خواتین کے ساتھ دھوکا
شیئر کریں
گزشتہ دنوں عورتوں کے عالمی دن کے موقع پر پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی مخصوص لابی نے پاکستان میں حقوق نسواں کے مقدمے کو اس انداز میں پیش کیا گویا ملک کا سب سے اہم مسئلہ یہی ہے اور یہ بھی کہ پاکستان میں سب کے حقوق محفوظ ہیں سوائے عورتوں کے۔ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی مجبوری ہے کہ عورتوںکو گھر کی محفوظ چار دیواری سے نکال کر بازار کی زینت بنادیا جائے، خواہ اس مقصد کے لئے معاشرے کی بنیاد خاندان ہی کو کیوں نہ تباہ کرنا پڑ جائے ۔ کتنا عجیب لگتا ہے ان لوگوں کی زبانوں سے حقوق نسواں کا لیکچر سننا جو عورت کو انسانیت کے مرتبے سے نیچے گراتے اور اسے بازاری جنس بنا کر رکھنا چاہتے ہیں ۔ جن کے پاس عورت کی فطری مجبوریوں کے لیے بھی کوئی رعایت نہیں ۔ جو عورت کو برابری کا جھانسہ دے کر اسے خاندانی تحفظ اور عزت و احترم سے محروم کرنا چاہتے ہیں ۔
سرمایہ دارانہ نظام کے تحت کھربوں ڈالر کا بزنس عورت کے بل بوتے پر کیا جا رہا ہے ۔ میڈیا انڈسٹری ، فلم انڈسٹری ، کاسمیٹکس کا کاروبار ، اور فیشن انڈسٹری کے تمام رنگ وجود زن کے مرہون منت ہیں جبکہ شیونگ کریم سے لے کر موٹر سائیکل اور کار سمیت ہر چیز بیچنے کے لیے عورت کا استعمال کیا جا رہا ہے اسی لیے گھر کی چار دیواری میں اپنی فطری ذمہ داریاں ادا کرتی ہوئی عورت دنیا کی ہوس میں مبتلا سرمایہ دارانہ نظام کے علمبرداروں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی ۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بے رحم پرچھائی جہاں بھی عورت پر پڑی، وہاں خاندانی نظام تہہ و بالا ہو کر رہ گیا ۔ دلیل پروپیگنڈے کے گرد و غبار میں دھند لا جاتی ہے اور پروپیگنڈہ سرمایہ دارانہ نظام کا سب سے کارگر ہتھیار بھی ہے اور پروپیگنڈے کے تیز رفتار ذرائع پر سرمایہ داری کی گرفت بھی سب سے زیادہ مضبوط ہے ۔
عورت اور مرد کے صنفی فرق کا کیا انسانی زندگی پر کوئی اثر نہیں پڑتا ؟ جن معنوں میں حقوق نسواں کے علمبردار مرد وعورت کی برابری کے خواہشمند ہیں کیا وہ اس فرق کو مٹا سکتے ہیں ؟ اور کیا وہ نسل انسانی کی برقراری کے ذمہ دارتولیدی نظام کو برابری کے اپنے تصور سے ہم آہنگ کر سکتے ہیں ؟
اللہ کی بنائی ہوئی اس دنیا میں ہر شخص اپنی صلاحیتوں کے مطابق کردار ادا کرنے کے لیے آتا ہے ۔ صلاحیتوں کا فرق صرف مرد اور عورت کے درمیان نہیں بلکہ مرد ،مرد اور عورت ،عورت کے درمیان بھی پایا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے پھر ان کی ذمہ داریوں کا تعین ہوتا ہے ۔ کمزور مرد ایک طاقتور مرد کے جتنا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا ۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنی ایک سنت کا ذکر اس طرح فرمایاہے :
لا یکلف اللہ نفساً الا وسعھا ( البقرة :آخری آیت )
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کسی نفس کو اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں دیتا۔
گویا اللہ رب العالمین ہر نفس یعنی ہر انسان خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس کی استعداد اور طاقت کو سب سے بہتر سمجھتا ہے اور وہی یہ بہتر فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس پرذمہ داری کا کتنا بوجھ ڈالا جائے ۔اسی لیے اللہ کے نازل کردہ دین میں مردوں اور عورتوں کے لیے جو ہدایات دی گئی ہیں اسی میں انسانی معاشرے کی بہتری اور ترقی ہوسکتی ہے ۔ اللہ کے ہاں عزت مرد یا عورت ہونے کی وجہ سے حاصل نہیں ہوتی بلکہ اس کا معیار تقویٰ ، پرہیز گاری اور اعمال ہیں ۔ ان اکرمکم عند اللہ اتقٰکم ( سورة الحجرات آیت 13 ) ( ترجمہ ) ” بے شک تم میں زیادہ عزت والے اللہ کے ہاں وہ ہیں جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہیں “ ۔ اعمال کی قبولیت ہو یا دعاﺅں کی قبولیت اس میں اس بات کو قطعی اہمیت حاصل نہیں کہ کرنے والا مرد ہے یا عورت ۔ جنت میں داخلہ بھی اس بنیاد پر نہیں ملے گا مرد یا عورت جو بھی اچھے اعمال کرے گا وہ جنت میں جائے گا ۔
شریعت مطہرہ میں عورت کو اس کی ہر حیثیت میں قابل احترام مقام دیا گیا ہے ۔ عورت ماں ہو تو اس کے پیروں تلے جنت قرار دی گئی ، بیٹی ہو تو اس سے حسن سلوک کو جنت میں جانے کا ذریعہ بتایا گیا ۔ اللہ کے پیغمبر ﷺ نے اپنی وحی والی زبان سے اس انسان کو بہتر قرار دیا جو اپنی بیوی سے حسن سلوک کرتا ہے ۔ عورت بہن ، خالہ ، پھوپھی ہو یا نانی ، دادی ہو، ہر حیثیت میں اس کے احترام کو یقینی بنانے کے لیے شرعی احکامات بیان کیے گئے ۔
اسلامی تعلیمات پر ہمارے معاشرے میں جس حد تک بھی عمل کیا گیا، اس کا فائدہ ہی ملا ۔ دو دہائیاں پہلے تک ہمارے معاشرے میں خاندانی نظام اس قدر مستحکم اور مضبوط ہوا کرتا تھا کہ مغربی دنیا کے دانشور رشک کی نظر سے دیکھا کرتے تھے ۔ ہم مغربی تہذیب سے جتنا دور اور سرمایہ دارانہ نظام کے شکنجے سے جس قدر آزاد تھے، ہمارا خاندانی نظام اتنا ہی مضبوط تھا، مرد بھی پُر سکون تھے اور عورتوں میں بھی کسی قسم کی محرومی کا احساس نہ تھا۔ لیکن جب برعکس صورتحال ہوئی تو آج ہمارے اہل دانش بھی نوشتہ دیوار پڑ ھ رہے ہیں اور مستقبل کی تصویر دیکھ کر دکھی ہیں کہ ہمارا خاندانی نظام بھی تباہی کی جانب بڑھ رہا ہے ۔ ہمارے مذہبی رہنما اور ہماری سیاسی قیادت اپنی اقدار، اپنی تہذیب اور اپنی ترجیحات کا دفاع نہیں کر سکی ۔ ماضی میں بزرگ، جنہیں گھر کی رونق اور باعث برکت سمجھا جاتا تھا آج گھر گھر میں ان کے ساتھ ظالمانہ سلوک کیا جا رہا ہے اور اب ہمارے ہاں بھی اولڈ ہاﺅسز کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے جبکہ ماضی میں ہم اولڈ ہومز کا تذکرہ کر کے مغربی معاشرے پر طنز کیا کرتے تھے ۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب کوئی معاشرہ اخلاقی طور پر زوال پذیر ہو تو پھر کسی کے حقوق بھی محفوظ نہیں ہوتے، وطن عزیز کا اصل مسئلہ اخلاقی بحران ہے۔ اگر ہم واقعی ملک و قوم کی کوئی خدمت کرنا چاہتے ہیںتو ہمیں اخلاقی اصلاح کی تحریک برپا کرنا چاہیے ۔ محض حقوق نسواں کی بات کرنا چغلی کھاتا ہے کہ ہم دانستہ یا نادانستہ سفاک سرمایہ داری کے ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال ہو رہے ہیں ۔
٭٭