حکومت سندھ اور کے ایم سی میں تنازع حل نہ ہوسکا !
شیئر کریں
میئرکراچی نے بارشوں کے دوران حکومت سندھ اورعوام کے لیے مسائل پیداکیے ‘کئی مقامات پرفوٹوسیشن کراکے چلے گئے
وسیم اخترکوبلدیہ عظمی کراچی کے لندن اورامریکا میں بیٹھے گھوسٹ ملازمین کی توفکرہے ‘کراچی کے شہریوں کی قطعی فکرنہیں
بارشوں میں اگرکے ایم سی کے ایک لاکھ ملازمین سڑکوں پرآجاتے تونکاسی آب کے لیے فوج اوررینجرزکی مددکی ضرور ت نہ رہتی
الیاس احمد
حکومت سندھ کو اس دن سے مشکلات پیش آئی ہیں جب سے کے ایم سی معرض وجود میں آئی ہے۔ حکومت سندھ نے 2007ء کے بعد بلدیاتی الیکشن نہیں کرائے لیکن پھر اعلیٰ عدالتوں میں مقدمات چلے ۔ اورعدلیہ نے بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کاحکم دیا تو چارو نا چار حکومت سندھ کوبلدیاتی انتخابات کرانا پڑے ۔ بلدیاتی الیکشن کے بعد ایم کیوایم نے کراچی اور حیدرآباد میں اکثریت حاصل کی اس کے بعد کراچی میں وسیم اختر اور حیدرآباد میں محمد طیب میئر منتخب ہوگئے ۔
ایم کیوایم پر بانی الطاف حسین کی گرفت ختم ہوئی تو معاملات فاروق ستار کے ہاتھ میں آگئے اور فاروق ستار نے جس طرح غیر سنجیدگی سے معاملا ت چلائے ہیں اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس سے بڑا کیا مذاق ہوسکتا ہے جب فاروق ستار کہتے ہیں کہ جس طرح برما کی حکومت روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم کررہی ہے اس طرح وفاقی حکومت اور حکومت سندھ کراچی کے مہاجروں پر ظلم کررہی ہے۔ اگر کوئی یہ سوال پوچھے کہ گزشتہ 35 برسوں سے ایم کیوایم کراچی میں بلا شرکت غیرے راج کررہی ہے، اس دوران میں کراچی پر جاری مسلسل ظلم کیا برمی حکومت کررہی تھی؟ایک دن بلدیہ فیکٹری کے 300مزدور زندہ جلاڈالے گئے۔ ایم پی اے رضا حیدر قتل ہوئے توساتھ ہی 50نہتے افراد کو بھون ڈالا گیا ۔ یہ سب کیا تھا؟ یوں لگ رہا ہے کہ فاروق ستار صاحب الطاف حسین کے بعد کی صورتِ حال کو پوری طرح قابو نہیں کرپارہے۔
کے ایم سی کے میئر وسیم اختر نے حالیہ دنوں میں حکومت سندھ کے لیے مفت میں مسائل پیدا کیے ہیں۔ دو ماہ قبل بارشیں ہوئیں تو میونسپل کمشنر برائے میونسپل سروسز مسعود عالم کو بیرون ملک جانے کی چھٹی دے دی ۔حالانکہ وسیم اختر کو پتہ ہے کہ وہ گریڈ 20کے افسر کو بیرون ملک تو کجا ملک میں رہتے ہوئے بھی ایک ہفتے کی چھٹی نہیں دے سکتے۔ حکومت سندھ نے مسعود عالم کو اس حرکت پر معطل کردیا اور پھر حال ہی میں عید سے قبل شدید بارشیں ہوئیں تو میئر وسیم اختر نے ایک مرتبہ پھر میٹروپولیٹن کمشنر محمد نواز نسیم کو حکومت سندھ کے اہم اجلاسوں میں جانے سے روک دیا۔ بارشوں کی پیش گوئی ہوئی تو حکومت سندھ نے ایک دن وزیر بلدیات تو دوسرے دن وزیر بحالیات کی صدارت میں الگ الگ اجلاس بلائے جس میں دس محکموں اور اداروں نے شرکت کی لیکن صرف کے ایم سی کے افسران نے شرکت نہیں کی، جب بارشیں ہوئیں تو پوری کے ایم سی غائب تھی اور وسیم اختر بھی ایک دو جگہ صرف فوٹو سیشن کرواکر چلے گئے۔کراچی کے شہری بے یارومددگار دیکھتے رہے۔
1983ء سے لے کر اب تک کے ایم سی کا انتظام ایم کیو ایم کے پاس رہا ہے۔ صر ف پرویز مشرف کے پہلے چار سالوں میں کراچی کے ناظم نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ رہے۔ کراچی کی ابتری دیکھ کر اب ایم کیوایم کے متوسط لوگوں کی جماعت ہونے کے دعوے کو بھی دھچکا پہنچ رہا ہے۔ کیونکہ ایم کیو ایم میں اب بالائی سطح پر اتنے امیر لوگ شامل موجود ہیں کہ دوسری جماعتوں سے اب یہ مختلف نہیں لگتی۔ فاروق ستار جس گاڑی میں سفر کرتے ہیں اس کی قیمت ڈھائی کروڑ روپے ہے، وسیم اختر کے پاس 4کروڑ روپے کا گھر او ر2کروڑ روپے کی گاڑیاں ہیں۔ ان حالات میں انہیں کراچی کا غم کیسے لاحق ہوسکتا ہے۔اب ایم کیو ایم بھی پی پی پی کی راہ پر چل پڑی ہے کہ عوام کو صرف لالی پاپ دو اور اپنے گھر بھرو، اپنے اثاثے بنائو۔ اور بُرے حالات آنے سے قبل بیرون ملک منتقل ہو جاؤ۔ عوام پر صرف حکمرانی کے لیے واپس آئو اور پھر مواقع سے فائدہ اُٹھا کر واپس چلے جائو۔ اگر حالیہ بارشوں میں کے ایم سی کے ایک لاکھ ملازمین سڑکوں پر آتے تو شاید 24گھنٹوں میں نکاسی آب کا مسئلہ حل ہو جاتا۔حکومت سندھ نے مجبور ہوکر رینجرز کی خدمات حاصل کیں اور رینجرز، نیوی کی کوششوں سے نکاسی آب ہو سکی۔ افسوس ناک بات تو یہ ہے کہ وسیم اختر کو ،کے ایم سی کے گھوسٹ ملازمین کی تنخواہ کی تو فکر ہوتی ہے جو اس وقت لندن اور افریقا میں بیٹھے ہیں لیکن ان کو کراچی کے شہریوں کی فکر نہیں ۔