میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بہاری: محب ِ وطن پاکستانی یا تارکینِ وطن؟

بہاری: محب ِ وطن پاکستانی یا تارکینِ وطن؟

منتظم
جمعرات, ۱۴ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

20 دسمبر 1906ء کو ڈھاکہ میں آل انڈیا مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا، آگے چل کر اسی مسلم لیگ نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں قیام پاکستان کی جدوجہد کا آغاز کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے پورے برصغیر کے مسلمان اس تحریک سے وابستہ ہوگئے۔ جب تحریکِ پاکستان نے مسلمانانِ ہند سے لہو کاخراج مانگا تو سب سے پہلے 26 اکتوبر 1946 ء کو صوبہ بہار کے ضلع چھپر ا و دیگر علاقوں میں ہندو مسلم فسادات میں مسلم لیگ کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق تقریباً 50,000 ہزار بہاری مسلمان شہید ہوئے۔ بہار میں فسادات کے بعد ہی سب سے پہلے قائداعظم محمد علی جناح نے وائسرائے ہند کو لکھا کہ بہار میں بڑے پیمانے پرمسلمانوں کے قتلِ عام کے بعد مسلم اقلیت کا ہندو اکثریت کے ساتھ رہنا محال ہے۔ لہٰذا تقسیم ہند کا مطالبہ کیا جائے ، دوسری طرف ان فسادات کے نتیجے میں ردعمل کے طور پر پورے برصغیر میں فسادات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس میں سب سے زیادہ متاثر اقلیتی صوبوں کے مسلمان ہوئے، بہارمیں مسلمانوں کی آبادی صرف 14 فیصد تھی لہٰذا مطالبہ پاکستان کی پاداش میں ہندو اکثریت نے خوب جی بھر کر مسلمانانِ بہار کے خون سے اپنی آتشِ انتقام سرد کی۔
قیامِ پاکستان کے بعد لاکھوں مسلمانانِ بہار ہجرت کرکے مشرقی پاکستان آکر آباد ہوگئے اور ہر شعبہ زندگی میںمنہمک ہوکر پاکستان کی تعمیر و ترقی میں لگ گئے۔مگر آزادی کا خمار ابھی اترا بھی نہیں تھا کہ صرف 25 سال بعد ان پر ایک اور قیامت ٹوٹ پڑی۔ تنکا تنکا جمع کرکے جو آشیانہ بنایا تھا ،سب برباد ہوگیا۔ایک دفعہ پھر بستیاں تاراج ہوئیں، پھر بچے یتیم ہوئے، مائوں کی گود اور بہنوں کا سہاگ اجڑا، عصمت و عفت پر شب خون پڑا، مسلمانانِ بہار نے ناموس پاکستان کے لیے سب کچھ قربان کردینا گوارا کرلیا مگر شمعِ پاکستان کے ان پروانوںنے پایۂ ِ استقامت میں لغزش نہ آنے دی۔اگر چاہتے تو بنگالی اکثریت کے ساتھ اپنا مقدر جوڑ لیتے۔مگر پاکستان اور نظریہ ٔ ِ پاکستان سے انحراف ان کے نزدیک ایک گناہِ عظیم تھا، افواج پاکستان کی مشرقی کمانڈ کے افسران و جوان جنرل اے کے نیازی، جنرل رائو فرمان علی، بریگیڈیئر ایس ایس اے قاسم، بریگیڈیئر صلاح الدین، کرنل اسلم زیدی اور دیگر نے اپنی تحریر و تقریر میں بربلا اعتراف کیا ہے کہ اگر 1971 ء کی جنگ میںمشرقی پاکستان میں بہاری ہمارا ساتھ نہ دیتے تو شاید پاکستانی فوج کا ایک بھی جوان زندہ واپس نہ آتا۔یہ بہاری مسلمانوں کی پاکستان سے محبت کی سنہری تاریخ ہے۔قیامِ پاکستان سے لیکر دفاعِ پاکستان تک درجِ بالا تاریخی حقائق کی روشنی میں بہاریوں کا کردار حب الوطنی اور وفا شعاری کی ایک ایسی مثال ہے جس کی نظیر ِ انسانی تاریخ آج تک پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اسی کے ساتھ ساتھ احسان فراموشی، بے اعتناعی، بے حسی، بے مروتی اور قومی بے شرمی کی جو مثال حکومت اور اہلِ پاکستان انہیں فراموش کرکے پیش کررہے ہیں، وہ بھی رہتی دنیا تک شاید اپنی مثال آپ ہو۔
اب کرکے فراموش تو ناشاد کرو گے
پر ہم جو نہ ہوں گے تو بہت یاد کرو گے
بار بار حب الوطنی کا ثبوت دینے والے تین لاکھ سے زائد محصورین ،بے بس اور مجبور پاکستانی 47 سالوں سے بنگلہ دیش کے 70 سے زائد کیمپوں میں اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اب تک ان کی تین نسلوں کا مقدر ذلت و رسوائی کی بھینٹ چڑھ چکا ہے مگر ان کی سزاہے کہ ختم ہی نہیں ہورہی۔ شاید ان کا جرم ہی اتنا سنگین ہے کہ ان کی غربت اور کسمپرسی کی قید سے رہائی ممکن نہیں ہو پارہی۔ ستم بالائے ستم یہ کہ صدر ضیاء الحق کے دور میں جو محصُورین اپنی مدد آپ کے تحت پاکستان منتقل ہوگئے تھے اور اس وقت کی حکومت نے بلا حیل و حجت انہیں شہریت کی تمام دستاویزات یعنی قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ وغیرہ جاری کردی تھیں۔ مگر موجودہ حکومت نے انہیں منسوخ کرکے بہاریوں کو نادر ا (NADRA)کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ حالانکہ سب جانتے ہیں کہ بہاری کیوں، کیسے اور کتنے پاکستانی ہیں! مگر شاباش ہے موجودہ روشن خیال، اعتدال پسند حکومت پر کہ محصورین کی منتقلی تو درکنار پاکستان میں 47 سال سے مقیم بہاریوں کو بھی ان کی شناخت سے محروم کرنے کا قابلِ فخر کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔ ’’اندھیر نگری چوپٹ راج ‘‘چلانے والے عقل کے اندھوں کو محب وطن ،حقیقی پاکستانیوں اور غیر ملکی تارکینِ وطن میں فرق نظرنہیں آتا۔ نادرا کے حکام بالا یا نادرا کو کنٹرول کرنے والی وزارتِ داخلہ یا اس پورے سسٹم کو کنٹرول کرنے والی اتھارٹی اگر بہاریوں کی تاریخ سے واقف نہیں تو اپنے ان پیٹی بند بھائیوں سے معلوم کرلیں جنہوں نے 16 دسمبر 1971 ء کو ڈھاکہ میں ہتھیار ڈال دیئے تھے مگر بہاری اس کے بعد بھی 18دسمبر تک لڑتے رہے اور آج بھی کیمپوں کو پاکستان ہی کا درجہ دیتے ہیں۔
اکہتر میں جو پاکستان کی امداد کردی تھی
اکہتر کیمپس میں محصور ہیں گھر بار کے ترسے
حب الوطنی اگر صرف زمین سے جدی پشتی رشتے کا نام ہے تو پھر اندرا گاندھی کے بقول نظریہ ٔ ِ پاکستان (دو قومی نظریہ) خلیج بنگال میں غرق ہوچکا اور اگر نظریہ ٔ ِ پاکستان اپنی اصل روح کے ساتھ زندہ ہے جو بانیانِ پاکستان کا مطمع نظر تھا تو پھر محصور پاکستانیوں کے ساتھ روا رکھا گیا متعصبانہ سلوک کیوں؟بھلا وہ ملک اور وہ قوم اقوامِ عالم میں کیونکر محترم اور معتبر ہوسکتی ہے جہاں حب الوطنی گالی بن گئی ہو، جہاں وفاشعاری اور خیر خواہی کے بدلے بے وفائی، بے حسی، سرد مہری، ذلت اور رسوائی کا ایسا عذاب مسلط کردیا جاتا ہو کہ عدل و انصاف، مساوات اور انسانیت شرم سے منہ چھپالے !!محصورین اشکِ پرنم سے نوح کناں ہیں کہ
دیکھو مجھے جو دیدۂ ِ عبرت نگاہ ہو
میری سنو جو گوشِ نصیحت نیوش ہے
چاہے آپ ترقی کی جتنی منازل طے کرلیں، ایٹمی قوت بن جائیں، میزائل ٹیکنالوجی میں کمال حاصل کرلیں، پاکستان کے عالم اسلام کا قلعہ ہونے اور امتِ مسلمہ کی قیادت کے دعوے کریں، دنیا آپ کو پروقار قوم کا درجہ دینے کے لیے تیار نہیں ایک طرف آپ کو بھارت آنکھیں دکھا رہا ہے اور افغانستان بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھا رہا ہے تو دوسری طرف امریکااور برطانیا آپ کے دین کی اساس کو ملیا میٹ کرنے کے لیے زبردستی کے مطالبے (خصوصاً نصابِ تعلیم میں ردوبدل) کررہا ہے ، گویا ہم ایک آزاد اور خود مختار قوم نہیں بلکہ ابھی بھی ان کی کوئی نو آبادی ہوں۔ یہ سلسلہ یونہی دراز ہوتا چلا جائے گا جب تک کہ ہم اپنی روش نہ بدل لیں۔ حضرت علی ؓ نے بجا ارشاد فرمایا کہ کفر کا نظام تو چل سکتا ہے، مگر ظلم، جبر اور ناانصافی کا نظام نہیں چل سکتا اگر ہم نے اپنی خامیوں اور کوتاہیوں کا جو کہ گناہ کی حد تک چلی گئی ہیں، ازالہ نہ کیا تو پھر ایک احکم الحاکمین جج ایساہے جس کی عدالت میں وہ خود ہی گواہ، خود ہی وکیل ہے اور وہ فیصلہ کرنے والا ایسا عادلِ مطلق ہے کہ جس کے فیصلے کے خلاف کہیں اپیل بھی نہیں کی جاسکے کہ وہ سب سے بڑی عدالت ہے اور اس کا فیصلہ آتا ہے تو فوری طور پر نافذالعمل ہوجاتا ہے اور ساری کائنات اس کے فیصلے کی تعمیل کے لیے اپنا سر خم کردیتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں