میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
ہندو، ہندوستان اور مسلمان

ہندو، ہندوستان اور مسلمان

منتظم
بدھ, ۱۴ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ishtiaq-ahmed-khan

اشتیاق احمد خان
یہ ان دنوں کی بات ہے جب ہندوستان سیکولر اور جمہوریت کا علمبردار تھا، انتہا پسندی موجود تو تھی لیکن اسے اقتدار کے ایوانوں میں کھلی چھوٹ نہیں ملی تھی، اس وقت بھی مسلم دشمنی بھی نہ صرف موجود تھی بلکہ انتہائی حدووں کو چھو رہی تھی۔ تقسیم ہند سے اب تک ہندوستان میں مسلم کش فسادات کی تعداد 40 ہزار سے زائد ہیں اور ان فسادات میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 25 سے30 لاکھ ہے۔ دنیا کی نظروں میں اور ریکارڈ پر صرف وہی تعداد آتی ہے جو سرکاری ذرائع بتاتے ہیں اور یہ وہ تعداد ہوتی ہے جو سرکاری اسپتالوں کی طرف رجوع کرتے ہیں یا تھانوں میں اندارج کراتے ہیں، ورنہ ہلاک ہونے والا سڑک کنارے مر گیا ،اس کے لواحقین نے اسپتال اور تھانہ کا رخ کرنے کے بجائے نعش کو گھر لانا ہی بہتر سمجھا، قرابت داروں کو اطلاع دی اور پھر عناصر اربع کو اس کی اصل کی طرف لوٹا دیا۔ نعش کو قبر کے حوالے کیا، مٹی ڈالی ،ہاتھ جھاڑے اور نم ناک آنکھوں کے ساتھ گھر کو لوٹ آئے، چند دن گھر میںسوگ کی فضاءرہی اور پھر معمولات زندگی اپنی ڈگر پر آگئے ،مرنے والے کا نہ ہی اندارج ہوا اور نہ ہی کسی خبر رپورٹ کا حصہ بنا ۔یوں فساد میں ہم ہلاک ہونے والوں کی تعداد کا ایک تہائی بھی ریکارڈ پر نہیں آتا۔
ہندونے ہندوستان میں کبھی بھی مسلمانوں کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تو پھر مثبت اور تعمیری کردار تو تسلیم کیا کیاجانا ؟ تقسیم ہند کے ساتھ ہی ہندوستان کی فلم انڈسڑی نے مغل بادشاہوں کو عیاش ثابت کرنے کا عمل شروع کر دیا تھا ۔انہیں اکبر ،جہانگیر جیسے مغل حکمران تو نظر آتے ہیں لیکن اورنگزیب عالم گیر اور داراشکوہ نظر نہیں آتے ۔۔۔70 کی دہائی میں ایک فلم آئی تھی امراکبر انتھونی ۔
اکبر الہ آبادی نا صرف شاعری میں بڑا مقام رکھتے ہیں بلکہ اگر تحریک آزادی کی بات کی جائے تو اکبر الہ آبادی کا مقام بڑا ہے۔ اکبر الہ آبادی کی شاعری ایک مثبت اور تعمیری سوچ پر مبنی شاعری تھی جس کی ذیل کے اشعار سے تصدیق ہوتی ہے۔
کل بے پردہ جو نظر آئیں چند بیبیاں
اکبر غیرت قومی سے زمیں میں گڑ گیا
پوچھا کہ آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑگیا
دین سے وابستگی کا اظہار یوںہوتا ہے ۔
رپٹ لکھائی ہے رقیبوں نے جا جا کے تھانے میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں
(رپٹ اس زمانے میں رپورٹ یا ایف آئی آرکو کہا جاتا تھا)
لیکن فلم امر اکبر انتھونی کے اس گانے میں اکبر الہ آبادی کو رنگین مزاج اور خواتین کا رسیا ،بلیک میلر ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔گانے کے بول کچھ ایسے تھے ۔
پردہ ہے پردہ ، پردے کے پیچھے پردہ نشین ہے
پردہ نشین کو بے پردہ نہ کردوں تو اکبر میرا نام نہیں ہے
میں ہوں اکبرالہ آبادی ،میں شاعر ہوں حسینوں کا
میںہوں عاشق مہ جبینوں کا ذرا اپنی صورت دکھا دے
سماءخوبصورت بنا دے ورنہ کوئی نام دیکر کوئی الزام دیکر
تجھے اس محفل میں رسواءنہ کر دوں تو اکبر میرا نام نہیں ہے
یہ ہے بھارتی سوچ کا معیار کہ ایک عظیم شاعر کو بلیک میلر ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور یہ اس دور میں ہوا ہے جب کوئی بظاہر انتہا پسند ہندوبھارت میں وزیر اعظم نہیں تھا ۔
جلال الدین اکبرموجودہ سیکولر ازم کا بانی ہے، موجودہ سیکولر ازم اکبری دینِ الہی کا چربہ ہے، سلیم نورالدین جہانگیر ایک دل پھینک شہزادہ ہے جو انار کلی کو باپ کے ہاتھوں زندہ دیوار میں چنوا کر نور جہاں کے عشق میں ڈوب جاتا ہے اورسازش کر کے نور جہاں کے شوہر کو قتل کرا کر اس سے شادی کر لیتا ہے بھارت کو مسلمانوں کے ایسے ہی کردار پسند ہیں۔
امن ہماری ضرورت ہے مجبوری اور کمزوری نہیں اگر پڑوسی پرامن نہیں رہنا چاہتا تو اس کی زبان میں ہی جواب دینا ضروری ہوتا ہے۔ اسلام ظلم کی اجازت نہیں دیتا لیکن ظالم کو ظلم سے روکنے کے لیے برابری کی سطح پہ بدلہ لینے کا حکم بھی دیتا ہے اور اب وقت کا تقاضہ بھی یہی ہے کہ بھارت کو اس کی مسلسل شرانگیزی کا منہ توڑ جواب دیا جائے ۔
سفارت کاروں کی جاسوسی اور تخریب کاری میں ملوث ہونے پر پکڑے جانے کے بعد بھارت جس خفت کا شکار ہے اس کے رد عمل میں بھارت اپنی شرانگیزی کو جارحیت میں بدل سکتا ہے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد اس کا حوصلہ مزید بڑھ گیا ہے۔ اب وقت ہے کہ شرانگیزی کو جارحیت میں تبدیل ہونے سے قبل ہی اس پر واضح کر دیا جائے کہ کسی بھی حماقت کی قیمت علیحدگی کی تحریکیوں کی کامیابی کی صورت میں ادا کرنا ہو گی اور بھارت نہ صرف دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہی نہیں بلکہ ریاست کے طور پر بھی اپنا وجود کھو سکتا ہے طاقت کا نشہ اس کو وجود سے عدم موجود میں پہنچا سکتا ہے ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں