عدالت کا کام نہیں کہ لوگوں کوڈھونڈے،نہ ڈھونڈسکتی ہے، چیف جسٹس ہائی کورٹ
شیئر کریں
اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ عدالت کا کام نہیں کہ لوگوں کوڈھونڈے،نہ ڈھونڈسکتی ہے، ریاست کی خواہش ہی نہیں،جبری گمشدگیوں کاکمیشن بھی آئین کیخلاف بنا ہے، ریاست کے اندر ریاست نہیں ہوسکتی، ایسا نہیں ہوسکتا کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والا کسی کو جاکر اٹھالے،آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جاسکا،یہ تو سیدھا آرٹیکل 6 کا جرم ہے۔ پیر کو ہائیکورٹ میں صحافی بلاگر مدثرنارو کی بازیابی کیلئے دائر درخواست پرسماعت ہوئی ہے۔ پٹیشنر کی جانب سے ایمان مزاری ایڈووکیٹ عدالت میں پیش ہوئیں۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مدثرنارو کی فیملی کی وزیراعظم سے ملاقات کرائی گئی، وزیراعظم نے خصوصی ہدایات جاری کی ہیں، حکومت اس معاملے کو بہت سنجیدہ لے رہی ہے، عدالت سے استدعا ہے کچھ وقت دیا جائے۔چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ عدالت کا کام نہیں کہ لوگوں کوڈھونڈے،نہ ڈھونڈسکتی ہے، ریاست کی خواہش ہی نہیں،جبری گمشدگیوں کاکمیشن بھی آئین کیخلاف بناہے ، صرف فیملیزاس کمیشن میں جاتی ہیں جنہیں تاریخ دیدی جاتی ہے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے ریمارکس دئیے گئے کہ ریاست کے اندر ریاست نہیں ہوسکتی، ایسا نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والا کسی کو جاکر اٹھالے۔عدالت نے ریمارکس میں کہا کہ وزیرانسانی حقوق نے کہاقانون بنارہے ہیں،قانون کی تو ضرورت ہی نہیں، ہزاروں فیملیزہیں جنہیں ریاست سنبھال ہی نہیں رہی، ریاست کے اندرریاست نہیں ہوسکتی، آج تک کسی کو ٹریس نہیں کیا جاسکا،یہ تو سیدھا آرٹیکل 6 کا جرم ہے جس پر اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ ایسا نہیں کہ لاپتہ افراد کا معاملہ موجودہ حکومت کے دورمیں شروع ہوا،یہ معاملہ موجودہ حکومت کو وراثت میں ملا، ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ کتابیں لکھتے ہیں۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ریٹائرمنٹ کے بعد سب صوفی بن جاتے ہیں۔اٹارنی جنرل نے کہا اس معاملے کاایک بیک گرائونڈہے کہ اسی ملک میں خودکش دھماکے ہوتے تھے، بہت سارے کیسز ہیں جن میں لوگوں نے اپنی مرضی سے سرحد پار کی، سینکڑوں پاکستانیوں نے جہادکے نام پربارڈرکراس کیا، افغانستان گئے۔انہوں نے کہا کہ اب وقت آگیا ہے اسیروکا جائے، مدثرنارو نے تنقید کے علاوہ ایسا کچھ نہیں کیا کہ لاپتہ کردیا جائے،اٹارنی جنرل نے کہا صحافی کا کام ہے کہ وہ تنقید کرے۔چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ جبری گمشدگیاں آئین سے انحراف ہے،دہشتگردکوبھی ماورائے عدالت نہیں مارسکتے،ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ کوئی بھی ڈپارٹمنٹ والا کسی کوجاکراٹھالے،لوگ چار چار سال سے جبری گمشدگیوں کے کمیشن کے پاس جارہے ہیں،جبری گمشدگیوں کے کمیشن کا جو کام تھا وہ اس نے نہیں کیا۔اٹارنی جنرل نے کہا کہ المیہ یہ ہے ہمیں جغرافیائی حالات،قومی سلامتی کا معاملہ بھی دیکھنا ہے۔