محمد علی شاہ بدعنوانیو ں کی ایک مسلسل کہانی کا نام
شیئر کریں
ایس ایم اسلم
کراچی کی مختلف زمینوں کی بندر بانٹ میں سرکاری افسران کی کارستانیاں
٭زمین کی الاٹمنٹ ، ڈبل الاٹمنٹ، جعلی الاٹمنٹ، فراڈ، دھوکا دہی ، پولیس اور دیگر اداروں کے ذریعہ زمینوں پر گن پوائنٹ پر قبضے کی بے شمار وارداتیں ریکارڈ پر موجود اور کارروائی کی منتظر ہیں
٭محمد علی شاہ کا نام ایگز ٹ کنٹرول لسٹ (ECL)میں بے نامی اکاؤ نٹ کیس کے دوران ڈالا گیا تھا لیکن وہ دو مرتبہ بیرونِ ملک سفر کرچکے ہیں ،ایک بار عمرے کی ادائیگی کرنے بھی گئے تھے
٭ پیپلز پارٹی کا دور جعلسازیوں کا سب سے سنہری دور سمجھا جاتا ہے، جس میں آصف زرداری کی اشیر باد سے ریکارڈ آف رائٹس میں تبدیلی کے قانون نے وائٹ کالر کرائم کی نئی نئی داستانوں کو جنم دیا
بدعنوانیوں کے پیچھے طاقت ور عناصریا حکمران طبقے کا ہاتھ پوشیدہ ہوتا ہے ،کوئی بدمعاش ہو یا کرپٹ ترین سرکاری افسر ، ان کے جرائم کی حمایت میں ہمیشہ کوئی نہ کوئی طاقت ور پسِ پردہ موجود رہتا ہے۔ دہشت گر د بھی کسی نہ کسی سیاسی ،مذہبی یا طاقت ور طبقے کی آڑ میں دہشت پھیلارہا ہوتا ہے،کتابوں میں ہے کہ قانون کے ہاتھ لمبے ہوتے ہیں لیکن معاشرے میں جرائم پیشے ناجائز دولت کمانے والے طاقت ور ہوتے چلے جارہے ہیں،اندورن خانہ حقائق اور واقعات کی پسِ پردہ کہانی کچھ اور ہی منظر پیش کرتی ہے۔ وائٹ کالر جرائم کی باتیں تو بہت کی جاتی ہے لیکن وائٹ کالر کے پکڑنے کا طریقہ کار واضح نہیں اور نہ ہی ہمارے پاس ایسے ماہر افراد موجود ہے جو وائٹ کالر جرائم کی بیخ کنی کرسکیں۔
مرحوم چودھری شریف ایف آئی اے میں سپاہی بھرتی ہوئے تھے اور انہوں نے ڈپٹی ڈائریکٹر ایف آئی اے تک ترقی کی تھی۔ وہ ایف آئی اے میں ایک سسٹم کا نام تھے، اور ایک معنی میںکنگ میکر کی حیثیت اختیار کرگئے تھے۔وہ ہر گندے کام کے لیے ایک موزوں آدمی بن گئے تھے۔ سابق وزیراعظم چودھری شجاعت حسین کی حمایت سے وہ بدعنوانیوں اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی ایک مکروہ ترین مثال بن گئے تھے۔ وہ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں گرفتار ہوئے تو وفاقی وزیر داخلہ کی حیثیت سے چودھری شجاعت فوراً کراچی تشریف لائے اور فوری چودھری شریف کی رہائی کا حکم نامہ جاری کیا گیا۔ یہی نہیں چودھری شجاعت اور چودھری شریف نے اُسی رات اکٹھے ڈنر بھی کیا۔ جرائم پیشہ افراد کی سیاسی حمایت سے معاشرے میں چودھری شریف جیسے کئی کردارآپ کے سامنے موجود ہیں۔
کراچی میں ایسا ہی ایک کردار ڈپٹی کمشنر شرقی محمد علی شاہ کا اُبھر کر سامنے آیا ہے۔ ان کے والد انکم ٹیکس افسرتھے۔ انہوں نے منفعت کے راستوں سے انہیں بھرتی کرایااور ان کو بورڈ آف ریونیو کے سینئر ممبر کے دفتر میں ملازم کے طور پر تعینات کرانے میں کامیاب ہوگئے۔ موصوف کی سولہ گریڈ میں براہِ راست بھرتی اور بورڈ آف ریونیو کی ملازمت بے ہدف نہیں تھی۔ وہ بہت جلد بورڈ آف ریونیو کے ماہر تصور کیے جانے لگے۔زمینوں کے معاملات میں وہ اس قدر ماہر ہوگئے کہ ایک کے بعد ایک زمین کا ہر کیس اُن کے ہاتھ کا میل بننے لگا۔ وہ مشرف دور میں بورڈ آف ریونیو میں اپنی ماہرانہ خدمات کے عوض ترقی کی منزلیں طے کرتے رہے۔
پیپلز پارٹی کا دور جعلسازیوں کا سب سے سنہری دور سمجھا جاتا ہے، جس میں آصف زرداری کی اشیر باد سے ریکارڈ آف رائٹس میں تبدیلی کے قانون نے وائٹ کالر کرائم کی نئی نئی داستانوں کو جنم دیا۔سپریم کورٹ نے کراچی کی زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور جعلسازی کے خلاف اپنے فیصلے کے ذریعے 28ہزار سے زائد ایکٹر زمین کو کاغذات میں سندھ حکومت کو واگزار کراکے دی تھی، لیکن سندھ میں رشوت کمیشن اور کک بیک کے چلنے والے سٹسم کے ذریعے ان میں سے اکثر زمینوں کو دوبارہ الاٹ کر کے ٹھکانے لگایا جاچکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایسے ہی ایک ’’سسٹم‘‘ کو چلاتے ہوئے محمد علی شاہ نے بھی اپنا ایک الگ سسٹم بورڈ آف ریونیو میں رائج کردیا ہے۔ ان کے طویل جرائم کی فہرست میں کراچی کی بہت سی زمینوں میں اتھل پتھل شامل ہے۔ مختیارکار گڈاپ کراچی محمدیوسف عباسی کے ذریعہ سیمنٹ فیکٹر ی کی فلاحی مقاصد کی زمین کی حیثیت تبدیل کرکے اس کو رہائشی اور تجارتی حیثیت میں تبدیل کیاگیا ۔محمد علی شاہ اب گریڈ18میں پہنچ چکے ہیں۔ کراچی کے تین اہم اضلاع میںاُن کی مختلف تقرریوں کی کہانی سندھ میں بارہ سال سے جاری بدعنوانی کے ایک پورے نظام کی کہانی ہے۔ وہ بدعنوان نظام میں اب اتنی طاقت حاصل کرچکے ہیں کہ ان کے خلاف شکایات پر چیف سیکریٹری سندھ بھی کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔ جس کا سبب محمد علی شاہ کی آصف علی زرداری سے خصوصی قربت ہے۔
محمد علی شاہ آصف علی زرداری سے خصوصی قربت کے ہی باعث بحریہ ٹاؤن کے چیئرمین ملک ریاض کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہو گئے۔ جہاں اُنہیں بحریہ کے نام پر ملنے والی زمینوں کی جانچ پڑتال اور خریداری کے تمام امور کی نگرانی سپرد کردی گئی۔جس میں غلط کودرست کرنے ، غیر قانونی کو قانونی دائرے میں لانے اور لینڈ ریونیو ایکٹ کے تحت قانونی تقاضے پورے کرنے کے اہداف شامل تھے۔اس کھیل کے نتیجے میں سرکاری خزانے کو اربوں روپے کے نقصان پہنچانے کے سنگین الزامات سامنے آئے۔ آصف علی زرداری کی ہدایت پر انہیں ڈپٹی کمشنر غربی لگایا گیا جہاں بحریہ ٹاون کے نام پر مختلف دیہہ اور اضلاع کی زمینوں کو کنسولیڈڈ کرنے اور اس کو بحریہ ٹاون میں الاٹ کرنے کے تمام امور کی باریک بینی سے چھان بین اُن کے ذمے لگائی گئی۔
مصدقہ ذرائع کے مطابق محمدعلی شاہ نے اپنے فرائض کے دوران کروڑوں نہیں اربوں روپے کمائے اور اس کے بعدوہ اربوں روپے مالیت کی جائیدادوں کے مالک بن چکے ہیں،نیب کراچی کے ہاتھوں لینڈ مافیا کا سرغنہ آدم جوکھیو اور دیگر لینڈ مافیا کے کرتا دھرتاؤں کے ساتھ وہ اربوں روپے کی درجنوں زمین پر حصہ دار بن چکے ہیں۔ جبکہ بحریہ ٹاون کی زمین کی تمام خریدو فروخت کے دوران میں محمدعلی شاہ کی این او سی یعنی گرین سنگل کے بغیر زمین کی قیمت ادائیگی نہیںکی جاتی تھیں۔ بحریہ ٹاون کی زمینوں میں اگر کوئی بے ضطگیاں موجود ہیں تو وہ صرف محمدعلی شاہ کے ہی علم میں ہے۔ یہی وجہ تھی کہ قومی احتساب بیورو کراچی نے جن 34شخصیات کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیاتھا ان میں محمد علی شاہ کا نام بھی شامل تھا۔مگر سپریم کورٹ کے فیصلے پر نیب ریفرنس کی کارروائی معطل ہونے پر محمدعلی شاہ کے خلاف کارروائی بھی معطل ہوگئی ۔ اگر چہ اس کیس میں وہ مرکزی ملزم نہیں تھے لیکن بحریہ ٹاون کی تفتیش پر مامور نیب کی مختلف ٹیموں کا کہناتھا کہ محمد علی شاہ سے تحقیقات کے بعد بڑے مالیاتی اسکینڈل منظر عام پر آسکتے تھے۔ اس کیس میں کس طرح سرکار کے ٹیکس کی ادائیگی ہڑپ کرنے اور ٹیکس کے نام پر فراڈ کا سب سے بڑ ا اسکینڈل سامنے آسکتا تھا لیکن یہ کیس اب بھی اپنی جگہ اُسی طر ح موجود ہے، اگر سپریم کورٹ سے کسی سطح پر ازسرنو جائز لینے کی درخواست کی جائے تو تو نیب ریفرنس دوبارہ کھول سکتا ہے اور محمد علی شاہ سمیت دیگر 34ملزمان کی گرفتاری عمل میں آسکتی ہے۔
محمد علی شاہ کے خلاف نیب کے چھ کیس زیر سماعت ہیں، ان کا نام بھی ایگز ٹ کنٹرول لسٹ (ECL)میں بے نامی اکاؤ نٹ کیس کے دوران ڈالا گیا تھا لیکن وہ دو مرتبہ بیرونِ ملک سفر کرچکے ہیں ۔ ایک بار عمرے کی ادائیگی کرنے گئے تھے، آصف علی زرداری اور ملک ریاض جن زمینوں کے کیس میں ملوث ہیں، ان میں محمد علی شاہ بھی پوری طرح ملوث ہے۔ پنک ریذیڈنسی گلستان جوہر کی خریداری اور اس سے جوڑے ہوئے تمام امور میں ان کا نام بھی زین ملک کے ساتھ شامل ہے ۔ عمیر ایسوسی ایٹ کے نام پر خریداری کی 7؍ایکٹر زمین
کی براہ راست خریداری میں بھی ان ہی صاحب کا نام لیا جاتا ہے ، جس میں ملک ریاض کے داماد کے ساتھ ساتھ کئی اہم شخصیات کے خلاف ریفرنس بھی دائر ہوچکا ہے۔
یہ ٹولہ اپنی منظم وارداتوں سے سیکٹر 40دیہہ صفورا اسکیم 33گلستان جوہر کراچی،اے ون انٹرنیشنل،ابراہیم لنکرز میں اربوں روپے سرکار کو نقصان پہنچانے کا مرتکب ہو چکاہے، سرکاری اور نجی اراضی پر سرکاری سرپرستی میں جعلی کاغذات کی آڑ میں قبضہ کرکے ہزاروں شہریوں کو اس کے جائز حق سے محروم کیا جاچکا ہے ،زمین کی الاٹمنٹ ، ڈبل الاٹمنٹ، جعلی الاٹمنٹ، فراڈ، دھوکا دہی ، پولیس اور دیگر اداروں کے ذریعہ زمینوں پر گن پوائنٹ پر قبضے کی بے شمار وارداتیں ریکارڈ پر موجود ہیں اور تحریری طور پر اس کی شکایتیں موجود ہیں۔ اس سسٹم کی آڑ میں ناکلاس سرکاری زمینوں کو قبولی اراضی ،جعلسازی،دھوکا دہی سے سرکاری ریکارڈ آف رائٹس میں تبدیل کرکے اربوں کھربوں روپے مالیت کی سرکاری زمین فروخت ہوچکی ہے ،اس کو سرکاری ریکارڈ میں ہی تبدیل کرکے کئی ہاتھوں میں گھما اور کنی ناموں پر منتقل کرکے الاٹمنٹ کی جا چکی ہے۔اس سسٹم کی آڑ میں کروڑروپے دن رات کمیشن وصول کیا جارہا ہے ۔ اگر اس میں کسی ایک افسر کے خلاف کارروائی کرکے اُسے مثالِ عبرت بنایا جاتا تو کوئی بھی افسر اس نوع کے جرم کی جرأت نہ کرتا۔
بدعنوان افسران کو نشانِ عبرت بنانے کی کوئی مثال قائم نہ ہونے کے باعث پاکستانی معاشرے میں جرم جڑوں تک سرایت کرتا جارہا ہے۔ محمد علی شاہ ایسے افسران پھل پھول رہے ہیں۔ کہاجارہا ہے کہ اسکیم 33میں لینڈ مافیا کے خلاف حالیہ کارروائی بھی اسی افسر کے ذہن رسا کا شاخسانہ ہے۔ یہ رشوت کک بیک کے منظم سسٹم کے تحت جاری منظم کھیل کا حصہ ہے جس میں مختلف بدعنوانوں کے خلاف کارروائی کا تاثر ایک طرف دیا جاتا ہے اور دوسری طرف اُن سے مال بٹور کر اُنہیں پچھلے دروازے سے گزار دیا جاتا ہے۔ اس منظم نظام میں سندھ کی تمام بیور و کریسی کسی نہ کسی طرح ملوث ہے۔ کراچی کے تمام اضلاع میں اس مکروہ نظام سے جڑے ہوئے سینکڑوں سرکاری اور غیر سرکاری افراد کی ایک بڑی تعداد ہر وقت متحرک رہتی ہے جو سروے ڈیپارٹمنٹ ، بیورو آف ریونیو ، لینڈ یوٹیلائزیشن ، سینٹرلائزسسٹم سمیت تما م دفاتر میں اپنا کھیل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کئی سرکاری اہلکار اس سسٹم کے بارے میںبتانے سے کنی کتراتے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر شرقی میں اپنے ساتھ کئی اہلکار بھی ہمراہ لائے جو اسی سسٹم کا لازمی حصہ ہے۔ ان جرائم کے ذمہ داروں کو سزا نہ دینے کے باعث یہ ہر گزرتے دن طاقت ور ہوتے جارہے ہیں اور ملک کا پورا نظام آخری ہچکیاں لیتا ہوا نظر آتا ہے۔ نیب کراچی میں ان وائٹ کالر جرائم کی تحقیقات دم توڑ رہی ہے۔ اکثر ریفرنس بغیر کسی منطقی انجام کو پہنچائے راستے میں ہی ایک تال میل کے نتیجے میں اپنا اثر کھورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کے حساس طبقوں میں اب ان وائٹ کالر کرائم کی تحقیقات کا نیب کے بجائے سپریم کورٹ سے کرانے کا مطالبہ سامنے آرہا ہے۔
سپریم کورٹ نے کراچی کی زمینوں کی غیر قانونی الاٹمنٹ اور جعلسازی کے خلاف اپنے فیصلے کے ذریعے 28ہزار سے زائد ایکٹر زمین کو کاغذات میں سندھ حکومت کو واگزار کراکے دی تھی، لیکن سندھ میں رشوت کمیشن اور کک بیک کے چلنے والے سٹسم کے ذریعے ان میں سے اکثر زمینوں کو دوبارہ الاٹ کر کے ٹھکانے لگایا جاچکا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ایسے ہی ایک ’’سسٹم‘‘ کو چلاتے ہوئے محمد علی شاہ نے بھی اپنا ایک الگ سسٹم بورڈ آف ریونیو میں رائج کردیا ہے۔
آصف علی زرداری اور ملک ریاض جن زمینوں کے کیس میں ملوث ہیں، ان میں محمد علی شاہ بھی پوری طرح ملوث ہے۔ پنک ریذیڈنسی گلستان جوہر کی خریداری اور اس سے جوڑے ہوئے تمام امور میں ان کا نام بھی زین ملک کے ساتھ شامل ہے ۔ عمیر ایسوسی ایٹ کے نام پر خریداری کی 7؍ایکٹر زمین کی براہ راست خریداری میں بھی ان ہی صاحب کا نام لیا جاتا ہے ، جس میں ملک ریاض کے داماد کے ساتھ ساتھ کئی اہم شخصیات کے خلاف ریفرنس بھی دائر ہوچکا ہے۔
محمد علی شاہ کے خلاف کوئی کارروائی کامیاب کیوں نہیں ہوتی؟
سرکاری ریکارڈ کے مطابق واٹر کمیشن کے سربراہ جسٹس ریٹائرد امیر ہانی مسلم نے سپریم کورٹ اور کمیشن کے حکمنامہ پر عملدآمد نہ کرنے پر محمد علی شاہ کو ڈپٹی کمشنر ملیر کے عہدے سے فوری ہٹانے کی ہدایت کی تھی۔ ان پر پانی کے منصوبہK-4میں زمین کے حصول میں رکاوٹ پیدا کرنے کا الزام لگایا گیا تھا، ڈی سی ملیر نے اربوں روپے کے زیر تعمیر منصوبے میں تاخیری حربے استعمال کیے تھے اور سرکا ر پر اربوں روپے نقصان پہنچانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔کمیشن کی ہدایت پر چیف سیکریٹری سندھ نے فوری عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کیا تھاتاہم محمد علی شاہ نے ایڈیشنل کمشنر ملیر اور ڈپٹی کمشنر ملیر کی حیثیت سے K-4منصوبے کی گزرگاہ یعنی راستوں کے اطراف اربوں روپے مالیت کی سینکڑوں ایکٹر زمین سرمایہ کاری کے نام پرالاٹمنٹ کرنے میں کامیاب ہوگئے ۔نیب میں گرفتارڈپٹی کمشنر ملیرقاضی جان محمد عباسی کو گرفتار کرانے میں محمد علی شاہ کا ہاتھ بتایا جاتا ہے۔ دوسری طر ف بحریہ ٹاؤن کی زمینوں میں موجود بے ضابطگیوں کو دور کرنے کے علاوہ محمد علی شاہ ان کیخلاف ثبوت او رٹھوس شواہد کو ریکارڈفائلوں سے غائب کرنے کے بھی مرتکب ہیں۔ اُن کو عہدے سے ہٹانے کے باوجود محکمہ جاتی تحقیقات نہیں ہوسکی۔ نیب کراچی میں جن زمینوں کی تحقیقات میں ان کا نام جڑا ہے، اس علاقے میں ڈیڑھ سال کے بعد وہ دوبارہ ڈپٹی کمشنر شرقی کے اہم ترین عہدے پر تعینات ہوگئے ۔یہ واحد افسرہے جن کو کراچی کے تین اہم اضلاع مین تعینات کیا گیا ۔
محمد علی شاہ سے آصف زرداری کے حساب کتاب کی کہانی
محمد علی شاہ زمین کے کھیل میں اربوں روپے کی مالیت کی اراضی کے وائٹ کالر جرائم میں ملوث ہے۔ یہ ریونیو کے محکمہ میں آصف زرداری کا ایک اہم ترین پرزہ ہے، جو ہر جگہ فٹ ہوجاتا ہے۔ اُن کے بااثر افسر ہونے کے باعث اُنہیں اپنے ماتحت افسران اور عملے کو بھی پوری آزادی سے تعینات کرنے کی آزادی حاصل ہوتی ہے۔محمد علی شاہ کو مختلف اوقات میں مناصب سے ہٹانے کی کہانی بھی مختلف نوعیت کی ہوتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سابق صدر آصف زرداری کی ہدایت پر بحریہ ٹاؤن کی زمین پر کام کے دوران ان پر 5ارب روپے خردبردکا الزام عائد کیا گیا تھا جس کا حساب دینے سے وہ کترارہے تھے۔جس پر اُنہیں آصف زرداری کی ہدایت پر ہی ہٹا دیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق بعدازاں محمد علی شاہ کو دبئی طلب کیا گیا اور چارٹ کی مدد سے بحریہ ٹاؤن کے حساب کتاب میں5ارب روپے ثابت ہونے پر محمدعلی شاہ کو فوری ادائیگی کی ہدایت کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایسا نہ ہوا تو وہ اپنے نتائج کے ذمہ دار خود ہوں گے۔ ذرائع کے مطابق محمد علی شاہ نے ان حالات میں گرفتار ہونے کے بعد دو ارب روپے کے لگ بھگ نقدی اور تین ارب روپے کی مختلف زمینوں کا ریکارڈ اوراثاثے جمع کرائے تو ان کی جان چھوٹ سکی۔جس کے بعد اُنہیں ایک بار پھر ڈپٹی کمشنر شرقی کے اہم ترین عہدے پر تعینات کردیا گیا ، جہاں وہ بورڈ آف ریونیو، گوٹھ آباد ، کچی آبادی اور سب رجسٹرار کے سربراہ کی حیثیت سے تمام بے ضابطگیوں کے سرپرست ہیں،اعظم بستی، منظور کالونی، اخترکالونی، چینیسر گوتھ،محمودآباد، پی ای سی ایچ ایس، جٹ لائن، جیکب لائن ، جمشید کوارٹرز، گارڈن ایسٹ، سولجر بازار، پاکستان کواٹرز،دیلی مرکنٹائل سوسائٹی، سوک سینٹر، پیر الہٰی بخش کالونی، عیسی نگر، گلشن اقبال، گیلانی ریلوے اسٹیشن، شانتی نگر، جمالی کالونی، گلشن اقبال ، پہلوان گوٹھ، میٹروول کالونی، گلزار ہجری، صفورا گوٹھ،کے ڈی اے اسکیم ون سمیت دیگر علاقوں میں زمینوں کی لوٹ مار تاحال جاری ہے، ریلوے سوسائٹی، گوٹھ آباد، سندھ کچی آبادی ، کے ڈی اے اور بورڈ آف ریونیو کے الاٹمنٹ ، ڈبل الاٹمنٹ ،جعلی الاٹمنٹ اور قبضہ گروپ کی ضلع شرقی اب جنت بن چکا ہے۔
محمد علی شاہ سے جرأت کی رابطے کی کوششیں
روزنامہ جرأ ت نے محمد علی شاہ کی مذکورہ رپورٹ کی اشاعت سے قبل اُن کا موقف جاننے کے لیے متعدد بار رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر اُنہوں نے جوابی رابطے سے گریز کیا۔ نمائندہ جرأت کو اُن کے دفتر سے صرف یہ بتایا گیا کہ وہ نیپا میں ٹریننگ پر گئے ہیں اور عارضی طور پر رخصت پر ہے۔ اس عذر کے باعث مذکورہ رپورٹ کے بعض حصوں کو عمومی رکھا گیا ہے، تاکہ اُن سے رابطہ ہونے کے بعد مختلف مخصوص زمینوں کی الاٹمنٹ میں ہیر پھیر کے الزامات پر اُن کی رائے کے بعد اُنہیں شامل اشاعت کیا جاسکتے۔ محمد علی شاہ زیرنظر رپورٹ پر بھی اپنا موقف یاوضاحت جب چاہیں دے سکتے ہیں جسے بلا کم وکاست شائع کیا جائے گا۔
اسکیم 33 میں سرکاری زمینوں کو ہڑپنے کا نیا منصوبہ
اسکیم 33میں لینڈ مافیا کے خلاف کارروائیوں کی آڑمیں رشوت کمیشن اور کک بیک کا نیا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے جس میں اسسٹنٹ کمشنر اور مختیارکار اسکیم 33کو 80کروڑ روپے جمع کرنے کا ہدف دیا گیا تھا ،جس سے لینڈ مافیا میں ایک ہلچل سی پید اہوگئی تھی۔ اس دوران میں اچانک چیف سیکریٹری سندھ ممتاز علی شاہ کے دستخط سے جاری ہونے والے ایک حکم نامے میں سروے سپرٹنڈنٹ محمد اسحاق گاڈکو اسٹنٹ کمشنر اسکیم 33تعینا ت کردیا گیا اور یہاں سے ارشاد علی کمالانی کو فوری ریونیو ڈیپارٹ میں رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی۔ جبکہ سیکریٹری ریونیو ڈیپارٹمنٹ قاضی شاہد پرویز کے دستخط سے 20-13-2020-east-III/1399/hyderabadبتاریخ 9اکتوبر 2020کوجاری کیے گئے ایک حکم نامے کے تحت جمیل احمد قادری کو مختیارکاراسکیم 33اور عبدالقیوم لغاری کو فوری بورڈ آف ریونیو رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ۔یہ دونوں محمد علی شاہ کے دست راست بتائے جاتے ہیں۔ ضلع ملیر میں بھی یہ ایک ساتھ کام کررہے تھے، لینڈریونیو کے ماہرکا کہنا تھا کہ اسکیم 33کے ساتھ ضلع شرقی کی کئی زمینوں کا ریکارڈ تبدیل کرنے کا ٹاسک ہے جس کی تکمیل کے لئے محمدعلی شاہ کی تعیناتی کی گئی ہے۔ اگر یہ سسٹم چلتا رہا تو سرکار ی زمینوں کو ہڑپنے کے ساتھ قومی خزانے کو اربوں روپے کے ٹیکس سے محروم کرنے کا منصوبہ بھی روبہ عمل لایا جائے گا۔ قومی احتساب بیورو، اینٹی کرپشن، ایف آئی اے ، اوردیگر تحقیقاتی ادارے اس مکروہ سسٹم کو لگام ڈالنے میں کامیاب نہ ہوئے تو افسران کے دلوں سے ہر قسم کاخوف نکل جائے گا۔