بشار الاسد کی رخصتی اور گریٹراسرائیل کے منصوبے میں تیزی
شیئر کریں
جاوید محمود
اسرائیل اپنے گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر بڑی ہوشیاری سے ہر موقع پر کام کرتا رہتا ہے۔ یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ صدام حسین فلسطینیوں کو امداد فراہم کرتا تھا ،بڑی طاقتوں اور اسرائیل کو اس کی یہ ادا پسند نہ تھی۔ صدام حسین کو کو اس کی بہت بڑی قیمت ادا کرنی پڑی۔ عراق پر بے بنیاد وسیع پیمانے پرتباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے رکھنے کا الزام لگا کر حملہ کر دیا گیا اور اسے کھنڈر میں بدل دیا ۔ اگرچہ بعد میں برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر نے ایک پریس کانفرنس میں عراقی قوم سے معافی مانگتے ہوئے اعتراف کیا کہ انٹیلی جنس اداروں کی غلط معلومات پریہ اقدام اٹھایا گیا ۔اسرائیل کو اس کا بڑا فائدہ پہنچا اور یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ اسرائیل نے اس کے بعد جو اقدامات کیے وہ آج تک نظر آرہے ہیں ۔واضح رہے کہ صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے اسرائیل شام میں عسکری اہداف پر اب تک سینکڑوں حملے کر چکا ہے اس کے علاوہ اسرائیلی فوج نے اسرائیل اور شام کے درمیان واقع گولان کی پہاڑیوں میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی قائم غیر فوجی زون یا بفر زون پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
اسرائیلی فوج نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس کے جنگی طیاروں نے چند دنوں کے دوران شام کے مختلف علاقوں میں متحدہ فوجی اور عسکری شدت پسندوں کے اہداف پر 350سے زیادہ فضائی حملے کیے۔ ایس او ایچ آر کے مطابق ان حملوں کا ہدف حلب اور دمشق میں موجود شامی فوج کی تنصیبات تھیں جن علاقوں میں حملے کیے گئے ہیں ان میں حلب ،دمشق، لتاکیا طرطوس اور دیگر علاقے شامل ہیں ۔ایس او ایچ آر کے بانی کہتے ہیں کہ اسرائیلی حملے کا مقصد شام کی فوج کی لڑنے کی صلاحیت کو ختم کرنا ہے ان کا مزید کہنا تھا کہ شام کی سرحدی اور فضائی حدود کی مسلسل پامالی کی جا رہی ہے۔ اسرائیل کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ سابق شامی صدر بشار الاسد کے کیمیائی ہتھیاروں کا ذخیرہ اب کس کے پاس جائے گا۔ اس بارے میں کوئی مصدقہ اطلاعات نہیں کہ شام میں کہاں اور کتنے کیمیائی ہتھیار موجود ہیں ۔تاہم یہ بات یقینی ہے کہ سابق صدر نے کیمیائی ہتھیار جمع کیے تھے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے ادارے نے شامی حکام کو متنبہ کیا تھا کہ اگر ان کے پاس کیمیائی ہتھیار موجود ہیں تو انہیں محفوظ بنانے کی ضرورت ہے۔ شام میں اقوام متحدہ کے ہتھیاروں کے سابق انسپکٹر اور سوئیڈن کی امیہ یونیورسٹی میں پروفیسر سلیکٹروم کا کہنا ہے کہ اسرائیل فضائی حملوں کے ذریعے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت کو نشانہ بنا رہا ہے ۔بشار الاسد کی فوج نے 2013میں دمشق کے مضافاتی علاقے غوطہ میں ایک حملے میں سیرین گیس استعمال کی تھی اور اس حملے میں ایک ہزار سے زائد افراد کے مارے جانے کی اطلاع تھی ۔شام کی فوج پر الزامات ہیں کہ انہوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی سیرین اور گلورین گیس سے بنے کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے ۔ڈاکٹر سیلسٹورم کا کہنا ہے کہ شاید شام پر قبضہ کرنے والے باغیوں کے پاس بھی کیمیائی ہتھیار موجود ہوں کیونکہ ان پر بھی الزام ہے کہ انہوں نے اپنے مخالفین پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تھے ۔ان کا کہنا ہے کہ بشار الاسد نے یہ ہتھیار اس لیے رکھے تھے تاکہ اسرائیل کے ساتھ تنازع میں کسی حد تک طاقت کا توازن پیدا ہو سکے لیکن وہ ان ہتھیاروں کو اسرائیل کے خلاف استعمال کرنے میں کبھی پہل نہ کرنے کے خواہاں تھے لیکن اب شام میں ایک بالکل ہی مختلف حکومت ہے ۔چند روز قبل اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے اعلان کیا تھا کہ ان کی فوج نے گولان کی پہاڑوں میں اقوام متحدہ کے زیر نگرانی قائم غیر فوجی زون یا بفر زون کا کنٹرول سنبھال لیا ہے ۔اسرائیلی فوج کی جانب سے گولان کی پہاڑیوں میں قائم غیر فوجی زون پر قبضے کی سعودی عرب سمیت دیگر عرب ممالک نے شدید مذمت کی ہے۔ مصر کے وزارت خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو شام کی سرزمین پر قبضہ اور 1974کے معاہدے کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج غیر فوجی زون سے کہیں آگے نکل چکی ہے اور دمش سے محض 25 کلومیٹر کے فاصلے پر موجود ہے۔ اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ اس کی فورسزگولان کی پہاڑیوں کے بفر زون سے کچھ آگے پہنچ چکی ہیں۔ واضح رہے کہ گولان کی پہاڑیاں شام کا وہ علاقہ ہے جس پر اسرائیل نے 1967سے قبضہ کر رکھا ہے ۔گولان کی پہاڑیاں 1200 مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں یہ شامی دارالحکومت دمشق سے تقریبا 60 کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہیں۔ 1973 کی جنگ کے دوران شام نے ان پہاڑیوں کا کنٹرول واپس حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام رہے۔ 1974 میں شام اور اسرائیل نے جنگ بندی کے معاہدے پردستخط کیے اور تب سے اقوام متحدہ کی نگران فوج وہاں تعینات ہے۔ 1981میں اس علاقے کو اسرائیل نے یک طرفہ طور پر اپنا علاقہ قرار دے دیا۔ تاہم اسرائیل کے اس الزام کو عالمی سطح پر تسلیم نہیں کیا گیا اور اسے سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔اس علاقے میں تقریبا 30 یہودی بستیاں قائم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق اب تک یہاں 20 ہزار یہودی آباد کار منتقل ہو چکے ہیں۔ اس علاقے میں تقریبا 20ہزار شامی شہری بھی رہتے ہیں۔ شام اور اسرائیل کے درمیان سرحدی اہمیت کے ساتھ ساتھ اس کے ایک جانب لبنان اور دوسری جانب اردن کی سرحد بھی لگتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ اسرائیلی فوج کا گولان کی پہاڑیوں میں قائم بفر زون پر قبضہ عارضی ہے مگر فوج کا انخلا آنے والی شامی حکومت کے رویے پر منحصر ہے۔ لندن میں قائم تھنک ٹینک رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹیٹیوٹ کے ڈائریکٹر ایچ اے ہیللیر کا کہنا ہے کہ اسرائیل میں یہ سوچ پائی جاتی ہے کہ شام کی جانب سے فورسز گولان میں داخل ہونے کی کوشش کر سکتی ہے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ اس کا کوئی امکان موجود نہ رہے ،اسرائیلی فوج سرحد میں مزید اندر تک داخل ہو گئی ہے۔ اسرائیل نے پہلے بھی گولان کی پہاڑیوں پر حفاظتی اقدام کے طور پر قبضہ کیا تھا اور پھر بعد میں اپنی پوزیشن کو مضبوط کر لیا ۔وہ دوبارہ بھی ایسا کر سکتا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ گیڈون سار نے کہا ہے کہ ان کی فوج شام کے فوجی اڈوں پر فضائی حملے صرف اور صرف اپنے شہریوں کے دفاع کے لیے کر رہی ہے۔ اسرائیل ماضی میں بھی قبضہ کرنے سے پہلے اور قبضہ کرنے کے بعد اس طرح کے بہانے بناتا رہا ہے۔ اسرائیلی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل اسٹریٹیجک ہتھیاروں کے نظام پر حملہ کرتا ہے جیسے باقی ماندہ کیمیائی ہتھیار یا طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل اور راکٹ تاکہ وہ شدت پسندوں کے ہاتھ نہ لگ سکیں، جبکہ پروفیسر اچکار کے خیال میں شام میں بڑے پیمانے پر کیمیائی
ہتھیار موجود نہیں ہیں۔ ان کے مطابق وہ صرف دو یا تین مقامات پر ہیں لیکن 300سے زائد حملے کر کے آپ ملک شام کو بہت زیادہ کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ان کا کہنا ہے کہ اسرائیلیوں کی نظر میں بشار الاسد ایک ایسا شیطان تھا جسے وہ جانتے تھے لیکن اسد کے بعد کیا ہوگا اس کے بارے میں کافی غیر یقینی پائی جاتی ہے۔ ان کو ڈر ہے کہ لیبیا کی طرح شام بھی مختلف متحارب دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گا اور کوئی ایسا دھڑا برسراقتدار نہ آجائے جو اسرائیل سے دشمنی رکھتا ہو ۔یاد رہے کہ صدام حسین کا تختہ الٹنے کے بعد اسرائیل نے گریٹر اسرائیل کے منصوبے پر کام تیز کر دیا تھا۔ اب واضح نظر آرہا ہے کہ بشار الاسد کی حکومت کے جانے کے بعد اسرائیل اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے حتی الامکان تیزی لائے گا۔