1988کے قتل عام میں ہلاک ایرانیوں کی قبروں کی نشاندہی کا مطالبہ
شیئر کریں
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایران پر زور دے کہ وہ 1988 کے "جیل میں قتل عام” کے مہلوکین کی اجتماعی قبروں کوسامنے لائے۔میڈیا رپورٹس کے مطابق ایک بیان میں انسانی حقوق کی تنظیم نے تہران کی ماورائے عدالت پھانسی اور ہزاروں سیاسی مخالفین کی جبری گمشدگی کی بین الاقوامی تحقیقات شروع کرنے کا مطالبہ کیا، جو کہ "انسانیت کے خلاف جرائم” کے مترادف ہے۔ حالیہ مہینوں میں بیان میں کہا گیا ہے کہ ایرانی حکام نے تہران کے باہر خاروان اجتماعی قبرستان کے گرد "نئی، دو میٹر کنکریٹ کی دیواریں کھڑی کی ہیں، جس کے بارے میں خیال ہے کہ وہاں سنہ1988 میں خفیہ طور پر پھانسی پانے والے کئی سو سیاسی مخالفین کی باقیات کو دفن کیا گیا ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ دیواروں نے "سنگین خدشہ پیدا کیا کہ حکام اجتماعی قبر کو تباہ کرنے اور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ میں سہولت فراہم کریں گے، کیونکہ یہ جگہ اب باہر سے نظر نہیں آتی جب کہ سکیورٹی اہلکار اس کے داخلی راستے کی حفاظت کرتے ہیں اور مقتولین کے رشتہ داروں کو قبروں پر نہیں آنے دیتے۔ تنظیم کی مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے علاقائی دفتر کی ڈپٹی ڈائریکٹر ڈیانا الطحاوی کے حوالے سے بیان میں کہا گیا ہے کہ "ایرانی حکام محض جرائم کی جگہ کے گرد دیوار نہیں بنا سکتے اور انہیں یقین ہے کہ ان کے جرائم کو مٹا دیا جائے گا اور انہیں بھلا دیا جائے گا۔”الطحاوی نے مزید کہا کہ 34 سال سے حکام نے منظم طریقے سے اور جان بوجھ کر اہم شواہد کو چھپایا اور تباہ کیا جو 1988 میں کیے گئے ماورائے عدالت پھانسیوں کے دائرہ کار کو قائم کرنے اور متاثرین اور ان کے خاندانوں کے لیے انصاف اور معاوضے کے حصول کے لیے استعمال کیے جا سکتے تھے۔”انہوں نے مزید کہا کہ ایران میں اب بھی ہزاروں سیاسی مخالفین کو جبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے اور صرف اس حقیقت نے ضمیروں کو جھنجھوڑنا چاہیے، یہ جانتے ہوئے کہ جن لوگوں کے خلاف بین الاقوامی قانون کے تحت انسانیت کے خلاف جرائم کی تحقیقات کی جانی چاہیے وہ اعلی انتظامی اور عدالتی عہدوں پر پہنچ چکے ہیں، جس کے ذریعے وہ متاثرین کے لواحقین کے لیے تکلیف کا باعث بنتے رہیں۔