سویلینز ٹرائلز،آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلوں کی اجازت دے دی
شیئر کریں
سویلینز کے ملٹری ٹرائل سے متعلق کیس میں سپریم کورٹ کے آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں کو فیصلے سنانے کی اجازت دیدی۔جسٹس امین الدین کی سربراہی میں آئینی بنچ نے فوجی عدالتوں میں سویلنز کے ٹرائل کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔جسٹس امین الدین نے کہا ہے کہ آج صرف فوجی عدالتوں والا کیس ہی سنا جائے گا۔سماعت کے آغاز پر وزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث روسٹرم پر آ گئے اور انہوں نے دلائل دیئے۔جسٹس مندوخیل نے کہا کہ افواج پاکستان میں کوئی شخص زبردستی نہیں، اپنی مرضی سے جاتا ہے، فوج میں شامل ہونے والے کو معلوم ہوتا ہے اس پر آرمی ایکٹ لاگو ہو گا اور آرمی ایکٹ کے تحت بنیادی حقوق میسر نہیں ہوتے، آرمی ایکٹ بنایا ہی فوج کی ملازمت کے قواعد اور ڈسپلن کے لیے ہے، اس پر وکیل خواجہ حار ث نے کہا کہ فوج میں کوئی بھی جرم کی نیت سے نہیں جاتا، بنیادی حقوق جرم کرنے پر ہی ختم ہوتے ہیں۔جسٹس مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا اپیل میں سپریم کورٹ صرف اپیل کنندہ کی استدعا تک محدود رہے گی؟ کیا عدالت فیصلے کے دیگر پہلو کا بھی جائزہ لے سکتی ہے؟ اس پر جسٹس امین الدین نے ریمارکس دیے کہ فریقین اپنی معروضات تک محدود رہ سکتے ہیں لیکن عدالت نہیں۔سماعت کے اختتام پر آئینی بینچ نے کیس میں آج کی سماعت کا آرڈر جاری کرتے ہوئے فوجی عدالتوں کو ملزمان کے فیصلے سنانے کی اجازت دے دی۔آئینی بینچ نے کہا کہ فوجی عدالتوں کے فیصلے سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمہ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے، جن ملزمان کو سزاؤں میں رعایت مل سکتی ہے وہ دے کر رہا کیا جائے، جن کو رہا نہیں کیا جا سکتا انہیں سزا سناکر جیلوں میں منتقل کیا جائے۔ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے ملٹری کورٹس میں سویلین کے ٹرائل سے متعلق کیس کی سماعت موسم سرما کی چھٹیوں تک ملتوی کردی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث سے کہا کہ اس نکتے پر دلائل دیں کہ آرمی ایکٹ کی کالعدم دفعات آئین کے مطابق ہیں، کیا آرمی ایکٹ میں ترمیم کر کے ہر فرد کو اس کے زمرے میں لایا جا سکتا ہے؟ اس پہلو کو بھی مد نظر رکھیں کہ آرمی ایکٹ 1973کے آئین سے پہلے بنا تھا۔جسٹس محمد علی مظہر نے سوال کیا کہ پہلے بتائیں عدالتی فیصلے میں دفعات کالعدم کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں خرابیاں ہیں۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدالتی فیصلے کو اتنا بے توقیر تو نہ کریں کہ اسے خراب کہیں، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ معذرت خواہ ہوں میرے الفاظ قانونی نوعیت کے نہیں تھے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ کل بھی کہا تھا کہ 9مئی کے واقعات کی تفصیلات فراہم کریں، فی الحال تو ہمارے سامنے معاملہ صرف کور کمانڈر ہائوس کا ہے، اگر کیس صرف کور کمانڈر ہائوس تک ہی رکھنا ہے تو بھی آگاہ کر دیں۔