میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلاول زرداری آوٹ‘فریال تالپر پھر ایکشن میں، حکومت سندھ کی باگ ڈور سنبھال لی

بلاول زرداری آوٹ‘فریال تالپر پھر ایکشن میں، حکومت سندھ کی باگ ڈور سنبھال لی

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۵ فروری ۲۰۱۷

شیئر کریں

سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ کوآغاز میں تھوڑی ڈھیل ملی لیکن جلدہی ان کو بھی بتا دیا گیا کہ سیاست کرنی ہے تو فریال تالپر کی تابعداری کرنی ہے
وزیر اعلی کی فریال تالپر کی خدمت میں حاضری ،زرداری کی ہمشیرہ کی خالی اسامیوں پر اخبارات میں اشتہارات دینے کی ہدایت
بیورو کریسی میں تقرریوں و تبادلوں سے بلاول کو الگ کردیا گیا ، انکے پاس تجربہ کی کمی ہے اور وہ کسی سے ”بارگیننگ“ نہیں کرسکتے،ذرائع
عقیل احمد راجپوت
سندھ کو 2008 ءکے بعد اس طرح چلایا جاتا رہا ہے جس طرح انگریز دور میں جنوبی ایشیا کو چلایا جاتا تھا۔ خیر اب تو واضح ہوگیا ہے کہ آصف زرداری اب سندھ کے والی وارث بن بیٹھے ہیں۔ وہ بادشاہوں کی طرح حکم چلاتے ہیں اور پھر تین چار ماہ بعد اپنے جی حضوری کرنے والے ساتھی تبدیل کردیتے ہیں لیکن انہوں نے فریال تالپر کو زیرو نہیں کیا۔ یہاں کبھی کبھار ان کو ”آرام“ کرنے دیتے ہیں ورنہ وہ مسلسل فارم میں ہوتی ہیں جب قائم علی شاہ وزیر اعلیٰ تھے تو اس وقت سی ایم ہاﺅس میں صدارت کی دو کرسیاں لگتی تھیں ایک پر قائم علی شاہ اور دوسری پر فریال تالپر براجمان ہوتی تھیں۔ درمیان میں اویس مظفر ٹپی‘ حاجی علی حسن زرداری کو بھی عارضی بادشاہ بنایا گیا لیکن پھر اویس مظفر ٹپی کو تو سب کچھ واپس لوٹانا پڑا اور ایک دُکان دبئی میں چلا کر گزارا کرنا پڑا۔ ذوالفقار مرزا نے فریال تالپر کے خلاف دھواں دار تقریر کی لیکن اس کے باوجود فریال تالپر کی اہمیت میں کمی نہیں آئی اور ان کی سرکاری اداروں میں ایسے چلتی ہے جیسے وہ آصف زرداری کے بعد دوسری مالکن ہوں۔
وزیر اعلیٰ تبدیل ہوئے اور سید مراد علی شاہ وزیر اعلیٰ بنے توآغاز میں اُنہیں تھوڑی ڈھیل ملی لیکن چند روز بعد ان کو بھی بتا دیا گیا کہ اگر سیاست کرنی ہے تو پھر فریال تالپر کی تابعداری کرنی ہے۔ فریال تالپر کو بھی ان آٹھ برسوں میں اپنی ٹیم بدلنا پڑی ہے۔ کبھی آغا فخر تو کبھی قاضی مصطفی جمال تو کبھی دوسرے افسران ان کے لیے فرنٹ مین کے طور پر کام کرتے رہے۔ فریال تالپر کا حکم بھی حکومت سندھ کے لیے حرف آخر سمجھا جاتا ہے۔ سہیل انور سیال کی مثال سامنے ہے، اس کی صرف قابلیت یہ ہے کہ جب فریال تالپر باہر نکلتی ہیں تو سہیل انور سیال ان کا پرس اور بیگ اٹھاتے ہیں، اسی بنا پر اس کو وزارت بھی ملی ہوئی ہے اور ان کے فرنٹ مین اور ٹھیکیدار اسد کھرل کا کیس ابھی کل کی بات ہے جب سہیل انور سیال کے بھائی طارق انور سیال نے اسد کھرل کو رینجرز‘ حساس اداروں اور نیب سے چھڑالیا۔ خیر پچھلے ہفتے دبئی میں آصف زرداری کی صدارت میں اہم اجلاس ہوا جس میں وزیر اعلیٰ سندھ کو پابند بنایا گیا کہ وہ اب حکومت سندھ کے جتنے بھی اہم فیصلے کریں گے وہ فریال تالپر کی منظوری سے مشروط ہوں گے۔ اب سندھ کابینہ میں تبدیلیاں متوقع ہیں، فریال تالپر ہی فیصلہ کریں گی کہ کس وزیر کو ہٹانا اور کس کو برقرار رکھنا ہے؟ اور نئی ملازمتیں کس فارمولے کے تحت دی جائیں گی؟ ایم پی ایز کو کوٹہ ملے گا یانہیں؟ اور کس کس کو نیا وزیر بنانا ہے؟ اس سلسلے میں منگل کے روز وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے فریال تالپر کے پاس جاکر ان سے نئی ہدایات لیں اور ان سے کہا گیا کہ چند روز میں ان کو بتا دیا جائے گا کہ سندھ کابینہ میں کیا تبدیلی لائی جائے گی؟ کون گھر چلا جائے گا اور کون وزیر کے طور پر کام کرتا رہے گا؟ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی ہدایات دیں کہ جتنے بھی سرکاری محکموں میں خالی اسامیاں ہیں ان پر اخبارات میں اشتہارات دیے جائیں لیکن بھرتیوں سے قبل وہ خود فیصلہ کریں گی کہ ایم پی ایز کو ایک کوٹہ یا تعداد دی جائے یا پھر ان سے لسٹ لی جائے اور اس پر وہ فیصلہ کریں گی کہ کس ایم پی اے کو کتنی نئی ملازمتیں دی جائیں گی؟
وزیر اعلیٰ سندھ کو یہ بھی بتایا گیا کہ جتنے افسران کی پوسٹیں خالی پڑی ہیں ان پر نئے افسران کی تقرری کے لئے وہ افسران سے بات چیت کررہی ہیں جلد ہی انہیں خالی پوسٹوں پر افسران کی تقرریوں کے لئے فہرست فراہم کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے اس موقع پر انہیں یقین دلایا کہ جیسے ہی وہ ان ایشوز پر فیصلہ کرکے انہیں بتائے گی حکومت سندھ ان پر مکمل عمل کرے گی لیکن اس پورے کھیل میں پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو آﺅٹ کرلیا گیا ہے۔ ان کو سندھ کابینہ میں مجوزہ تبدیلیوں‘ بیورو کریسی میں تقرریوں و تبادلوں سے بلاول کو الگ کردیا گیا ہے کیونکہ بلاول کے پاس تجربہ کی کمی ہے اور وہ کسی سے ”بارگیننگ“ نہیں کرسکتے جبکہ اس کے مقابلہ میں فریال تالپر خاصی تجربہ کار ہیں اور وہ اونچ نیچ کو اچھے طریقے سے جانتی ہیں اور ان سے نبرد آزما ہونے کے فن سے بھی آشنا ہیں۔ عام الیکشن سے قبل فریال تالپر کو حکومت سندھ کی باگ دوڑدینے کا مقصد آئندہ عام الیکشن میں پی پی کو کامیاب کرانا ہے اور جتنے بھی امیدوار کھڑے کرنے ہیں، ان کی ابھی سے تیاری کرنا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں