میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نیب ترامیم سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی، چیف جسٹس کاپی ٹی آئی سے سوال

نیب ترامیم سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہوگئی، چیف جسٹس کاپی ٹی آئی سے سوال

ویب ڈیسک
پیر, ۱۴ نومبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

قومی احتساب بیورو (نیب) کے قوانین میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دئیے ہیں کہ نیب ترامیم سے ٹرائل اتنا مشکل بنا دیا گیا کہ کرپشن ثابت نہیں ہو سکتی۔پیر کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف دائر درخواست پر سماعت کی۔نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر عدالت عظمیٰ میں سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے حالیہ نیب ترامیم کے بنیادی انسانی حقوق سے متصادم ہونے پر دلائل دئیے، انہوں نے مؤقف اپنایا کہ تمام نیب کیسز احتساب عدالتوں کو بھیجے تو کئی افراد تمام الزامات سے بری ہوئے، کرپٹ افراد کے بری ہونے سے عوام کے بنیادی حقوق براہ راست متاثر ہوئے ہیں۔اس موقع پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کیا کہ لگتا ہے آپ ہر ویک اینڈ کے بعد کیس میں ایک نیا نکتہ نکال لیتے ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ نیب ترامیم سے براہ راست بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہو رہی ہے؟ کیا بجٹ پیش ہونے پر ہر دوسرا شخص عدالت آسکتا ہے کہ یہ غلط بنایا گیا؟جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ایف بی آر کسی کو ٹیکس چھوٹ دے تو کیا یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں آئیگا؟ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ قانون کا ایک بینچ مارک ہے جس سے نیچے لاقانونیت ہوتی ہے، اس بات پر ہم سب آمادہ ہیں کہ احتساب کا قانون ہونا چاہیے۔چیف جسٹس نے کہا کہ اقوام متحدہ کا انسداد کرپشن کنونشن بہت واضح ہے، کیا ہم اقوام متحدہ کنونشنز کو اپنے قوانین میں منتقل کر سکتے ہیں؟ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کا معذور افراد پر کنونشن آئین پاکستان کا حصہ نہیں ہے، کیا عدالت پارلیمنٹ کو عالمی کنونشنز پر قانون سازی کا حکم دینا شروع کر دے؟ اس طرح تو عالمی کنونشن ہی آئین پاکستان کہلانے لگیں گے، عدالت ایگزیکٹو کے بنائے قوانین میں تب مداخلت کر سکتی ہے جب وہ آئین سے متصادم ہوں۔اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عوامی پیسے پر کرپشن ہونے سے عوام کے ہی حقوق متاثر ہوں گے، وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ ایف آئی اے کے کئی کیسز بغیر کسی قانونی طریقہ کار نیب کو منتقل ہوگئے۔جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ قوانین کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ہی ہونا ہوتا ہے، دنیا کا کوئی ایسا ملک نہیں جو کرپشن کا حامی ہو، مجھے پرانے نیب قانون میں ترامیم کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ملی، قانون کا معیار مقرر کرنا عدالت کا کام ہے۔جسٹس اعجاز الااحسن نے ریمارکس دئیے کہ حضرت عمرکے زمانے میں ایک اضافی بھینس رکھنے پر بھی احتساب ہوتا تھا، جس ملک میں کرپشن ہوگی اس کا بیڑا غرق ہوگا، کرپشن کو اتنا دردناک جرم بنانا چاہیے کہ کوئی اسے کرنے کی ہمت نہ کرے، ہو سکتا ہے یہی ثابت ہو کہ نیب ترامیم بدنیتی اور مخصوص افراد کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ میں اس بات سے اتفاق نہیں کرتا کہ عدالت قانونی معیار مقرر کرتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں