میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آرمی چیف کی مدت میں توسیع، سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہے ، فواد چودھری

آرمی چیف کی مدت میں توسیع، سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہے ، فواد چودھری

ویب ڈیسک
هفته, ۱۴ دسمبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

وفاقی وزیر فواد حسین چودھری کا کہنا ہے کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں قانونی سقم موجود ہے ۔ وفاقی کابینہ کو تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے ، جس کے بعد اس پر نظرثانی کی درخواست دائر کرنے نہ کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے گا سب جماعتیں سمجھتی ہیں کہ خطے کی صورت حال کے پیش نظر فوج کے سربراہ کی مدت میں توسیع ایک مناسب اقدام ہے ۔ اس پر کوئی ابہام نہیں پایا جاتا ہے ۔ ملک کے اداروں کے درمیاں اختیارات اور کردار کے حوالے سے بحث ہوتی رہتی ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت، حزب اختلاف، فوج و عدلیہ بیٹھ کر اپنی حدود کا تعین کریں۔ان کے بقول، بصورت دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ جاری رہے گی ، پارلیمان کو اعلی اور معتبر ادارہ بنائے بغیر پاکستان آگے نہیں جا سکتا۔’۔ امریکی نشریاتی ادارے کو دیے گئے انٹرویو میں فواد چوہدری نے کہا کہ اعلی سطح کے اس بینچ کی قانونی قابلیت پر اگرچہ سوال اٹھانے کی بہت کم گنجائش ہے ، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے فیصلے میں بہت سقم ہیں۔سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ آرٹیکل 243 کو تو بلکل ختم ہی کر دیتا ہے ۔ سپریم کورٹ پارلیمان کو نہیں کہہ سکتی کہ آپ یہ قانون سازی کریں اور وہ قانون سازی نہ کی جائے یا یہ کہ اس مدت کا آئین میں تعین کریں۔فوج کے سربراہ کی مدت ملازمت کا آئینی حوالہ دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے کہا کہ 1956 اور 1962 کے آئین میں فوج کے سربراہ کی مدت کا تعین کیا گیا تھا۔ تاہم، 1973 کے آئین میں پارلیمنٹ نے پوری بحث کے بعد مدت کا تعین ختم کیا تھا۔انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین بنانے والی پارلیمنٹ چاہتی تھی کہ وزیر اعظم بااختیار ہو اور وہ جب چاہیں آرمی چیف کو ہٹا سکیں۔فواد چوہدری کے مطابق، اگر آپ مدت کا تعین آئین میں رکھیں گے تو اسے ہٹائیں گے کیسے ؟ لہذا، سپریم کورٹ کے اس فیصلے میں سقم موجود ہے اور قانونی طور پر اس سقم کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے ۔اس سوال پر کہ کیا حکومت سپریم کورٹ میں اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کرے گی؟ وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ میری رائے تو یہی ہے کہ اس فیصلے پر نظرثانی کی درخواست دائر کی جانی چاہیے اور اس حوالے سے وفاقی کابینہ میں مختلف تجاویز زیر غور ہیں۔پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی حکومت کی حکمت عملی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ حکومت کو سپریم کورٹ کے تفصیلی فیصلے کا انتظار ہے جس کے بعد اس بارے میں حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے حوالے سے قانون سازی پر فواد چوہدری نے کہا کہ سب جماعتیں سمجھتی ہیں کہ خطے کی صورت حال کے پیش نظر فوج کے سربراہ کی مدت میں توسیع ایک مناسب اقدام ہے ۔ اس پر کوئی ابہام نہیں پایا جاتا ہے ۔ ملک کے اداروں کے درمیاں اختیارات اور کردار کے حوالے سے بحث ہوتی رہتی ہے ۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت، حزب اختلاف، فوج و عدلیہ بیٹھ کر اپنی حدود کا تعین کریں۔ان کے بقول، بصورت دیگر اداروں کے درمیان اختیارات کی جنگ جاری رہے گی۔ آرٹیکل 62-63 کے تحت تمام اراکین پارلیمنٹ کا احتساب کیا جاتا ہے ، لیکن خود پارلیمنٹ کی پبلک اکانٹس کمیٹی میں احتساب کے لیے آنے کو تیار نہیں ہے ۔ سب چاہتے ہیں کہ ان کے احتساب کے عمل کو نہ چھیڑا جائے ۔ جب تک پارلیمان کو اعلی اور معتبر ادارہ نہیں بنایا جائے گا پاکستان آگے نہیں جا سکتا۔’حزب اختلاف نے ایوان کو سنجیدہ نہیں لیا’اپوزیشن جماعتوں کا ذکر کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ حزب اختلاف نے پارلیمنٹ کو سنجیدہ نہیں لیا۔ وہ محض بدعنوانی کے مقدمات کا دفاع کرنے کے لیے پارلیمنٹ میں آتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کو بااختیار بنانے کے حوالے سے حکومت و اپوزیشن نے ماضی میں بھی کوتاہی برتی ہے ۔ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کا معاملہ ہو یانیب قوانین میں تبدیلی کی بات ہو، ان معاملات پر پارلیمنٹ میں بحث اور فیصلے ہونے چاہئیں۔ اپوزیشن جب بھی پارلیمنٹ میں بات کرتی ہے کہتی ہے کہ حکومت بدعنوانی میں گرفتار لوگوں کے خلاف کارروائی نہ کرے یا سودے بازی کرے جس کے باعث بات چیت میں تعطل پیدا ہو جاتا ہے ۔’نواز شریف اور زرداری کو جیل میں رکھنے میں دلچسپی نہیں’حزب اختلاف کے رہنماؤں کا ذکر کرتے ہوئے فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ بدعنوانی کے مقدمات میں ضمانت پانے والے سابق وزیر اعظم نواز شریف اور سابق صدر آصف علی زرداری کو جیل میں رکھنے میں حکومت کو خاص دلچسپی نہیں ہے بلکہ عوام کو سر و کار یہ ہے کہ بدعنوانی کا پیسہ واپس قومی خزانے میں کیسے لایا جائے ۔ آصف علی زرداری کے اثاثے زیادہ تر پاکستان میں ہیں۔ البتہ، نواز شریف کے خاندان کے زیادہ تر لوگ اور جائیدادیں ملک سے باہر ہیں جو کہ حکومت کے لیے ایک چیلنج ہے ۔وفاقی وزیر نے بتایا کہ اس معاملے پر برطانوی حکومت کے ساتھ سنجیدہ بات چیت چل رہی ہے ۔ اگر ان کی جانب سے تعاون ہوا تو لندن میں شریف خاندان کے اثاثے حکومت پاکستان کے حوالے ہو سکتے ہیں۔ضمانت پر رہائی کے بعد علاج کے لیے نواز شریف کے بیرون ملک جانے کے معاملے پر بات کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا کہ سابق وزیر اعظم کے بیرون ملک جانے سے ان کا بیانیہ تباہ ہو گیا ہے ۔ جس انداز سے نواز شریف ملک سے باہر گئے اس پر ابہام پایا جاتا ہے ، جس کی عکاسی میڈیا اور حکومتی رہنماؤں کے بیانات میں ہوتی رہی۔’حکومت اصلاحات میں ناکام رہی۔ 15 ماہ میں حکومت کا کوئی اسکینڈل سامنے نہیں آیا جبکہ معاشی اشاریے بہتر ہونا حکومت کی بڑی کامیابیاں ہیں، جس قسم کی بحرانی صورت حال میں تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تھی۔ پاکستان کے حالات وینزویلا سے مختلف نہیں تھے ۔ بحرانی صورت حال میں ڈالر کی قیمت 500 روپے تک بھی جا سکتی تھی۔ اداروں میں اصلاحات نہ کر پانے کو وہ حکومت کی بڑی ناکامی تصور کرتے ہیں، جس کی وجہ ان کے خیال میں وزیر اعظم کا معیشت پر توجہ مرکوز رکھنا تھا۔فواد چوہدری نے کہا کہ حکومتی اداروں میں اصلاحات کے حوالے سے وہ اختلاف رائے رکھتے ہیں کہ اصلاحات کے عمل کا آغاز وفاق سے نہیں صوبوں سے ہونا چاہیے ۔انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں اصلاحات کی کمیٹی صرف وفاق کے اداروں میں کام کر رہی ہے جو کہ ہماری بڑی غلطی ہے ۔ اصلاحات کا مرکز صوبے ہیں وفاق نہیں۔ پولیس، تعلیم، صحت اور طرز حکومت میں بہتری صوبوں سے آنی ہے ۔’بائیو ٹیکنالوجی کو جی ڈی پی کا چار فی صد چاہتے ہیں’سائنس و ٹیکنالوجی کے وفاقی وزیر کہتے ہیں کہ وزیر اعظم کو ان کی وزارت کے امور میں کافی دلچسپی ہے اور وہ پاکستان کے مستقبل کی بنیاد سائنس، ٹیکنالوجی، علم اور جدت پسندی پر رکھنا چاہتے ہیں۔ جب دنیا بھر میں سائنس و ٹیکنالوجی کا بجٹ بڑھایا جا رہا تھا تو سابق حکومت نے اس وزارت کا بجٹ تین ارب 30 کروڑ روپے سے کم کرکے ایک ارب 30 کروڑ روپے کر دیا تھا۔ گزشتہ آٹھ ماہ میں سائنس و ٹیکنالوجی کی وزارت کے بجٹ میں 600 گنا اضافہ کیا گیا ہے جو کہ آئندہ مالی سال میں 20 ارب روپے تک لے جایا جائے گا۔فواد چوہدری نے بتایا کہ انہوں میں ملک بھر کے 500 سے زائد سائنس و تحقیقات کے اداروں کے درمیان اشتراک اور ہم آہنگی کے لیے ایک لائحہ عمل ترتیب دیا ہے جس سے تحقیق کی مد میں دوہرے اخراجات میں کمی اور تجربات میں اضافہ ہوگا۔ بائیو ٹیکنالوجی کو ملکی جی ڈی پی کا چار فیصد دیکھنا چاہتے ہیں اور 2030 تک بائیو ٹیکنالوجی سے 30 ارب روپے کی برآمدات کر پائیں گے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں