میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طالبان تحریک اور حکومت...قسط نمبر8 <br> (جلال نُورزئی)

طالبان تحریک اور حکومت...قسط نمبر8
(جلال نُورزئی)

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۴ نومبر ۲۰۱۹

شیئر کریں

طالبان کی حکومت ہر لمحہ چوکنا تھی۔اپنے اردگرد پر نظر رکھی ہوئی تھی ۔ حکومت آگاہ تھی کہ بیرونی دنیا انہیں نا پسند کرتی ہے ۔یہاں تک کہ اکتوبر1999ء سے قبل کی نواز شریف حکومت اور ان کے مابین راہ و رسم اچھی نہ تھی ،چنداں اطمینان و اعتماد نہ تھا۔ پاکستان میں اقتدار پر قبضہ کے بعد جنرل پرویز مشرف حکمران بن گئے۔ کمال اتا ترک ماڈل اپنانے کا دعویدار بنا۔ طالبان حکومت نے اس تبدیلی کو پاکستان کا اندرونی معاملہ قرار دیااور نیک توقعات کا اظہار کیا۔ بہر حال طالبان آگاہ تھے کہ بہت کچھ ان کے حق اور مفاد کے برخلاف ہورہا ہے۔ اسامہ بن لادن کا افغانستان میں قیام ان کے لیے دن بدن سنگین خطرہ بنتا گیا۔ وہ اسامہ بن لادن کی موجودگی کی سنگینی کو اچھی طرح سمجھتے تھے۔ ان کی کوشش تھی کہ اسامہ کا قضیہ بات چیت کے ذریعے اور اعلیٰ سطح پر کچھ ایسے انداز میں حل ہوکہ اس باب میں ہونے والا فیصلہ اور نتیجے کی ذمے داری و بار،تنہاان کی حکومت پر عائد نہ ہو ۔ سردست وہ اُسامہ کے معاملے کا معقول اور منصفانہ حل چاہتے تھے۔ علی الخصوص مسلمان ممالک ، ان کے صاحب الرائے و حیثیت علماء کی جائز معاونت کی طرف دیکھ رہے تھے ۔ یقینا اسامہ بن لادن روس کے خلاف افغان جہاد میں عملاً شریک تھے۔ فلاحی و رفاعی خدمات انجام دیں۔ مگرروسی افواج کے نکلنے اور افغان جہادی تنظیموں کے مابین جنگ و اختلافات کے بعد اسامہ بن لادن اپنے ملک سعودی عرب چلے گئے۔ وہ مزید اس خطے میں محفوظ بھی نہ تھے۔ شیخ عبداللہ عزام بھی افغان جہاد میں بڑے متحرک تھے۔فلسطینی نژاد یہ عرب عالم و دانشور اسلام آباد کی بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی میں پروفیسر تھے ۔شیخ عزام ہی کی وساطت سے اُسامہ بن لادن افغان جہاد سے وابستہ ہو گئے تھے ۔ بعد ازاں 24نومبر1984ء کوشیخ عزام پاکستان کے شہر پشاور میں بچوں سمیت قتل کردیئے گئے۔ غرض اسامہ بن لادن اپنے ملک سعودی عرب میں مقیم ہوئے ۔ 1990ء میں عراقی افواج کے کویت میں داخل ہونے کے بعد امریکا خلیج میں جادھمکا، عراق پر حملہ کیا۔ عراق کے صدرصدام حسین کی جارحیت کا بہانہ لے کر امریکا نے سعودی عربیہ اور خلیجی ممالک میں آسانی سے اپنی فوجیں بٹھا دیں ۔ان کے سمندروں میں جنگی بیڑے لنگر انداز کر دیے ۔

اسامہ بن لادن امریکی فوجی نفوذ اور سرایت کے خلاف تھا۔ چناں چہ مبینہ طور پر القاعدہ جیسی تنظیم کی بنیاد ڈالی گئی ۔جو خطے میں امریکی دفاعی و سیاسی مفادات کے خلاف نمایاں ہوئی۔ چناں چہ اسامہ بن لادن معتوب ٹھہرے۔ آل سعود کی حکومت نے انہیں ملک سے نکال دیا۔جس کے بعد اس نے سوڈان میں سکونت اختیار کرلی ۔ القاعدہ کے اہداف میں عرب ممالک بالعموم مسلمان ممالک کے درمیان اتحاد قائم کرنا تھا۔ تاکہ ان ممالک میں سامراجی اثر و نفوذ باقی نہ رہے۔ سوڈان امریکا کے آگے بے بس تھا۔ وہاں بھی اسامہ کے لیے عرصہ حیات تنگ ہوا ۔واشنگٹن نے سوڈانی حکومت سے اسامہ کو ملک بدر کرنے کا کہا۔ یہ صورتحال غور طلب ہے ۔ اول یہ کہ کیوں سعودی حکومت نے اسامہ کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا؟۔ وہاں ریاست و حکومت کی پوری رٹ قائم تھی۔ اسامہ کو اپنے ملک کے اندر ہی نظر بند کیا جاتا، اس کی بیرون ملک سفر ،سیاسی و سماجی سرگرمیوں پر پابندی لگائی جاتی۔ گویا ان پر ہمہ وقت نگاہ رکھی جاتی۔ اس طرح وہ پس منظر میں چلے جاتے۔ سعودی اور نہ ہی امریکی مفادات کو زک پہنچتا، نہ ہی القاعدہ تنظیم وجود میں آتی۔دوئم ،امریکا نے انہیں سوڈان کے اندر گرفتار کیوں نہ کیا؟ یقینی طور اُن کا حراست میں لینا جانا امریکاکے لیے مشکل نہ تھا۔ تیسری خیانت افغانستان میں برہان الدین ربانی کی حکومت نے کی ۔جس نے اسامہ بن لادن کو افغانستان منتقلی کی دعوت دی۔ انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ عالمی طاقت امریکا اس شخص پر غضبناک ہے۔اُن پر 1993ء میں امریکا کے اندر بم دھماکے کا الزام تھا۔ اور ربانی پر اپنی اور اپنی حکومت کی حیثیت بھی واضح تھی ۔لیکن اصل مسئلہ یہ تھاکہ ان سب کی نظریں اسامہ بن لادن کی دولت پر لگی ہوئی تھیں۔ یہ خیانت برہان الدین ربانی، پروفیسر عبدالرب رسول سیاف اور احمد شاہ مسعود کے باہمی اشتراک سے ہوئی۔ چناں چہ برہان الدین ربانی کی حکومت نے اسامہ بن لادن کو افغان پاسپورٹ جاری کیا۔اسطرح وہ بڑی رازداری سے افغانستان پہنچ گئے، اور پکتیاکے علاقوں میں مقیم ہوگئے۔ یہ لوگ مخلص ہوتے تو اسامہ کو افغانستان کے شمال میں سکونت اختیار کرنے کا کہتے ،جہاں امن و امان افغانستان کے دوسرے علاقوں کی نسبت بہتر تھا۔ چناں چہ عبدالرب رسول سیاف نے اسامہ سے مالی مفادات کا تقاضا کیا۔ اسامہ بن لادن کی مالی حیثیت اب بہت کمزور ہوچکی تھی۔ اور اس نے سیاف کو عذر پیش کیا کہ ان کی اب پہلی والی حیثیت نہ ہے۔ عبدالرب رسول سیاف سعودی عرب کے فنڈز پر زندہ تھے۔ اور اب بھی سعودیوں کے دستر خواں پر پل رہے ہیں۔ جس کے بعد ان تین افغان رہنمائوں نے اسامہ کی امریکا کو حوالگی کے منصوبوں پر کام شروع کیا۔ تاہم یہ اپنے منصوبے و ارادوں میں کامیاب نہ ہو سکے ۔ جب ستمبر1996ء میں جلال آباد اور اس سے متصل دوسرے صوبے و علاقے طالبان کے کنٹرول میں آگئے ،تو اسامہ بن لادن نے طالبان سے پناہ کی درخواست کی ۔چناں چہ طالبان نے غور وسوچ کے بعد انہیں پناہ دیدی ۔ (جاری ہے )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں