نشتر اسپتال ملتان کی چھت سے 200 لاوارث لاشیں ملنے کا انکشاف
شیئر کریں
نشتر اسپتال کی چھت پر بنے کمرے میں درجنوں لاشیں گل سڑ رہی ہیں۔ نشتر اسپتال کی چھت سے سینکڑوں کی تعداد میں انسانی لاشوں کے اعضا برآمد ہوئے ہیں تاہم تعداد کے حوالے سے حکومتی سطح پر کسی قسم کی تصدیق یا تردید تاحال سامنے نہیں آسکی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الہی کے مشیر طارق زمان گجر نے کہا ہے کہ نشتر اسپتال کے دورے کے دوران زبردستی سردخانہ اور چھت کھلوائی تو 200 لاشیں سرد خانے میں تھیں، اسپتال کی چھت پر لاشوں کو گدھ اور کیڑے کھا رہے تھے جبکہ چھت پر 3 تازہ لاشیں تھیں اور پرانی 35 لاشیں تھیں جنہیں گنتی کیا اور ویڈیو بنوائی، پولیس نے ذمہ داری اسپتال انتظامیہ پر ڈال دی جبکہ وزیراعلیٰ نے معاملے کا نوٹس لیتے ہوئے ذمہ دار عملے کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی ہے۔ نجی ٹی وی سے گفتگو میں طارق گجر کا کہنا تھاکہ بدھ کو دن 2 بجے نشتر اسپتال کا دورہ کیا تو مجھے ایک شخص نے کہا اگر نیک کام کرنا ہے تو سرد خانے چلیں، میں نے سرد خانہ کھولنے کے کہا تو نہیں کھول رہے تھے جس پر میں نے کہا اگر نہیں کھولا گیا تو ابھی ایف آئی آر کٹواتا ہوں۔ ان کا کہنا تھاکہ سرد خانہ کھلوایا تو وہاں بہت ساری لاشیں تھیں، اندازے کے مطابق 200 لاشیں سرد خانے میں تھیں، لاشوں پرایک کپڑا تک نہیں تھا، اپنی 50 سالہ عمر میں پہلی بار ایسا دیکھا۔ مشیر وزیراعلی کا کہنا تھاکہ اسپتال کی چھت پر لاشوں کو گدھ اور کیڑے کھا رہے تھے جبکہ چھت پر 3 تازہ لاشیں تھیں اور پرانی 35 لاشیں تھیں جنہیں گنتی کیا اور ویڈیو بنوائی۔ طارق گجر کا کہنا تھاکہ کچھ لاشیں ایسی لگ رہی تھیں جو دو سال تک پرانی ہوں۔ وی سی سے پوچھا کہ یہ لاشیں یہاں کیوں اس طرح رکھی ہیں؟ وی سی نے جواب دیا کہ یہ لاشیں میڈیکل کے طلبہ کے تجربات کیلئے رکھی گئی ہیں۔خیال رہے کہ ملتان کے نشتر اسپتال کی چھت سے چند لاشیں ملنے کے بعد ایک کمرے میں متعدد لاشیں دریافت کی گئی ہیں۔ اسپتال کے ترجمان ڈاکٹر سجاد مسعود نے موقف اپنایا ہے کہ میڈیکل کے طلبا کو سکھانے لیے ان لاشوں کو چھت پر رکھا گیا تھا، لاشوں کو نیچرل ڈرائی کی ضرورت ہوتی ہے اس لیے اس کو مردہ خانے کی چھت پر رکھا گیا تھا۔ جبکہ اناٹومی شعبہ کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مریم اشرف کا کہنا ہے کہ ہمارے پاس سرد خانہ موجود ہے جہاں ڈیڈ باڈیز کو محفوظ رکھا جاتا۔ انہوں نے بتایا کہ پولیس اسپتال میں غیر شناخت شدہ لاوارث لاشیں لاتی ہے، ان ڈیڈ باڈیز میں ڈی کمپوزیشن کا عمل شروع ہو چکا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مریم اشرف نے کہا ان باڈیز کو چھت پر کمروں میں رکھا جاتا، ان میں سے کچھ باڈیز کو طالب علموں کی تدریس کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر مریم اشرف نے کہا یہ تمام چیزیں ہوم ڈیپارٹمنٹ اور ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے رولز کے تحت ہوتی ہیں، 500 یا 5 ہزار ڈیڈ باڈیز کا تاثر بالکل غلط ہے۔لاشیں ملنے کے بعد پولیس نے اسپتال انتظامیہ پر ذمہ داری ڈال دی۔ سٹی پولیس آفیسر(سی پی او)ملتان خرم شہزاد نے کہا ہے کہ لاوارث لاشوں کی تدفین نشتراسپتال انتظامیہ کا کام ہے۔سی پی او کے مطابق دفعہ 174 کی کارروائی کے بعد لاوارث لاش نشتر کے سردخانے میں رکھی جاتی ہے، پولیس کا سردخانے میں لاش رکھوانے کے بعد کوئی عمل دخل باقی نہیں رہتا، قانون کیمطابق لاوارث لاشیں اسپتال میں رکھوانے کی پولیس پابند ہے۔ان کا کہنا تھاکہ لاشوں کو کتنا عرصہ رکھنا اوران کا کیا کرنا ہے؟ یہ اسپتال انتظامیہ کا کام ہے، اگر وارث آجائے تو قانونی کارروائی کے بعد اسپتال انتظامیہ لاش حوالے کردیتی ہے۔دوسری جانب وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الہی نے نشتر اسپتال کی چھت پر لاوارث لاشیں رکھنے کا نوٹس لیتے ہوئے صوبائی سیکرٹری اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئر اینڈ میڈیکل ایجوکیشن سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔چوہدری پرویز الہی کا کہنا ہے کہ لاشیں چھت پر پھینک کر غیر انسانی فعل کا ارتکاب کیا گیا ہے، ذمہ دار عملے کے خلاف سخت تادیبی کارروائی کی جائے۔سیکرٹری ہیلتھ ساتھ پنجاب نے معاملے کی انکوائری کے لیے 6 رکنی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، کمیٹی 3 روز میں اپنی رپورٹ سیکرٹری ہیلتھ ساتھ کو پیش کرے گی۔وائس چانسلر نشتر میڈیکل یونیورسٹی نے بھی 3 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے، کمیٹی تمام معلومات کے ساتھ اپنی رپورٹ وائس چانسلر کو پیش کرے گی۔اس معاملے پر اسپتال کی انتظامیہ نے 3 رکنی ایک تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی ہے جس نے معاملے کی تحقیقات شروع کردی ہے۔ اسپتال کے کچھ ملازمین نے نجی ٹی کو بتایا کہ نشتر اسپتال کے مردہ خانے کے فریزر کئی سال خراب ہیں اور 5 میں سے بس ایک فریزر کام کررہا ہے، جس کے باعث وہاں 7 سے 8 میتیں رکھی جاسکتی ہیں۔اس مردہ خانے میں 40 میتیں رکھنے کی جگہ ہے مگر لاوارث لاشوں کی تعداد زیادہ ہے۔ ملازمین کے مطابق باقی لاشوں کی حالت ویسے ہی خراب ہوجاتی ہیں جس کے بعد انہیں میڈیکل کے طلبہ کے تجربات کے لیے بھیج دیا جاتا ہے اور ان کے تجربات کے بعد انہیں ایسے ہی پھینک دیا جاتا ہے اور وہ لاوارث پڑی رہتی ہیں۔