میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تعلیم اک زیور

تعلیم اک زیور

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۵ جنوری ۲۰۲۰

شیئر کریں

دوستو، ایک خبر کے مطابق اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ’’ سپر پاور ‘‘ امریکا 20ویں نمبر پر ہے۔2020ء تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون ( سبجیکٹ ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائے گی۔ فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچرہوتا ہے۔ دنیا میں سب سے لمبی بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتی ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کا 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کی بریک نیو یارک کے اسکولوں میں ہوتی ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو پڑھانے کے بجائے اتنی لمبی بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے ’’ پڑھائی ‘‘ ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی ’’ اسکلز‘‘ بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔ سات سال سیکم عمر بچوں کے لیے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے ’’ میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں ‘‘۔آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھا یا جاتا ہے اور وہ ’’ اخلاقیات ’’ اور ’’ آداب ’’ ہیں۔جاپان میں معاشرتی علوم ’’ پڑھائی‘‘ نہیں جاتی کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے پڑھانے کی نہیں اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لیے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔ہمیں بھی یاد ہے جب ہم کورنگی نمبر دوکے سرکاری پرائمری اسکول جسے آج بھی ’’پیلا اسکول‘‘ کہاجاتا ہے پڑھتے تھے تو صبح کلا س میں آنے اور جھاڑو دینے کے بعد دری بچھانے کی سب کی ڈیوٹیاں لگتی تھیں۔۔ اور کوئی بھی لڑکا یا لڑکی۔۔(اس زمانے میں کوایجوکیشن تعلیم ہوتی تھی) اس کام سے جی نہیں چراتا تھا۔۔

دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں۔۔جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے ’’ پبلشرز‘‘ بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیںاور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں،بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو کوڑھ مغزاور کند ذہن کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کر کے’’ اسمبلی‘‘ کراتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کراتے ہیں، پھر بڑے ہوکر جب ’’اسمبلی‘‘ پہنچتے تو وہاں الگ بدنامی کا باعث بنتے ہیں۔جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کرانے کا ہنر جانتا ہے۔طالبعلموں کا اسکول میں سارا وقت سائنس رٹتے گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میںکسی بچے سے یہ سننا نصیب نہیں ہوگا کہ وہ بڑا ہوکر ’’ سائنس دان ’’بننا چاہتا ہے۔۔آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858ء میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لیے ہمارے پاس ’’ پاسنگ مارکس ’’ 65 ہیں تو بر صغیر والوں کے لیے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860ء میں اساتذہ کی آسانی کے لیے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔۔

آج کل کا زمانہ بہت جدید ہے، دنیا ایک گلوبل ولیج میں تبدیل ہوچکی ہے۔۔ہمارے زمانے میں تھری جی،فورجی اور فائیو جی نہیں ہوتے تھے بس صرف استاد جی اور ابا جی ہوتے تھے، جن کے ایک ’’چماٹ‘‘ سے ہی سارا نیٹ ورک خود بخود آجاتا تھا۔۔آپ اگر کبھی مشاہدہ کریں تو آج کل کلاس میں سب سے آخری لائن میں بیٹھنے والے لڑکے رزلٹ والے دن مسجد کی پہلی لائن میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔۔ٹیچر نے ایک بار جب اردو کی کلاس میںسوال کیا کہ ایسا کیاکیا جائے کہ سانپ بھی مرجائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے تو پوری کلاس میں صرف ہمارا ہی ہاتھ بلند تھا،جھٹ پٹ کھڑے ہوکر جواب دیا۔۔سانپ کو جوتے سے ماردو۔۔ویسے یہ بات بھی سوفیصد حقیقت ہے کہ ملک میں پانی کے بحران میں پرائمری اسکولوں اور مدرسے کے بچوںکا بڑا ہاتھ ہے۔۔ جو ہردومنٹ بعد پوچھتے ہیں۔۔ میڈم جی پانی پی آواں؟؟ اشتادجی، پانی پی آواں۔۔؟؟؟ آج کل کے دور کے بچے ہر معاملے میں ہم لوگوں سے بہت ’’فاروڈ‘‘ ہیں۔۔دوسری جماعت میں ایک لڑکے نے اپنی کلاس فیلو سے پوچھا۔۔میں پانچ سال کا ہوں اور تم؟؟ کلاس فیلو کہنے لگی۔۔میں ابھی چارسال کی ہوں۔۔ لڑکے نے کہا، پھر چلیں میری سائیکل پر؟؟ کلاس فیلو نے شرماتے ہوئے پوچھا، کہاں؟؟ لڑکے نے کہا۔۔پولیو کے قطرے پینے۔۔

تعلیم کے حوالے سے ہمارے ملک میں بلاشبہ لڑکیاں بہت حساس اور لڑکوں سے کافی آگے ہیں۔۔ ایک لڑکی روتے ہوئے کہہ رہی تھی۔۔آں،آں،آں پھر سے اکیانوے فیصد مارکس۔۔ دوسری منہ بسورتے ہوئے کہنے لگی۔۔تین بار دہرانے کے بعد بھی بانوے فیصدآئے بس۔۔تیسری نمدیدہ آنکھوں سے بولی۔۔ترانوے فیصد کے ساتھ مما کو کیا منہ دکھاؤں گی؟؟ چوتھی کے تو آنسو ہی نہیں رک رہے تھے، وہ کہہ رہی تھی۔۔ صرف چھیانوے فیصد۔۔کہاں کمی رہ گئی تھی۔۔۔اب لڑکوں کا حال ملاحظہ کیجئے۔۔ پہلا لڑکا۔۔تیرے بھائی نے اس بار فیل ہونے کا سلسلہ ہی ختم کرڈالا۔۔اس بار پورے اکتالیس فیصد مارکس آئے۔۔دے تالی۔۔ دوسرا کہنے لگا۔۔ پاپاتو پورے خاندان کوٹریٹ دیں گے ان کا بیٹا پاس ہوگیا۔۔ تیسرا بولا۔۔وہ تو سر نے تین پیپرز میں نقل کرنے دی تو چوالیس فیصد مارکس آگئے ورنہ بینڈ بج جانی تھی جانی۔۔چوتھے نے کہا۔۔ تیرا بھائی باڈر کو ہاتھ لگا آیا ہے۔۔پورے تینتیس فیصد۔۔۔نا ایک کم نا ایک زیادہ۔۔جی اوہ شیرا۔۔

اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ بے عزت انسان کی زندگی گندگی کے اس ڈھیر کی مانند ہے جہاں پر صرف جانور ہی کچھ تلاش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں