میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سی ایم ہاؤس کی مداخلت ،وزیر ماحولیات ، ڈی جی سیپا میں نئی ڈیل

سی ایم ہاؤس کی مداخلت ،وزیر ماحولیات ، ڈی جی سیپا میں نئی ڈیل

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۴ اکتوبر ۲۰۲۱

شیئر کریں

(رپورٹ: علی کیریو)وزیر ماحولیات سندھ اور ڈی جی سیپا میں 2 ماہ تنازع کے بعد مبینہ طور پر نئی ڈیل ہوگئی، ترقیاتی منصوبوں کی منظوری کیلئے چیک لسٹ کی مد میں ایک منفعت بخش لین دین پر قائم وزارت وافسران کا تعلق کچھ جھٹکوں کے بعد سنبھلنے لگا ہے۔ اطلاعات کے مطابق فیکٹریوں کا سالانہ ماحولیاتی آڈٹ، ماحولیاتی جائزہ ، خطرناک مواد کے لائسنس کا اجرائ، کمپیوٹر اسکریپ کی درآمدی اجازت کی تمام مد ات ماحولیاتی قوانین کے ضوابط کے بجائے لین دین کے ایک مستقل نظام پرہے۔ واضح رہے کہ بیر سٹر مرتضیٰ وہاب کی بطور ایڈمنسٹریٹر کے ایم سی تعیناتی سے صوبائی وزارت ماحولیات کا قلمدان خالی ہونے پر ماحولیات کا محکمہ اسماعیل راہو کے حوالے کیا گیا تھا۔ صوبائی وزیر کے حلف لینے کے بعد سے اب تک دو ماہ کے درمیان ڈائریکٹر جنرل ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ (سیپا) کے عہدے پر دس سال سے تعینات نعیم مغل اور وزیر میں شدید تناؤ رہا۔ اسماعیل راہو نے وزیر ماحولیات بنتے ہی ڈی جی سیپا نعیم مغل اور ان کے چہیتوں کے گرد گھیرا تنگ کردیا تھا، ڈی جی کے مبینہ فرنٹ مین ڈپٹی ڈائریکٹر منیر عباسی کے تبادلے کے بھی احکامات جاری کردیے تھے ۔ وزیراور ڈی جی کے تنائو کے مسئلے پر سی ایم ہاؤس کی ایک شخصیت کی مداخلت سے اب تمام معاملات پر مفاہمت ہوگئی ہے۔ڈی جی سیپا نعیم مغل کے قریب رہنے والے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ بڑے لوگوں کی ڈیل کا بنیادی نکتہ صیغۂ راز میں رکھا جاتا ہے اور دونوں کلیدی فریقین کے سوانکتے کی عددی قدر کسی کو نہیں بتائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ سندھ بھر میں سیپا سے ہر نئے بڑے ترقیاتی منصوبے کے لیے انوائرنمنٹل امپیکٹ اسیسمنٹ(ای آئی اے) درمیانے منصوبے کے لیے نیشل انوائرنمنٹل ایگزمنیشن (آئی ڈبل ای) اور چھوٹے ترقیاتی منصوبے کے لیے چیک لسٹ کرانا ضروری ہے جسے منظور کرنے کے لیے مبینہ طور پربالترتیب 30 لاکھ،15 لاکھ اور3 سے 5 لاکھ روپے کی رقم زیر گردش ہوتی ہے، عام طور پر روزانہ تین درمیانے اور پانچ چھوٹے منصوبوں کی منظوری دی جاتی ہے جبکہ 15 دن میں ایک بڑا منصوبہ منظور کیا جاتا ہے۔ دعوئوں کے مطابق فیکٹریوں کا سالانہ ماحولیاتی منصوبہ، سالانہ ماحولیاتی آڈٹ اور سالانہ ماحولیاتی جائزہ کرانے پر بھی مبینہ طور پر 10 سے25 لاکھ روپے کی رقوم ہڑپی جاتی ہیں ، اس نوع کے 5 کیس بھی روزانہ کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔ کسی بھی قسم کا خطرناک مواد(جس کی اقسام کی کل تعداد ساڑھے تین سو ہے) درآمد کرنے کے لیے لائسنس کے اجراء پر 10 سے 30لاکھ روپے کی رقم ادا کرنے کی آوازیں مارکیٹ میں موجود ہیں ۔ یہ لائسنس بھی کم ازکم ایک روزانہ جاری کیا جاتا ہے۔ جبکہ کمپیوٹر اسکریپ اور دیگر اسکریپ کو بھی درآمدی اجازت مبینہ طور پر 5 سے 10 لاکھ روپے وصول کرکے دی جاتی ہے جو ہفتے میں دو یا اس سے زیادہ جاری کی جاتی ہیں۔سیپا کے جو افسران اس کام میں ملوث ہیں انہیں پکڑے جانے کا کوئی خطرہ نہیں کیونکہ ایک تو وہ نیچے سے اوپر یعنی تنظیم کے ہاؤس تک باقاعدگی سے رقم پہنچاتے ہیں اور دوسرے یہ کہ کسی بھی جاری کردہ دستاویز پر جو اجراء نمبر لگا ہوتا ہے اس کا رجسٹر راشی افسران کی ذاتی تحویل میں ہوتا ہے جو کسی قسم کے خطرے کو بھانپتے ہی اس دفتر سے باہر کردیا جاتا ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں