تبلیغ دین اور حکمت
شیئر کریں
سید عامر نجیب
تبلیغ اتنا اہم فریضہ ہے کہ اللہ کی واحدانیت اور رسول اللہ ﷺ کی رسالت کا اقرار کرنے والے ہر فرد پر عائد ہوتا ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہیں کہ مسلمان ہونے کا مطلب اسلام کا مبلغ ہونا بھی ہے ۔ تبلیغی و دعوتی محاذ اسلام کا ترجیحی محاذ ہے جس پر بیک وقت اسلام کی پوری افرادی قوت برسرپیکار رہتی ہے اور دنیا بھر میں اسلام کے پھیلنے کی وجہ بھی دراصل یہی ہے ۔ چناچہ مستشرقین کا اسلام پر یہ الزام بلکل بے بنیاد ہے کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا ہے حالانکہ پوری تاریخ اسلام اس الزام کی تردید کرتی دکھائی دیتی ہے ۔ ایسا ایک مستند واقعہ بھی موجود نہیں ہے جب کسی غیر مسلم کو تلوار کے زور سے ڈرا دھمکا کر مسلمان کیا گیا ہو کیونکہ خود اسلامی تعلیمات کسی مسلمان کو زبردستی اجازت نہیں دیتیں ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مسلمانوں کو متنبہ کیا کہ ” لا اکراہ فی الدین “سورة البقرة ۔ یعنی دین اسلام میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔ یوں مسلمان اس بات کے پابند ہوگئے کہ وہ زبردستی کسی کو مسلمان نہیں بنا سکتے ۔ وہ دوسروں کو اسلام کی تبلیغ کر سکتے ہیں ۔ دلائل کے ساتھ سمجھانے کی کوشش کر سکتے ہیں ، مسلمان ہونے کی دعوت دے سکتے ہیں لیکن کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کر سکتے ۔ یہاں تک کہ قرآن و حدیث میں اسلامی ریاست میں رہنے والے غیر مسلموں کے حقوق متعین کئے گئے ہیں ۔ ابتدائے اسلام سے اسلامی ریاستوں میں غیر مسلموں کا موجود رہنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسلمان زبردستی کے قائل نہیں تھے ۔
تبلیغ کے فریضے کی اہمیت کے پیش نظر خود رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ” بلغوا عنی ولو آیة “ کہ پہنچادو خواہ ایک ہی آیت کیوں نہ ہو ۔ اس حدیث کے مطابق تبلیغ کے لئے مکمل عالم دین ہونا ضروری نہیں ہے ۔ لیکن بد قسمتی سے یہ ذہنیت پروان چڑھ رہی ہے کہ تبلیغ دین صرف علماءکی ذمہ داری ہے ۔ حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان یہ ہے کہ اگر تم دین کی ایک چھوٹی سی بات بھی جانتے ہو تو اسے اپنے تک محدود نہ رکھو بلکہ اس کی تبلیغ کرو اس لئے ہمیں یہ غلط فہمی دور کر لینی چاہئے کہ تبلیغ دین کا فریضہ صرف علماءپر عائد ہوتا ہے اور عوام اس سے مستثنیٰ ہیں ۔
صحابہ اکرام ؓ آخری سانس تک تبلیغ کا فریضہ انجام دیتے رہے ۔ ذخیرہ احادیث میں ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں کہ کوئی صحابی ؓ بستر مرگ پر تھے لیکن علالت کے باوجود اپنے ار گرد بیٹھے ہوئے لوگوں کو تبلیغ کر رہے تھے مثلاً احادیث میں حضرت یزید بن عمیرہ ؓ بیان فرماتے ہیں کہ وفات سے قبل حضرت معاذ ؓ پر ایسی بے ہوشی طاری ہوئی کہ ہمیں گمان ہوا جیسے وفات ہوگئی ہے ۔ کچھ دیر بعد جب وہ ہوش میں آئے تو میں ان کے سامنے کھڑا رو رہا تھا مجھ سے رونے کی وجہ دریافت کی میں نے عرض کیا اللہ کی قسم میں دنیا پر نہیں روتا جو آپ سے حاصل کیا کرتا تھا اور نہ اس نسب پر روتا ہوں جو میرے اور آپ کے درمیان ہے ۔ بلکہ میں اس علم پر اور ان حکومتوں پر روتا ہوں ، جس کو آپ سے سنتا تھا کہ وہ چلی جائیں گی ۔ یہ بات سن کر حضرت معاذ ؓ نے فرمایا کہ تو رو نہیں اس لئے کہ علم اور ایمان اپنی اپنی جگہ ہیں جو ان دونوں کو تلاش کرے گا ، اب کو پالے گا پس تو علم تلاش کرجس طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تلاش کیا تھا ۔ انھوں نے اللہ تعالیٰ سے سوال کیا حالانکہ وہ اللہ کو نہیں جانتے تھے اور یہ آیت تلاوت کی ۔ ترجمہ : اور ابراہیم علیہ السلام کہنے لگے کہ میں تو اپنے رب کی طرف چلاجا تا ہوں ۔ وہ مجھ کو اچھی جگہ پہنچا ہی دے گا ۔ ( القرآن )
یہ طویل حدیث ہے جس میں حضرت معاذ ؓ بستر مرگ بھی علم و حکمت کی باتوں کی تبلیغ کرتے رہے ۔ اسی طرح اکثر صحابہ ؓ کی آخری وصیتیں دینی نصیحتوں سے متعلق ملتی ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تبلیغ دین کے فریضے کی ادائیگی اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ صحابی اکرام ؓ آخری دم تک پوری ذمہ داری سے اس کی ادائیگی کرتے رہے ۔
آج اگر ہم اپنے گرد و پیش نظر دوڑائیں تو تبلیغ دین کی ضرورت کا احساس کرنا مشکل نہیں ہے ۔ بگاڑ اپنی مختلف شکلوں میں معاشرے کے رگ و پے میں سرائیت کر چکا ہے ۔ زندگی کا کوئی شعبہ اسلامی بنیادوں پر استوار نظر نہیں آتا ۔ ایک گھر سے لے کر حکومت کے ایوانوں تمام سماجی ادارے اصلاح کے متقاضی ہیں ۔
بہت سے لوگ دین نہیں جانتے اور بہت سے لوگ دین فہمی میں غلطی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ وہ ایسے اعمال دین سمجھ کر کر رہے ہیں ، جن کا دین سے قطعی کوئی تعلق نہیں ۔ ان کی تمام عبادتیں و ریاضتیں اور کوششیں ان کے عقائد میں شرک کی آمیزش کی وجہ سے اکارت جا رہی ہیں ۔ ایسے لوگوں کو بدرجہ اتم قرآن و سنت کی تبلیغ کی ضرورت ہے ۔ معاشرے میں رہن سہن کے طور طریقوں میں ہندوانہ رسوم و رواج اور بدعات و خرافات کے اثرات نمایاں ہیں ۔توحید و رسالت جیسے بنیادی عقائد میں پختگی نہیں رہی ۔ مسلمان کہلانے والے کتنے لگ پانچ وقت کی نماز سے بھی بے نیاز ہیں ۔وہ اپنے ماحول میں پوری طرح رنگے جا چکے ہیں اور دنیا کی طرف رغبت اور دین سے بے زاری کی کیفیت ان پر بھی طاری ہے ۔
یوں ایک طرف اسلام ہم پر تبلیغ کا فریضہ عائد کرتا ہے اور اس کی ضرورت و اہمیت بتا کر رغبت دلاتا ہے اور دوسری طرف ہمارے گر د و پیش کا ماحول اور معاشرے کی ابتر صورتحال ہمیں تبلیغ دین کی ضرورت کا احساس کراتی ہے ۔ تبلیغ جتنا اہم فریضہ ہے اسی قدر مشکل بھی ہے بلکہ اگر اس کام کو ایک فن قرار دیا جائے تو غلط نہ ہوگا ۔ اپنا نقطہ نظر دوسرے میں منتقل کر دینا اپنے خیالات اور اپنی سوچ کو دوسرے کی سوچ بنا دینا جبکہ ہر انسان کو اپنی ہی بات سب سے زیادہ عزیز ہوتی ۔ اتنا آسان کام نہیں ہے اسی لئے دین کی بات دوسروں تک پہنچادینے کا حکم مشروط کیا گیا ہے ۔ ایک اور حکم سے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا : الدعوا الیٰ سبیل ربک با الحکمة ۔۔۔۔ کہ لوگوں کو بلاﺅ اپنے رب کے راستے کی طرف لیکن حکمت کے ساتھ ۔ اس طرح تبلیغ کے فریضے کی ادائیگی مشروط ہے حکمت کے ساتھ تبلیغ کے لئے یہ شرط عقل کے عین مطابق ہے کیونکہ تبلیغ کا مقصد محض دوسروں تک بات پہنچا دینا نہیں بلکہ اللہ کے دین کی بات کو اس حد تک دوسرے کے دل کی بات بنا دینا ہے کہ وہ اسے قبول کرنے کے ساتھ ساتھ عمل کی طرح بھی مائل ہو جائے ۔ یہی تبلیغ کا اصل مطلوب ہے ۔
اگر رد عمل کی پرواہ کئے بغیر دین کی بات صرف پہنچا دینا کافی ہوتا یا محض دوسرے کے علم میں لے آنا کافی ہوتا تو اس کے لئے کسی حکمت کی ضرورت نہیں تھی ۔ جس طرح جس وقت جس موقع پر چاہتے دین کی بات پہنچائی جا سکتی تھی ۔ لیکن کیونکہ تبلیغ کا مقصد عمل پر آمادہ کرنا ہے تو اس مقصد کا حصول حکمت کے بغیر نا ممکن ہے ۔
تقریباً ہم سب کے مشاہدے میں یہ بات اکثر اوقات آتی ہے کہ صاحب علم دین اپنے تمام تر علم کے باو جود نتیجہ خیز تبلیغ کرنے میں ناکام رہتا ہے جبکہ اس کی نسبت عوام میں بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جن کی تبلیغ بہت سے لوگوں کی اصلاح کا سبب بنی ہوگی ۔ ا س کی وجہ حکمت ہے ۔ اگر ایک کم علم آدمی بھی جو کچھ جانتا ہے حکمت کے ساتھ دوسروں تک پہنچاتا ہے تو دوسرے کے اعمال کی اصلاح کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے لیکن اگر ایک صاحب علم حکمتوں کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر تبلیغ کرتا ہے تو ناکام ہو جاتا ہے ۔ حکمت کے بغیر کی جانے والی تبلیغ برعکس نتائج کی حامل ہوتی ہے ۔ وہ لوگوں کو دیندار بنانے کے بجائے انھیں دین سے بد ظن کرنے کا سبب بنتی ہے اور اس طرح اخروی اعتبار سے باعث ثواب ہونے کے بجائے باعث عذاب بن جاتی ہے ۔ بد قسمتی سے آج ہمارے مبلغین حکمت کے تقاضوں کو پس پُشت ڈال رہے ہیں ۔ قرآنی حکم کے بر عکس وہ زبردستی کے قائل ہیں اس قدر تشدد کہ سنگین فتوے صادر کر کے اپنے تئین حق گوئی کا فخر کرتے ہیں ۔ آج اپنے عقائد دوسروں پر مسلط کر کے سمجھا جاتا ہے کہ دین کی خدمت کی ہے ۔ حکمت کے بغیر کا جانے والی تبلیغ لوگوں کو دین سے دور کر دیتی ہے ایسی تبلیغ سے بہتر ہے کہ بندہ تبلیغ نہ کرے بس اپنی اصلاح پر توجہ دے ۔
٭٭