مُشتاق منہاس اور کیدو کے لیے کالم
(انوار حُسین حقی )
شیئر کریں
مُلک کے حالات ایسے ہیں کہ بے کلی اور بے چینی کا مداو اممکن تو درکنار ، امکانات کے در کھلتے بھی نظر نہیں آتے ۔ کپتان اپنی جس ٹیم کی نااہلی کا اعلان کر چُکے ہیں اُس کے حُسنِ کمالات کی خیر مانگتے مانگتے قوم بدحال ہونے لگی ہے۔ میدانِ سیاست کے کسی بھی کھلاڑی کی اصلیت اب قوم سے پوشیدہ نہیں رہی ۔آزادی مارچ نے دینی سیاسی جماعتوں کے حوالے سے قوم کو کئی بندشوں سے آزاد کر دیا ہے۔ ہم سمجھتے تھے کہ انس نورانی پر ہی معاملہ تھم جائے گا لیکن ہر روز ایک نئے عمامے کے پیچ ڈھیلے ہوتے دکھائی دیتے ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کے مُسلمان جس قدر تکلیفیں برداشت کر رہے ہیں ہمارے آزاد کشمیر کے لوگ اُسی قدر خوشحال ہیں ۔ ٓآزاد کشمیر کے سیاستدانوں کے کیا کہنے ۔ ان کی ذاتی وابستگیاں ملکی نظریے پر بھی سبقت لے جاتی ہیں ۔ پاکستان میں عمران خان کے وزیر اعظم بننے کے بعد وزیر اعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر کے فرمودات ہمیشہ ہماری سیاسی تاریخ کے سینے پر ایک بوجھ تو بنیں ہی رہیں گے لیکن اب لند ن میں آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات مشتاق منہاس کے خیالات سُننے والا کچھ اس انداز سے جھوم اُٹھتاہے کہ کیفیت کو لفظوں کا جامہ پہنانا مُشکل ہوجاتا ہے۔لندن میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بیان صادر کیا کہ پاکستان میں کرتار پور راہداری کی وجہ سے مسئلہ کشمیر پس منظر میں چلا گیا ہے ۔۔ نواز شریف نہیں عمران خان مودی کا یار ہے ۔ 27 ستمبر کی تقریر کے بعد عمران خان نے کشمیر کاز کے لیے کیا کیا ہے۔ ‘‘ صرف یہی نہیں کہ بلکہ وہ اس پر بھی بضد تھے کہ مولانا فضل الرحمن کے دھرنے کی ٹائمنگ بھی ٹھیک ہے ۔وہ وزیر اعظم پاکستان کے خلاف خاصے غصے میں دکھائی دے رہے تھے ۔ ایسا لگتا تھا وہ آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات نہیں اور ابھی تک ماضی کے ایک نیم فکاہیہ ٹاک شو کے اینکر کے خول اور کیفیت سے باہر نہیں نکل پائے ۔
کسی سے کوئی گلہ نہیں یقینا آزاد کشمیر میں سید علی گیلانی جیسا کوئی مستقیم فکر ہے اور نہ ہی یسین ملک جیسا حُریت پسند ہے ۔اقتدار سے چمٹے رہنے کی خواہشیں جنت نظیر خطے کے اس حصہ میں ہمیشہ ہی جوان رہی ہیں ۔کاش آزاد کشمیر کے موجودہ حُکمران مجاہدِ اول سردار عبد القیوم خان مرحوم سے ہی کوئی نسبت رکھتے ۔ سردار عتیق خان اکثر کہا کرتے ہیں ۔ ’’ 25 دسمبر کو پیدا ہونے سے توکوئی قائد اعظم ثانی نہیں بن سکتا ۔ اس روز تو رام چندر سنگھ بھی پیدا ہوئے تھے ۔‘‘
اسی طرح پاکستان کے کسی سیاستدان خاندان سے ذاتی تعلقات کا پروانہ لے کر کوئی کشمیریوں کا وکیل تو نہیں بن سکتا ۔ وزیر اعظم عمران خان کی 27 ستمبر کی تقریر کے بارے میں آزاد خطے کے وزیر اطلاعات کا اندازِ بیان خود مسئلہ کشمیر پر کشمیریوں کے موقف کو کمزور کرنے کا باعث بن رہا ہے ۔واقعی کشمیر کی آزادی کے لیے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے اور سو روزہ کرفیوکے عذاب جھیلنے والوں ، شہیدوں کے جسدِ خاکی سے لپٹ لپٹ کر بدحال ہونے والوں اور کشمیریوں کے وسائل پر یورپ کے دوروں سے مستفید ہونے والوں کی سوچ میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔
ذہنی کرب اور نفسیاتی اذیت کے اس ماحو ل میں کالم نگار کو ’’ہیر رانجھے ‘‘ کے رومانوی افسانوی قصہ کا ایک معروف کردار ’’ کیدو ‘‘ بہت یاد آتا ہے ۔ تحریک ِ پاکستان کے ایام کے میرے علاقہ میانوالی کے ایک مقامی شاعر’’ اکبر چھدرو‘‘کو اپنے پسندیدہ کردار کے طور پر ’’ کیدو ‘‘ بہت پسند تھا ۔ اکبر چھدروی رانجھے سے نفرت کرتا تھا ۔ اُس کے بقول ’’ شادی کے بعد ہیر کو میکے اور سُسرال کو بے عزت اور بے توقیر کرنے کو کوئی حق نہ تھا ۔ وہ رانجھے کو بھی قابلِ نفرت سمجھتا تھا اُس کے نزدیک ’’ پرائی رناں تاڑن آلا ‘‘ کنجر تھا ۔ وہ کیدو کو غیرت کا نشان سمجھتا تھا۔ جو کمزور ، لنگڑا اور بد صورت ہونے کے باوجود حتیٰ الامکان دوسروں کو غیرت دلاتا رہا ‘‘۔
مولانا فضل الرحمن کے دھرنے سے آئے روز ایسی خبریں موصول ہو رہی ہیں جن سے ہماری اُس تلاش کو ایک مرتبہ پھر اپنا سفر دوبارہ سے شروع کرنا پڑجاتا ہے جو ہم نے اُس ’’گمشدہ مولا نا‘‘ کو ڈھونڈنے کے لیے شروع کیا ہوا ہے جو مولانا مفتی محمودؒ کے وارث کے طور پر جمعیت العلمائے اسلام کی سربراہی پر از خود فائز ہوگیا تھا ۔ اپنی پارٹی پر مولانا عبد اللہ درخواستی کی جگہ زبردستی سربراہ بنے ولا جنرل ضیاء الحق مرحوم کے مارشل لاء کے دور میں ایم آر ڈی کے پلیٹ فارم سے سول سُپریمیسی کے لیے سرگرمِ عمل رہا۔ دیگر مذہبی جماعتوں کے برعکس وہ اس مارشلاء کے خلاف بھر پور انداز میں سیاسی جدوجہد میں مصروف رہا جسے مولانا کی سیاسی زندگی کا حاصل قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ نوابزادہ نصراللہ مرحوم کی قیادت کا کمال تھا یا مولانا سیاست میں نئے نئے تھے کہ انہوں نے اپنے اندر کے سیاست دان کو پردے میں رکھا ۔۔ لیکن دینی سیاسی جماعتوں کے برعکس بے نظیر بھٹوکی حکومت سے قربت پر نواب اکبر خان بُگٹی نے مولانا فضل الرحمن کے شہر ڈیرہ اسماعیل خان کے حقنواز پارک میں ان کے بارے میں جو کچھ کہا تھا کاش اُسے نواب اکبر بُگٹی کی بذلہ سنجی نہ سمجھا جاتا ۔
آزادی مارچ کے کنٹینر اسٹیج کے مقررین جس قسم کا لب و لہجہ اور زبان استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں اس کے دسویں حصہ کو بھی کوئی دوسرا ان کے حوالے سے اختیار کرے تو ناجانے کون کونسی توہین کامرتکب قرار دیا جائے گا ۔ ان تقریروں کا معاشرہ کیا اثر لیتا ہے یہ ایک علیحدہ بحث ہے۔ البتہ محمود خان اچکزئی کی تقریریں سُنتے ہوئے اور سابقہ ادوارکے اقتدار میں ان کے خاندان کے حصہ کو دیکھتے ہوئے یہ یقین نہیں آتا کہ بھولے بھالے محمود خان اچکزئی کس قدر سنجیدہ مذاق کرتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان جس قسم کی سیاسی چالوں میں مصروف ہیں اُن سے پوری قوم ایک اذیت میں مُبتلا دکھائی دیتی ہے ۔ حکمران جماعت کی حالت بھی اب اپوزیشن سے زیادہ مختلف نہیں رہی ۔ مشیر اطلاعات فردوس عاشق اعوان کا بھلا ہو کہ قوم کو پتا چلا کہ وفاقی کابینہ میں ایک معاملے پر رائے شُماری کے دوران اکثر وزراء نے دو دو ہاتھ بھی اُٹھائے ۔ اگر یار لوگ اسے قوم کو دو دو ہاتھ دکھانا کہیں کم از کم سنجیدہ لوگوں کو بُرا نہیں لگے گا ۔
وطنِ عزیز میں آج بے بسوں اور بے کسوں کا ایک اژدہام ہے ۔ اس انسانی سمندر میں کثافت کے لیے کبھی بائیس خاندان ہی ہوا کرتے تھے اب قدم قدم پر الم کدے ہیں ۔ اشرافیہ ٹڈی دل کی طرح بھنبھنانے لگی ہے ۔ کرتار پور راہداری پاکستان کی اتنی بڑی کامیابی ہے کہ اس کا اندازہ کوئی بھی صاحبِ بصیرت آسانی سے کر سکتا ہے ۔ لیکن یہ کسی سطحی دانشور یا سیاستدان یا تنگ دل انسان کے بس کی بات نہیں ۔ عمران خان نے اپنا پیغامِ امن جس انداز میں امریکہ اور دیگر مغربی ممالک اور چانکیائی سیاست کے پجاریوں تک پہنچایا ہے اُس نے بہت سوں کی سیاست کا دال دلیہ مہنگا کر دیا ہے۔ عمران خان خطے بلکہ دنیا بھر میں امن قائم کرکے غُربت کے خاتمے کا جو مشن رکھتے ہیں اُس کی عکاسی سید نصیر شاہ کی اس نظم میں ہوتی ہے کہ
بجائے گولیوں کے
دھات سے تُم ڈھالتے سکے
تو جانے کتنے بچے
ٹافیوں سے جھولیاں بھر کے
چہکتے جھومتے
اپنے سکولوں کی طرف جاتے
نہ بنتے کارتوس اے کاش
اُن پیسوں سے
تُم کاغذ بناتے
کچھ کتابیں چھاپ لیتے
اور
دانش عام کردیتے
تو جانے کتنے بچے
عصرِ نو میں نُور برساتے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔