نظام حیدرآباد کے 35 ملین پاؤنڈ پر پاکستان کا دعوی مسترد،رقم ورثاء اور انڈیا کے حوالے
شیئر کریں
لندن کی رائل کورٹ آف جسٹس کی جانب سے سنائے گئے فیصلے کے بعد نظام آف حیدرآباد اور انڈیا کے درمیان 35 ملین پانڈ کی رقم تقسیم کر دی گئی ہے ۔ برطانوی میڈیا کے مطابق نظام آف حیدرآباد کے ورثا کے وکلا اور لندن میں انڈین سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں پاکستان کی جانب سے کیس پر لگنے والی قانونی فیس کا پینسٹھ پینسٹھ فیصد بھی ادا کیا گیا ہے جس کی مد میں ہائی کمیشن کے مطابق انھیں پاکستان نے 2.8 ملین پانڈ ادا کیے ہیں۔تاہم انڈین سفارتی ذرائع نے 35 ملین پاونڈز میں سے ملنے والی رقم کو ضیغہ راز قرار دیتے ہوئے رقم بتانے سے انکار کیا ہے ۔انڈین سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ اس مقدمے کے تمام فریقین نے عدالتی فیصلے کو تسلیم کیا ہے اور آخر کار اس طویل قانونی جنگ کا خاتمہ ہوا ہے اور اب لوگ آگے بڑھ سکیں گے ۔آٹھویں نظام کے ورثا کے وکلا نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ انھیں رقم میں سے اپنا حصہ اور 65 فیصد قانونی اخراجات عدالت کے ذریعے مل گئے ہیں اور وہ بہت خوش ہیں کہ اب یہ معاملہ اختتام کو پہنچا ہے ۔تاہم ان کا کہنا تھا کہ وہ اس رقم کی انڈیا کے ساتھ تقسیم پر کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ یہ خفیہ معاملہ ہے ۔لندن میں رائل کورٹ آف جسٹس نے متحدہ ہندوستان کی ریاست حیدرآباد دکن کے ساتویں نظام میر عثمان علی خان صدیقی کے وزیرِ خزانہ کی جانب سے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر کے بینک اکاونٹ میں جمع کروائی گئی رقم پر پاکستان کا دعوی رد کر دیاتھا۔عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ 71 برس قبل جو رقم جمع کروائی گئی تھی اس پر نظام کے ورثا مکرم جاہ، مفرخ جاہ اور انڈیا کا حق ہے ۔10 لاکھ پانڈ کی یہ رقم ریاست کے وزیر خزانہ نواب معین نواز جنگ نے سنہ 1948 میں جمع کروائی تھی اور اس میں آج 35 گنا اضافہ ہو چکا ہے ۔اس وقت برطانیہ میں پاکستان کے ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے لندن بینک اکاونٹ میں منتقل کردہ 10 لاکھ پاونڈ (تقریبا 89 کروڑ روپے ) اب ساڑھے تین کروڑ پاونڈ (تقریبا 1۔3 ارب روپے ) ہو چکے ہیں اور انھی کے نام پر ان کے نیٹ ویسٹ بینک اکانٹ میں جمع تھے ۔ان پیسوں کے لیے نظام اور پاکستانی ہائی کمشنر کے جانشینوں کے مابین کشیدگی رہی ہے اور یہ کیس لندن میں زیر سماعت تھا۔اس کیس کی سماعت کرنے والے جسٹس مارکس سمتھ نے تمام فریقین کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ سنایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ساڑھے تین کروڑ پانڈ کی اس رقم پر پاکستان کا حق نہیں ہے ۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ساتویں نظام آف دکن اس رقم کے اصل مالک تھے اور شہزادے اور انڈیا جو کہ نظام کے نام پر اس حق کا دعوی کر رہے ہیں اس رقم کی وصولی کے حقدار ہیں۔فیصلے کے مطابق رقم کی منتقلی کے حوالے سے فریقین کو مناسب انتظام کرنا تھا جس کی منظوری عدالت نے دینی تھی۔عدالت کا کہنا ہے تھا کہ پاکستان کی جانب سے عدالت کے اس معاملے پر فیصلہ کرنے کا مجاز نہ ہونے اور معاملے کے غیرقانونی ہونے کی بنیاد پر فیصلے کے اطلاق نہ ہونے کے دعوے درست نہیں تھے ۔نظام آف حیدرآباد کے ورثا کی جانب سے فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ انھیں ایک عرصے سے اس فیصلے کا انتظار تھا اور وہ اس کا خیرمقدم کرتے ہیں۔بیان میں کہا گیا تھا کہ برطانوی ہائی کورٹ نے پاکستان کے دعوے کو مسترد کرتے ہوئے ، انڈیا اور ساتویں نظام آف حیدرآباد کے ورثا کے حق میں فیصلہ دے کر درست کام کیا ہے ۔پاکستان کے دفترِ خارجہ نے اس فیصلے کے بعد ایک بیان میں کہا تھا کہ فیصلے میں رقم کی منتقلی کے تاریخی پس منظر کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔بیان کے مطابق انڈیا نے حیدرآباد کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ساتھ شامل کیا تھا اور اسی وجہ سے نظام آف حیدرآباد کو اپنی ریاست اور عوام کو انڈین دراندازی سے تحفظ دینے کے لیے یہ اقدامات کیے گئے تھے ۔پاکستان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تفصیلی فیصلے کے تمام پہلوں کا جائزہ لینے کے بعد قانونی مشوروں کی روشنی میں آگے کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔15 اگست سنہ 1947 کو ہندوستان آزاد ہوا لیکن جنوبی ہند کی ریاست تلنگانہ کے دارالحکومت حیدرآباد سمیت متعدد ریاستوں نے اس دن آزادی کا ذائقہ نھیں چکھا،حیدرآباد 17 ستمبر 1948 تک نظام شاہی کے تحت آزاد ریاست کے طور پر برقرار رہا۔ اس کے بعد اس شاہی ریاست کو ‘آپریشن پولو’ نام کے ایک فوجی آپریشن کے ذریعے ہندوستان میں ضم کر لیا گیا۔10 لاکھ پانڈ کی منتقلی کی یہ کہانی حیدرآباد کے ہندوستان میں ضم ہونے کے دور سے تعلق رکھتی ہے ۔اس وقت حیدرآباد آصف جاہ خاندان کی ساتویں پشت نواب میر عثمان علی خان صدیقی کی ریاست تھی۔ اس وقت وہ دنیا کے سب سے امیر شخص سمجھے جاتے تھے ۔ساتویں نظام کے پوتے شہزادہ مکرم جاہ کی نمائندگی کرنے والے قانونی ادارے ویدرز ورلڈ وائڈ لا فرم کے پول ہیوٹ کا کہنا ہے کہ ‘آپریشن پولو کے دوران، حیدرآباد ریاست کے نظام کے وزیر خزانہ نے ان کی رقم کو محفوظ رکھنے کے ارادے سے تقریبا دس لاکھ پانڈ اس وقت پاکستانی ہائی کمشنر کے لندن کے بینک اکانٹ میں منتقل کر دیے ۔’سنہ 1948 میں منتقل کی جانے والی یہی رقم بعد میں ساتویں نظام اور پاکستان کے جانشینوں کے مابین قانونی جنگ کی وجہ بنی۔پال ہیوٹ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: ‘جیسے ہی حیدرآباد کے ساتویں نظام کو رقم کی منتقلی کے بارے میں معلوم ہوا انھوں نے پاکستان سے کہا کہ وہ جلد ہی انھیں ان کا پیسہ واپس کر دے ۔ لیکن رحمت اللہ نے رقم واپس کرنے سے انکار کردیا اور کہا کہ اب یہ پاکستان کی پراپرٹی ہے ۔’اس کے بعد 1954 میں ساتویں نظام اور پاکستان کے مابین ایک قانونی جنگ شروع ہوگئی۔ نظام نے اپنے پیسے واپس حاصل کرنے کے لیے برطانیہ کے ہائی کورٹ سے رجوع کیا اور قانونی عمل شروع کر دیا۔ہائی کورٹ میں کیس پاکستان کے حق میں چلا گیا اور اس کے بعد نظام کو اپیل عدالتوں میں جانا پڑا جہاں جیت نظام کے حق میں ہوئی۔لیکن اس کے بعد پاکستان نے آگے بڑھ کر برطانیہ کی اس وقت کی اعلی ترین عدالت ہاس آف لارڈز کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پاکستان کا موقف تھا کہ نظام پاکستان پر مقدمہ نھیں چلا سکتا کیونکہ پاکستان ایک خودمختار ملک ہے ۔ہاوس آف لارڈز نے اپنا فیصلہ پاکستان کے حق میں دیا اور اس دلیل کو قبول کیا کہ نظام پاکستان کے خلاف قانونی چارہ جوئی نھیں کرسکتا۔ لیکن اس کے ساتھ ہاس آف لارڈز نے اس متنازع رقم یعنی دس لاکھ پاونڈ کو منجمد کرا دیا۔اس وقت سے پاکستان ہائی کمشنر حبیب ابراہیم رحمت اللہ کے اکاونٹ میں منتقل کی گئی رقم نیٹ ویسٹ بینک کے پاس ہے ۔ بینک کے مطابق یہ رقم اب عدالت کے فیصلے کے بعد صرف صحیح وارث کو دی جاسکتی ہے ۔لیکن گذشتہ 60 سالوں میں سود کی رقم میں اضافہ سے 1948 میں جو رقم دس لاکھ پانڈ تھی وہ اب ساڑھے تین کروڑ پاونڈ ہوچکی ہے ۔گذشتہ چند سالوں میں بات چیت کے ذریعے اس تنازعے کا حل تلاش کرنے کی بھی کوشش کی گئی لیکن کوئی نتیجہ برآمد نھیں ہوا۔حیدرآباد کے ساتویں نظام کا 1967 میں انتقال ہو گیا۔ لیکن رقم واپس حاصل کرنے کی یہ قانونی جنگ اس کے بعد بھی جاری رہی اور ان کے جانشینوں نے اسے آگے بڑھایا۔اس قانونی لڑائی میں 2013 میں پال ہیوٹ اس وقت شامل ہو گئے جب پاکستانی ہائی کمشنر نے پاکستان کے لیے رقم نکالنے کے لیے بینک کے خلاف قانونی چارہ جوئی شروع کر دی۔اس کے بعد بینک اس بات کا پابند ہو گیا کہ وہ اس معاملے میں اس رقم کا دعوی کرنے والے تمام متعلقہ فریقوں سے بات کرے جس میں ہندوستان سمیت نظام سلطنت کے دونوں شہزادے بھی شامل تھے ۔پال ہیوٹ کہتے ہیں کہ دونوں شہزادوں نے حال ہی میں ہندوستانی حکومت سے اس مسئلے پر بات چیت کی ہے جس نے ایک بار اس رقم پر اپنا دعوی بھی پیش کیا تھا۔اب تک نظام کے جانشینوں اور ہندوستانی حکومت کے مابین گفتگو یا معاہدے سے متعلق کوئی دستاویزات سامنے نھیں آئیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے نے نظام کے جانشینوں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن انھوں نے بات کرنے سے انکار کردیا۔نظام کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ آپریشن پولو کے دوران یہ رقم پاکستانی ہائی کمشنر کے اکانٹ میں محفوظ طریقے سے رکھنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔جبکہ پاکستان کا موقف یہ ہے کہ حیدرآباد کے 1948 میں انڈیا میں ضم ہونے کے دوران پاکستان نے سابق نظام کی بہت مدد کی تھی۔ یہ رقم سابقہ نظام نے اسی امداد کے بدلے پاکستانی عوام کو بطور تحفہ دی تھی اور اسی وجہ سے اس پر پاکستان کا حق ہے ۔پال ہیوٹ نے کہا: ‘سنہ 2016 میں پاکستان کا موقف تھا کہ 1947 سے 48 کے درمیان پاکستان سے اسلحہ حیدر آباد لایا گیا تھا جس کی قیمت دس لاکھ پانڈ تھی۔’پاکستان نے اب تک اس معاملے میں دو دلائل پیش کیے ہیں۔ پہلے تو انھوں نے کہا کہ یہ رقم نظام کی جانب سے پاکستان کو تحفے کے طور پر دی گئی اور بعد میں کہا کہ یہ رقم اسلحہ کی خریداری کے بدلے منتقل کی گئی تھی۔ نظام کی طرف سے یہ دلیل دی گئی کہ پاکستان نے دونوں دلائل کو ثابت کرنے کے لیے کوئی ثبوت پیش نھیں کیا ہے ۔ اور یہ دونوں باتیں بہت متضاد ہیں۔’پاکستان کی جانب سے اس کیس کی نمائندگی کرنے والے کوئینز کونسل خاور قریشی کا کہنا ہے کہ وہ ابھی اس معاملے پر بات نھیں کرنا چاہتے ہیں۔ برطانوی نشریاتی ادارے کے پاس پاکستان سے جمع کرائے گئے دلائل کی ایک کاپی ہے ۔ اس دستاویز کے مطابق: ‘حیدرآباد کے ساتویں نظام کی پاکستان نے مدد کی تھی اور اس کے بدلے میں رحمت اللہ کے بینک اکانٹ میں رقم منتقل کی گئی تھی تاکہ اس رقم کو ہندوستان کے ہاتھوں سے دور رکھا جاسکے ۔’پاکستان نے ساتویں نظام کے لیے پاکستان سے اسلحہ فراہم کیا تھا تاکہ حیدرآباد ہندوستانی حملے سے خود کو بچاسکیں۔’اس دستاویز کے مطابق 20 ستمبر 1948 سے یہ رقم رحیم اللہ کے لندن میں مقیم بینک اکانٹ میں محفوظ ہے ۔میں نے پال ہیوٹ سے سوال کیا کہ آیا اس رقم کی منتقلی سے قبل دونوں فریقوں کے مابین کوئی تحریری معاہدہ نھیں ہوا تھا تو ہیوٹ کا کہنا تھا کہ ‘ساتویں نظام نے ایک حلف نامہ دیا ہے کہ انھیں اس منتقلی کا کوئی علم نھیں تھا۔”اس ثبوت کو اب تک چیلنج نھیں کیا گیا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ان کے وزیر خزانہ کو یہ لگا کہ وہ نظام کے مستقبل کے لیے کچھ رقم حاصل کررہے ہیں اور اس معاہدے کی بنا پر رحمت اللہ نے اپنے اکانٹ میں رقم رکھنے کے لیے قبول کر لیا۔’پال ہیوٹ کہتے ہیں کہ ‘جب ساتویں نظام کو یہ معلوم ہوا کہ شاید وہ اپنی زندگی میں یہ رقم واپس حاصل نھیں کر پائیں گے تو انھوں نے ایک ٹرسٹ قائم کیا۔ انھوں نے اس رقم کو اپنے ٹرسٹ میں شامل کیا اور دو ٹرسٹی مقرر کیے ۔ انھوں نے اعلان کیا کہ ان کے بعد ان کے جانشین ان کے دو پوتے آٹھویں نظام اور ان کے چھوٹے بھائی ہوں گے ۔ اس لیے اب اس خاندانی سلسلے کے یہی دو لوگ ہیں جو اس پیسے کے حقدار ہوں گے ۔’ان کا کہنا ہے کہ یہ ایک بہت ہی پیچیدہ اور تاریخی معاملہ ہے جس سے وہ براہ راست منسلک ہیں۔بی بی سی تیلگو سروس کی نمائندہ دیپتی باتھینی نے کچھ عرصہ قبل دکن ہیریٹیج سوسائٹی کے سربراہ محمد صفی اللہ سے اس معاملے کے بارے میں بات کی تھی۔محمد صفی اللہ کا کہنا ہے کہ 1948 میں 13 ستمبر سے 17 ستمبر تک ہندوستانی حکومت نے آپریشن پولو کیا تھا جو حیدرآباد کی ریاست کے خلاف مکمل طور پر ایک فوجی آپریشن تھا۔ اس مہم میں ہندوستانی فوج کے قریب 40 ہزار فوجی شامل تھے ۔ 17 ستمبر کو حیدرآباد نے یکطرفہ فائر بندی کا اعلان کیا اور اس کے بعد ہندوستانی یونین میں شامل ہونے پر راضی ہو گیا۔صفی اللہ کا خیال ہے کہ 350 لاکھ پانڈ کی اس پوری رقم کو تین فریقوں حکومت ہند، نظام کے جانشین اور پاکستان میں برابر برابر تقسیم کر دینا چاہیے ۔’شاید اس مسئلے کا یہ حل سب کے لیے قابل قبول ہو!