ہاتھ جب اس سے ملانا تو دبا بھی دینا
(ماجرا۔۔۔محمدطاہر)
شیئر کریں
تاریخ کے منچ پر مولانا ایک مختلف کردار کے ساتھ طلوع ہوئے ہیں۔ یہ کردار اُن کے لیے حیات بخش ثابت ہوگا یا عبرت افزا؟ابھی اس پر اندازے ہیں۔ مولانا فضل الرحمان سیاست دانوں کی فہرست میں صف اول کے رہنما ہیں۔ وہ اُن میں شامل نہیں جو سیاست دانوں میں ’’ مولانا‘‘ اور علمائے کرام میں سیاست دان سمجھے جاتے ہیں۔ اُنہیں سیاست دان ، سیاست دان ہی سمجھتے ہیں اور علمائے کرام ، عالم دین۔ وہ ایک ہاتھ سے سیاست کی کئی گیندیں گھمانے اور دوسرے ہاتھ سے خشوع وخضوع سے تسبیح کے دانے پھیرنے میں بھی مشاق ہیں۔ اُن کی اس مہارت کے وہ بھی قائل ہیں جو کسی کے قائل نہیں۔ مولانا کو یہ’’ مقام‘‘اُن کی حد سے زیادہ تعقل پسندی سے ملا۔ خدائے سخن میر تقی میر نے کہا تھا:
سہل ہے میرؔ کا سمجھنا کیا
ہر سخن اس کا اک مقام سے ہے
میر کے ہاں یہ’’ مقام‘‘سالک کی راہِ جستجو جیسا تھا۔ حکمت کے خم وپیچ سے اُبھر کر قلب کے اطمینان کی مانند ، غیاب میں ظاہر اور ظاہر میں نہاں کی طرح۔مگر مولانا کا مقام ’’عقل‘‘ سے طے ہوا۔گاہے خیال آتا ہے کہ خالق کائنات نے اُن کے دل کی جگہ بھی ایک دماغ تو نہیں رکھ دیا۔ غالب کے لیے مزاح گو شاعر دلاور فگار نے کہا تھاکہ وہ اپنے منزل تدبر وتفکر سے ایسی جگہ پہنچ گیا تھا جہاں دماغ بھی دل کی طرح دھڑکتا تھا۔دھرنے کے ماحول میں شعر سے لطف لیجیے:
پہنچ گیا ہے وہ اس منزلِ تفکر پر
جہاں دماغ بھی دل کی طرح دھڑکتا ہے
مگر مولانا کا دل بھی دماغ کی طرح سوچتا ہے۔ عمران خاں کو جومقام ’’بولنے‘‘ سے ملا، مولانا اُس سے بھی کہیں آگے’’ سوچنے سمجھنےسے پہنچے ہیں‘‘ ۔ مولانا اتنے پہنچے ہوئے ہیں کہ بڑے بڑے پہنچے ہوؤں کو بھی سمجھ نہیں آرہا کہ مولانا کہاں پہنچ گئے؟کچھ عالی دماغ یہ سوچ رہے ہیں کہ مولانا کا سفر دھرنے کا ہے یا مراقبے کا، کسی کو سمجھ نہیں آرہا کہ اُن کی جادو بیانی سے بھید بھرے راستے کھل جا سم سم کی مانند کھلتے چلے جائیں گے، یا’’ میرے گھر کے راستے میں کوئی کہکشاں نہیں‘‘ کا امتحانِ عشق لیں گے۔کسی کو پتہ نہیں چل رہا کہ مولانا اقتدار کی مقدس بارگاہوں کا ’’طلسم ورع‘‘ توڑیں گے، یا گرفتارِ طلسم ہوکر خود بھی اقتدار کا منتر بن جائیں گے۔ مولانا کے بارے میں حتمی بات کہنے کی قدرت تو خود مولانامیں بھی نہیں، کہ وہ اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پاگئے ہیں۔ سراغِ زندگی کے ساتھ وہ سوراخ بھی، جہاں سے طوفان نکلتے ہیں اور لاوے اُبلتے ہیں۔مولانا کو ملنے والے ’’سراغ‘‘ نے ’’سوراخ‘‘ سے دوستی کا راستا سجھایا ہے۔ کیایہ دوستی ناراضی کی راہ دیکھ رہی ہے ،کیا اب دماغ، دماغ سے بغاوت پر آمادہ ہے؟ اُن کے مقربین بھی اس راز سے آشنا نہیں۔ مولانا کی جادو بیانی کا یہ کرشمہ ہے کہ وہ سوال کا جواب نہیں دیتے ، مگر مسئول کو بے جواب بھی نہیں رکھتے۔ چنانچہ وہ ہر بات کرتے ہیں مگر کوئی بات نہیں کہتے۔
حیرت کو حیرت زدہ رکھنے والے مولانا نے پاکستان بھر کو دھرنے سے ہپناٹائز کردیا ہے۔ کیا دھرنے کے حامی او رکیا مخالف ، کوئی نہیں جانتا کہ یہ دھرنا ہے یا مارچ؟ ہدف ہے یا راستا؟ اس میں گرنا ہے کہ گرانا؟جو حامی ہیں، وہ دھرنے سے اُتنے سہمے ہوئے نہیں، جتنے اس سے کہ اگر مولانا کامیاب ہوگئے تو اُن کی سیاست کہاں ہوگی؟ جو مخالف ہیں ، وہ ڈر رہے ہیں کہ ’’ کس کے گھر جائے گا، سیلابِ بلا میرے بعد‘‘!!مولانا نے اپنے حامی اور مخالف میں کسی کو بھی اس حال میں نہیں چھوڑا کہ وہ اُن سے لاتعلق رہ سکیں۔مولانا کی بچھی بساط پر سارے مہرے چل رہے ہیں، اس اندیشے کے ساتھ کہ کہیں لاتعلقی کا بھوگ نہ دینا پڑے اور اس خوف کے ساتھ بھی کہ کہیں مولانا خود بھی اس کا مہرہ نہ ثابت ہوں۔ سرگرم حامیوں کو دھڑنے کے ساتھ دھڑکے بھی بہت ہیں کہ کیا دھرنا ، ہو بھی سکے گا یا نہیں؟اگر ہوگیا تو دھرنا ، دھرنا رہے گا، یا کچھ اور بن جائے گا؟اگر دھرنا کچھ اور بن گیا، تو حالات پر دسترس اُن کی ہوگی یا ’’کسی اور‘‘ کی ہوگی؟اگر’’ کسی اور‘‘ کی ہوگی، تو اُن کے ساتھ جو سلوک ہوگا ، وہ کیا ہوگا؟ اندیشوں اور امیدوں کے درمیان جُھولتے ، جھونجھتے حکومت مخالف رہنماوؤں میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو ’’مولانا‘‘ کے دھرنا منتر کے ’’سحر‘‘ میں مبتلا نہ ہوگئے ہو۔ مگر ان میں سے کوئی ایک بھی نہیں جو دھرنے کے متعلق حتمی اور قطعی طور پر ایک بات بھی کہنے کے قابل ہو۔ یہی حالات کا جبر ہوتا ہے!! حالات کا جبر جو حالات پیدا کرتا ہے، اُس کا بھی ایک جبر ہوتا ہے کہ یہ کسی کے اختیار میں نہیں ہوتے۔ مولانا حالات کو وہاں لے جارہے ہیں یا حالات مولانا کو وہاں دھکیل رہے ہیں؟اس سوال کا اپنا ایک طلسم ہے۔ اس کے جواب کی تلاش سے ایک آتش کدۂ حیرت کھلتا ہے۔ جسے دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے ، مگر بولا اور لکھا نہیں جاسکتا۔
سامنے کا ایک سوال تو یہ ہے کہ مولانا نے دھرنے کی تاریخ میں تاخیر قبول نہیں کی۔ کیوں؟ حزب اختلا ف کی تمام سیاسی جماعتیں دھرنے کی تاریخ کے بعد بھی اُن سے بتکرار، بصد اِصرار یہ کہتی رہیں کہ وہ تاریخ کو آگے لے جائیں۔ مولانا ’’راز پانے والے لب ولہجے‘‘ میں ایک گہری سانس لے کر یہی باور کراتے رہے کہ یہی وقت دھرنے کا ہے، پھر موقع نہیں ملے گا۔ مولانا کی جانب سے تقویم کے ان ہی ایام پر اِصرار اُن کی اپنی ریاضت کا نتیجہ ہے یا پھر کسی رازِ ہائے درونِ خانہ سے پھوٹنے والی سرگوشی نے اُنہیں مستعار زمین وآسمان پھونکنے پر آمادہ کیا؟ اگر ایسا ہے تو پھر یہ حمایت کے ساتھ مخالفت کی تحریک بنتی ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو یہ مخالفت کی ایک ایسی تحریک کے تیور رکھتی ہے جو کم ازکم پاکستان کی تاریخ میں پہلے کبھی اس طرح نہیں پھوٹی۔ مولانا اس پیش نامے کو بھی اپنے پسِ منظر اور تہہ منظر کے ساتھ چھپائے بیٹھے ہیں اور مغالطے کی ایک فضاء کو برقرار کھے ہوئے ہیں۔دوڑ کو سلجھانے والے سرے کی تلاش میں ہیں مگر یہ مل کر نہیں دے رہا۔ پاکستان کی تاریخ میں آج تک ایک تحریک بھی ایسی کھڑی نہیں ہوئی جو طاقت ور حلقوں کی حمایت کے بغیر ہو۔ یہاں تک کہ جنرل مشرف کے خلاف وکلاء تحریک کو بھی عسکری حلقوں کی حمایت حاصل تھی۔ جسٹس افتخار چودھری کو پرویز مشرف کی جانب سے طلب کیے جانے پر جب اُن کے اطراف میں تمام وردی پوش بیٹھے تھے اور اُنہیں باجماعت دھمکیا ں دی جارہی تھیں تو اُن میں سے ایک نے خاموشی اختیار کررکھی تھی اور اُنہیں رخصت کرتے وقت گرمجوشی سے ہاتھ ملایا اور دبایا تھا۔ آگے تاریخ ہے۔ مولانا کی تحریک میں ایسا کوئی ہاتھ دکھائی نہیں دیتا، شاعر نے جو خواہش پالی تھی، وہ مولانا کے ہاں پوری ہو بھی سکی یا نہیں، ابھی تک کم ازکم اس کے اشارے نہیں ملے کہ
راز جو کچھ ہو اشاروں میں بتا بھی دینا
ہاتھ جب اس سے ملانا تو دبا بھی دینا
مولانا فضل الرحمان بغیر ہاتھ ملائے اور دبائے ملکی تاریخ کو بدل کر ایک تحریک برپا کرنے میں کامیاب ہوسکیں گے؟ یہ سوال رواں ماہ کے اختتام تک سیاسی افق پر بحث طلب رہے گا اور مولانا کے تیور سے اس کا جواب تلاش کیا جاتا رہے گا۔ اگر اس کا جواب ’’ہاں‘‘ میں ملا اور دھرنا برپا ہوا تو دھرنا خود ’’لاجواب‘‘ ہوجائے گا۔ اگر اس کا جواب ’’ناں‘‘ میں ملااور دھرنا برپا ہوا تو وہ مولانا کو اپنے ماضی سے جوڑ کر مستقبل میں اُنہیں ’’بے جواب‘‘ہانک دے گا۔ جبکہ اُن کے متعلقین کو کتاب الحیل کی ورق گردانی کے لیے چھوڑ دے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔