا ہے۔ اس پر اتفاق ہو جاتا ہے کہ دن بھی ہے اور رات بھی۔ اور اگر اختلاف ہو جائے تو یہ کہ کہیں دن ہے، کہیں رات ہے، اور بیانیہ مکمل ہو جاتا ہے۔ میڈیا پر سیکولر اور مذہبی، جدید اور دقیانوسی، پرامن اور دہشت گرد، روشن خیال اور روایت پسند، ترقی پسند اور رجعت پسند وغیرہ وغیرہ کے سرے پہلے سے قائم ہیں، اور گفتگو ان کے درمیان ہی گھومتی ہے کیونکہ گفتگو کی حدبندی پہلے سے ہے۔ اس لیے سیاست، معیشت، مذہب اور سائنس بھی اگر میڈیا پر کوئی اظہار کریں گے تو یہی طرز اختیار کریں گے۔ سیاسی، معاشی اور فکری تجزیے وغیرہ اسی کلبوت سے نکلنے کے لیے ہوتے ہیں، لیکن برقی میڈیا میں ان کی گنجائش بہت کم ہے اور ورقی میڈیا میں بھی بتدریج ان کا رواج گھٹ رہا ہے۔ سادگی اور کلبوت کی وجہ سے میڈیا سادہ بیانی کی راجدھانی ہے۔
میڈیا اور سادہ بیانی کے حوالے سے چار سوالات اہم ہیں۔ اول یہ کہ میڈیا میں سادہ بیانی ایک مسلمہ ہے، جو معاشروں کی جدید سیاسی اور معاشی صورت حال میں ضروری ہے۔ ہمارے ہاں یہ ایک اخلاقی مسلمہ بن گیا ہے۔ ایک میڈیائی ضرورت نے اخلاقی مسلمہ بنتے ہی ہماری دینی روایت کو صاف کر دیا ہے۔ یہ مسلمہ صرف میڈیا میں کوئی تحدید قائم نہیں کرتا بلکہ ایک عمومی اطلاق حاصل کر لیتا ہے کہ چونکہ مذہب سادہ ہے، اس لیے ہر مشکل اور علمی بات نہ صرف مذہب کے خلاف ہے، بلکہ اخلاقیات کے بھی منافی ہے۔ اگر کسی مجلس میں کوئی علمی خطبہ سامعین کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ نہایت خوشی اور اخلاقی تفاخر سے بتاتے ہیں کہ بات مشکل تھی سمجھ میں نہیں آئی، اور صاحبِ گفتگو کو خفت ہوتی ہے۔ یہ میڈیائی سادگی کا بطور اخلاقی اصول عمومی اطلاق ہے۔
دوسرا اہم سوال رائے عامہ کا ہے۔ میڈیا کسی بھی معاشرے میں قائم سیاسی اور معاشی نظام کا حصہ ہے اور کچھ مخصوص سیاسی اور معاشی مفادات کو آگے بڑھانے کا ذریعہ ہے۔ رائے عامہ کو ”ہموار“ کرنے کا یہی مطلب ہے۔ میڈیا معاشرے کی واقعاتی صورت حال سے غیرمتعلق اور معاشرے کی فضا میں معلق رائے عامہ سے براہ راست متعلق ہوتا ہے۔ یہ حالات کو تبدیل نہیں کرتا، رائے عامہ کو تبدیل کرتا ہے۔ حالات سیاسی اور معاشی فیصلوں سے تبدیل ہوتے ہیں، اور میڈیا ان کے نفاذ کو آسان یا مشکل بناتا ہے۔ جب کوئی بھی بیانیہ میڈیا میں داخل ہوتا ہے، تو وہ بھی یہی کام کرتا ہے، یعنی ہر بیانیہ غالب طور پر سیاسی اور معاشی مفادات کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ بیانیہ اگر مذہبی بھی ہو تو الوہی ہدایت سے اس کا تعلق موہوم یا مفروضہ ہوتا ہے، اور اس کی اصل نسبتیں سیاسی اور معاشی ضروریات اور مفادات سے ہوتی ہیں۔
جیسا کہ عرض کیا میڈیا پر سیاست، معیشت، سائنس اور مذہب سب سادہ ہوتے ہیں۔ تیسرا سوال یہ ہے کہ میڈیائی سادگی کے اصول پر کیا سیاسیات، معاشیات اور سائنس وغیرہ پند و نصائح اور معلومات کا مجموعہ بن گئے ہیں یا ان میں علم اور اصول کی پیچیدہ گفتگو باقی ہے؟ جدید معاشروں میں علوم کی روایت میڈیا میں جاری نہیں ہے، جامعات میں ہے۔ ہمارے ہاں سادگی کی وجہ سے جامعات اور میڈیا اب ایک ہی سطح پر کام کرتے ہیں۔ لیکن اس صورت حال میں ایک استثنا پیدا ہو گیا ہے۔ میڈیا پر سیاست، معیشت، سائنس اور مذہب سادہ ہے، لیکن میڈیا سے باہر سیاست، معیشت اور سائنس بالکل بھی سادہ نہیں ہے۔ جدید معاشروں میں ان کے علوم کی زبردست اور وسیع ترین تشکیل، نمو اور تعلیم کے ذرائع قائم ہیں۔ لیکن مذہب بے چارہ اب ہر جگہ سادہ ہی سادہ ہے، اور یہ سادگی جبر کا ایک اصول بن کر مذہب پر مسلط ہے، اور مذہب کی نفسِ انسانی، ذہنِ انسانی، معاشرے، معیشت اور تاریخ سے نسبتوں کی بات کرنا نہ صرف ناممکن ہو گیا ہے، بلکہ سخت مذموم خیال کیا جاتا ہے، اور ایسے موضوعات کو چھیڑنا غیر مذہبی سمجھا جانے لگا ہے۔
چوتھا سوال زیادہ اہم ہے۔ علم میں استناد بنیادی چیز ہے۔ جدید علوم کا استناد سیاسی طاقت اور public reason سے حاصل ہوتا ہے، لیکن حقیقتاً جدید علوم کا حتمی اور واحد استناد سیاسی طاقت اور ریاست ہے۔ جبکہ مذہبی علوم کا استناد روایت اور دلائل منقولہ سے ہے۔ لیکن میڈیا کی شرائطِ ابلاغ نے اب مذہبی معاملات میں بھی درج استناد حاصل کر لیا ہے۔ رائے عامہ کی سطح فہم اور پسند ناپسند میڈیائی ابلاغ کی بنیادی شرائط ہیں جو اب مذہبی علوم پر بھی یکساں وارد ہیں اور مذہبی اظہار اب ان شرائط کی پاسداری ہی میں ممکن ہے۔ اس لیے مذہب کو پہلے سے سادہ فرض کرنا ضروری ہے تاکہ اس کا میڈیائی اظہار ہی ”پورے مذہب“ کے طور پر پیش کیا جا سکے، اور یہ دعویٰ کیا جا سکے کہ جو سادہ نہیں وہ مذہب ہی نہیں۔ رائے عامہ کی ترجیحات اور میڈیا کی شرائطِ اظہار کے سانچوں میں آتے ہی مذہب جدید ہو جاتا ہے۔ یعنی اب کسی لوتھر کی ضرورت نہیں، کیونکہ میڈیائی شرائط پر مذہب کی تشکیل نو اب ایک کار جاریہ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے جو عقل اور اصول سے غیرمتعلق اور اجتماعی سیاسی حرکیات کے تابع ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس صورت حال کو مکمل طور پر قبول کر چکے ہیں یا نہیں؟
٭٭