میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
یوم آزادی مناتے ہوئے آزادی کے مقاصد پر غور کیا جائے!

یوم آزادی مناتے ہوئے آزادی کے مقاصد پر غور کیا جائے!

جرات ڈیسک
پیر, ۱۴ اگست ۲۰۲۳

شیئر کریں

پاکستان ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے اپنے 76 برس مکمل کرچکا ہے پاکستان کو بنے 75 برس ہو چکے۔ آج دنیا بھر میں پاکستانی آزادی کی 76 ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستانیوں کے لیے یہ آزادی کا مہینہ ہے۔آزادی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اللہ کا ہم پر بہت بڑافضل ہے کہ اُس نے ہمیں یہ سر زمین عطا فرمائی اور اس خطہ کو چاروں موسموں،میدانی و صحرائی زمین اورپہاڑی سلسلوں سمیت معدنی وسائل سے مالامال فرمایا ہے۔کم و بیش 200سالہ غلامی کے بعد آزادی کا سویرا طلوع ہو، یہی وجہ ہے کہ ا اس دن دنیا بھر میں بسنے والے پاکستانی اپنے اپنے انداز میں خوشی کا اظہار کررہے ہیں۔ اس نعمت خداداد پر اللہ کریم کا شکر ادا کررہے ہیں۔ فضائیں ملی نغموں اور قومی ترانوں کی دھنوں سے گونج رہی ہیں، ا سکولوں کے بچے اور بچیاں ”ہمارا پرچم پیارا پرچم۔ اس پرچم سائے تلے۔ ہم ایک ہیں،ہم ایک ہیں“ کے گیت گا رہے ہیں۔ہر طرف ”عیاں ہیں خون شہیداں کی عظمتوں کے نقوش“ اور ”زبان لالہ و گل پر ہے داستان وطن“ جیسے ملی نغموں کی دلفریب آوازیں کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔ ہر طبقہ زندگی کے لوگ اس دن کو جوش و خروش کے ساتھ منارہے ہیں۔ بڑی بڑی کانفرنسوں اور جلسوں کا اہتمام کر کے مذہبی، سماجی اور سیاسی تنظیمیں آزادی کے قائدین کو خراج تحسین پیش کر رہی ہیں۔ ہر محب وطن پاکستانی وطن عزیز کی بقاو سلامتی کی دعائیں مانگ رہا ہے۔ آج کا یوم آزادی یعنی14 اگست ہمارے آئین کو نافذ العمل ہونے کی گولڈن جوبلی بھی ہے۔ یہ وہ دن تھا جب ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کو ایک مکمل آئین دیا جو 19 اپریل 1973 کو نافذالعمل ہوا۔اب پاکستان اپنے دورکے اس سفر میں ہے جس کی تفسیر پاکستان کے آئین کے آرٹیکل نمبر1 میں ہے۔ آرٹیکل نمبر 1 کو اگر باقی ماندہ آئین کے آرٹیکل کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس میں ساتھ ساتھ ہندوستان اور پاکستان بنانے والی پارٹیوں کی جنرل باڈی کے فیصلوں کو بھی کو مد نظر رکھا جائے۔ پاکستان اور ہندوستان کی سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کرتے وقت کانگریس اور مسلم لیگ کے ایسے کئی اجلاسوں کا ذکرکیا ہے۔اب اگر ہم اپنی تاریخ کا جائزہ لیں تو ہمارا یہ سیاسی سفر ہمارے آئین کے گرد ہی گھوم رہا ہے۔ ہمارے آئین کا وجود ہماری آزادی کا دوسرا رخ ہے، ظاہر ہے کہ پاکستان ہے تو آئین بھی ہے اور اگر پاکستان نہیں تو آئین کا وجود بھی نہیں۔آئین کا بننا بھی ایک سائنٹیفک سبجیکٹ ہے اور اس سبجیکٹ کے سائنسی بننے میں جو ہلچل مچی وہ دنیا کے پہلے تحریری آئین نے مچائی، جب4 مارچ 1789 کو امریکا کا تحریری آئین وجود میں آیا اور نافذ العمل ہوا۔ ایک ایسا مختصر آئین جو اس بدلتی دنیا میں 240 سال تک نہ صرف نافذ العمل رہا بلکہ آج بھی اس کا وجود تر و تازہ ہے۔ امریکہ کے اس آئین نے بھی ماڈرن امریکہ میں بڑے نشیب و فراز دیکھے اور ان نشیب و فراز سے گزر کر یہ دنیا کا ایک منفرد آئین ٹھہرا۔ مگر اس آئین کا بنیادی ڈھانچہ تبدیل نہیں ہوا۔ یہ آئین اب بھی وہ ہی ہے، دنیا کا مختصر ترین آئین۔بھارت کا آئین ایک جامع اور طویل آئین ہے اور ایک بہترین آئین کے حساب سے اپنی پہچان رکھتا ہے۔ آئین ایک مکمل وجود کا تصور رکھتا ہے، آئین کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اس کا بننا اور مرتب ہونا، اس ریاست کی تمام نسلوں، رنگ و زبانوں، ثقافت اور تاریخ کا مرکب ہوتا ہے جو دستاویزات کی شکل میں جمع ہوتا ہے اور پھر اس قوم کے تمام نمائندگان ان دستاویزات کو آئین کی شکل دیتے ہیں اور ساتھ چلنے کا عہد کرتے ہیں۔پاکستان کا آئین اپنے آرٹیکل1 میں اس ریاست کو ری پبلک اور وفاقی ریاست کہتا ہے اور جغرافیائی اعتبار سے اس کی تشریح کرتا ہے۔ آئین کی رو سے ہمارا قومی مذہب اسلام ہے۔ آئین کے آرٹیکل ون کو اگر آرٹیکل20کی رو سے دیکھا جائے تو یہ آئین، پاکستان میں بسے تمام مذاہب کے لوگوں کو مکمل آزادی دیتا ہے۔
آج یوم آزادی مناتے ہوئے ہمیں غور کرنا چاہیے کہ آزادی ہمیں کس سے حاصل کرنی تھی؟ ہمیں کافرانہ نظام سے،سود کے معاشی نظام سے آزادی چاہیے تھی، عدلیہ میں وہ قانون چاہیے تھا جو اللہ کے رسول نے اللہ کی کتاب کی صورت میں عطا فرمایا۔سیاسیات کا وہ راستہ چاہیے تھا جو آزادانہ ہے۔جو اللہ اور اس کے رسول نے عطا فرمایا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ گزشتہ 8 دہائیوں میں بھی قیامِ پاکستان کے محرکات اور مقاصد بہت سے حوالوں سے پورے نہیں ہوئے، ہم ابھی تک اپنے سیاسی، سماجی اور معاشی نظام کا ہی تعین نہ کر سکے۔ ہر دور میں ہماری تغیر پزیر پالیسیوں میں موجود تضادات، الجھاؤ، انتشار اور بے یقینی کی کیفیت نے ہماری اجتماعی سوچ و شعور کو پختہ ہی نہ ہونے دیا۔ نہ صرف قیامِ پاکستان کے مقاصد بلکہ بنیادی نظریے پر بھی شکوک و شبہات کے سائے پھیلائے گئے، اس سے بھی بڑھ کر دستور، قانون اور اجتماعی اخلاقیات کے ہر اصول و ضابطے کو پارہ پارہ کیا گیا۔ نتیجتاً حصول آزادی کے76 سال بعد بھی ہم اپنی آزادی کی بقاء اور نظریاتی تشخص کی حفاظت کی جد و جہد کر رہے ہیں۔ ہمیں بحیثیت قوم غور کرنا چاہیے کہ ہماری منزل کیا تھی، ہم کس سمت میں چلے تھے۔ اس عرصے میں اگرہم نے کوئی کمائی کی تو کیا، کچھ گنوایا تو کیا؟ گویا ہمارا میزانیہ کیا ہے۔ پھر مزید یہ کہ داخلی اور بین الاقوامی اعتبار سے ہم اس وقت کہاں کھڑے ہیں اور حالیہ بحرانوں میں بچاؤ کا کوئی راستہ ہے کہ نہیں؟ اگر ہے تو کون سا ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان نے 76 برس کے سفر میں بہت کچھ پایا ہمیں وطن عزیز ملا، اپنی قومی شناخت ملی اور پاکستان عالم اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بن گیا۔ قیام پاکستان کے وقت ملک میں اکا دکا صنعتیں اور چھوٹے کارخانے تھے اور کوئی بڑی قابل ذکر صنعت نہیں تھی، جب کہ آج ہماری ٹیکسٹائل کی صنعت دنیا میں ایک اہم مقام حاصل کر چکی ہے، آج پاکستان دفاعی لحاظ سے ایک مضبوط ملک ہے، ہماری ایٹمی ٹیکنالوجی دنیا میں بہترین ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس امر سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ ہماری کارکردگی اس سے بہتر ہو سکتی تھی اگر ہم اخلاص سے ملک کی ترقی کیلئے کوشش کرتے، دراصل ذاتی مفادات کو قومی مفادات پر ترجیح دینے سے ہم آج مشکلات کا شکار ہوئے۔ سیاسی سطح پر پورے 76 سال میں افراتفری اور عدم استحکام کا دور دورہ رہا۔ کبھی حکومتیں بن رہی ہیں، بگڑ رہی ہیں، ایک تکون ہے جو حرکت کرتی ہے، اس کا کبھی ایک رخ سامنے آ گیا کبھی دوسرا رخ سامنے آگیا۔ہم سیاسی سطح پر ایک نابالغ اور اپاہج قوم کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ معاشی سطح پر ہمارا ریکارڈ بد ترین ہے، بھاری بھر کم بیرونی قرضوں کا بوجھ قوم کے کندھوں پر ہے، ہر ہر پاکستان ڈھائی لاکھ روپے سے زائد کا مقروض ہے۔ امن و امان کی سطح پر نقضِ امن، قتل، ڈکیتی، رہزنی اور اغوائبرائے تاوان معمول کا حصہ بن چکے ہیں۔ شرح خواندگی ہمارے ساتھ آزاد ہونے والی دوسری اقوام کے مقابلے میں بہت کم ہے، نظام تعلیم عصری اعتبار سے جوہر قابل پیدا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ تعلیم اب یہاں ایک کاروبار اور نفع بخش صنعت بن چکی ہے۔ اخلاقی سطح پر جھوٹ، وعدہ خلافی اور خیانت انتہائی عروج پر ہیں۔ ہم صنعتی ترقی کی وہ سطح حاصل نہیں کر سکے جہاں دنیا کے دوسرے ممالک پہنچ چکے ہیں۔ غربت، بے روزگاری، مہنگائی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں روز بروز بڑھ رہی ہیں۔ بلا امتیاز سستا اور فوری انصاف، پینے کا صاف پانی، تعلیم و صحت سمیت بنیادی سہولتیں وطن عزیز کے تمام شہریوں کو میسر نہیں۔ موجودہ غیر یقینی صورتحال میں صنعتکاری کا عمل رک گیا ہے جس سے ملازمتوں کے مواقع محدود ہو گئے ہیں۔اس صورت حال کا تقاضا ہے کہ آج کے دن ہم جشن آزادی مناتے ہوئے اپنی صفوں کو درست کرنے کی سعی کرنے کاعہد کریں۔ہمیں آج یہ تسلیم کرنا ہوگاکہ ہمیں ابھی مکمل آزادی کی جدوجہد کرنا ہوگی اور جمہویت کو فروغ دے کر اہل قیادت کو آگے لانا ہوگا۔ اس آزادی کا ذکر قائد اعظم نے 11 اگست کو اپنی تقریر میں واضح انداز میں کیا، جو انھوں نے آئین ساز اسمبلی میں کی تھی۔ہمارے سیاسی پس منظر پر سوالیہ نشان یہ ہے کہ کیا ہم گزشتہ 75 سال میں اپنے آئین کے مطابق چل سکے ہیں؟ بھارت کا آئین 70 سال پہلے آیا مگر ایک دفعہ بھی بھارتی عدالتوں نے نظریہ ضرورت کا استعمال نہیں کیا، لیکن اس ملک میں نظریہ ضرورت کے تحت ہماری اعلیٰ عدالتوں کو استعمال کیا گیا۔ یہ ایک مفروضہ ہے کہ عدالتیں آئین کی پاسداری کی محافظ ہوتی ہیں لیکن اگر عوام ہی اس عمل پر کوئی ردِ عمل نہ دیں تو کچھ نہیں ہو سکتا۔حکومتوں کے نادر شاہی خیالات کے خلاف عوامی مزاحمت کی تازہ مثال اسرائیل ہے۔ اسرائیل میں ان کے وزیر اعظم نتن یاہو جو کہ ایک دو تہائی اکثریت بھی رکھتے ہیں، آئین میں ترمیم لانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ حکومتی فیصلوں کے خلاف کوئی بھی اسرائیل کی عدالت میں نہ جاسکے۔ اسرائیل کی عدالتوں کو آئینی ترمیم کے ذریعے پارلیمنٹ اور حکومت کے تابع کردیا جائے۔ اس حکومتی فیصلے کے خلاف، اسرائیل میں ایک بھرپور رد عمل سامنے آیا، اسرائیل کی سول سوسائٹی، سابق سربراہانِ موساد، اسرائیل کی افواج، ایک ہزار سے زائد جنگی پائلٹ سب نے یہ کہہ دیا ہے کہ وہ کسی آمر کے حکم کے تابع نہیں ہیں اور نہ ہی وہ ان کے حکم کے تحت کام کریں گے۔نیتن یاہودراصل اس طرح کے قانون کے ذریعے اسرائیل کے عوام کے مذہبی جذبات کو ابھارکر اپنا مقصد حاصل کرنا چاہتے تھے، اپنا ووٹ بینک بنانا چاہتے تھے، وہ عدالتوں کے طاقتور ہونے سے ڈرتے ہیں لیکن اسرائیل کے عوام نے ان کی اس خواہش کی راہ میں ایک مضبوط دیوار کھڑی کردی ہے۔ 1820 میں امریکا میں ایسے قوانین بنائے کہ صدر،کانگریس اور سینیٹ ایک طرف اور عدالتیں دوسری طرف، ایسے قوانین بنائے گئے جن سے عدالتوں کے اختیارات کم ہوں۔ اس وقت امریکہ کے چیف جسٹس سر جان مارشل تھے۔ سر جان مارشل نے پہلی مرتبہ دنیا میں تحریری آئین کی تشریح کی۔امریکہ کے آئین کو، برطانیہ کے غیر تحریری آئین سے ایک مختلف شکل میں پیش کیا اور یہ بھی کہا کہ اس آئین کے خلاف جو بھی قانون آیا تو اس قانون کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ اس طرح امریکہ کے تینوں ستونوں یعنی پارلیمنٹ، عدلیہ اور مقننہ میں طاقت کا توازن پیدا ہوا۔ ہر ستون اپنی طاقت میں توازن رکھتا ہے اورکوئی دوسرا ستون پہلے ستون کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔پارلیمنٹ کا کام ہے قانون سازی کرنا، عدلیہ کا کام ہے قانون کی تشریح کرنا اور مقننہ کا کام ہے اپنے اختیارات کے تحت اس قانون کو نافذکرنا اور عمل کروانا۔پاکستان میں طاقت کے تینوں ستونوں میں سب سے کمزور پارلیمنٹ ہے اور اب شدید ضرورت ہے کہ اس بات کو زیر بحث لایا جائے کہ کس طرح اورکیا اقدامات کیے جائیں کہ پارلیمنٹ کو طاقت کے توازن میں عدلیہ کے برابر لایا جائے۔ عدلیہ اپنے اختیارات کے دائرے میں رہ کر قانون اور آئین کی تشریح کرے اور پارلیمنٹ اپنے دائرہ اختیار میں رہ کر قانون سازی کرے نہ کہ عدلیہ کے اختیارات میں مداخلت کرے۔غیر جمہوری قوتوں کی باربار کی مداخلت سے معاشرے میں خطرناک حد تک بگاڑ پیدا ہوا بلکہ انصاف کا نظام درہم برہم ہوگیا۔ غیرجمہوری قوتوں نے اپنی اشرافیہ کو مزید طاقتور بنایا، ریاست کے وسائل کا رخ ان کی جانب موڑ دیا گیا۔ حب الوطنی کی من پسند تشریح بنائی گئی، پڑھے لکھے طبقے کو گمراہ کیا گیا اور انتہا پسندی کے بیانیے کو ہوا دی گئی۔ یہاں تک کہ ملک کو اس نہج تک پہنچا دیا گیا کہ اب یہ ملک دیوالیہ ہونے کی مشکلات میں ہے اور اپنی بقاکی جنگ لڑ رہا ہے۔آج 14 اگست کویوم آزادی مناتے ہوئے ہمیں عہد کرنا چاہئے کہ آئین ہے تو پاکستان ہے اور آئین نہیں تو پاکستان نہیں۔قیام پاکستان سے لے کر آج تک پاکستان میں سیاسی، معاشی اور سماجی اعتبار سے غیر یقینی صورت حال رہی ہے، آج ہمیں یہ سوچنا چاہئے کہ کیا ہم اس بات کا جائزہ لینے کے لیے بھی تیار ہیں کہ سیاسی، معاشی اور سماجی طور پر ہم پہلے کہاں تھے اور اب کہاں ہیں؟
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں