ناکامیاں افغانستان کے اندر ہیں، پاکستان پر انگلیاں اٹھانا چھوڑ دیں،معید یوسف
شیئر کریں
قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے کہا ہے کہ ناکامیاں افغانستان کے اندر ہیں، پاکستان پر انگلیاں اٹھانا چھوڑ دیں، افغانستان کے بحران میں شروع ہی سے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں تھا ،پاکستان ہر اس عمل کا ساتھ دے گا جس میں افغان خود اپنے مستقبل کا فیصلہ کریںافغان مسئلے کا فوری سیاسی حل اور تصفیے کی اشد ضرورت ہے ،جرمن ٹی وی ڈی ڈبلیو کو ایک خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے معید یوسف نے کہاکہ طالبان پرپاکستان کا اثر و رسوخ کے لفظ کا استعمال غلط ہے۔ کسی کو بھی یہ کہنا کہ وہ طالبان کو کسی تصفیے کے لیے تیار کرے ‘احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے۔ زمینی حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ طالبان کا افغانستان کے تقریبا 70 فیصد علاقے پر کنٹرول ہے۔ وہ ہر روز ایک نا ایک ضلعے پر قبضہ کر رہے ہیں۔ وہ اس طرح نقل و حرکت کر رہے ہیں جیسے کے وہ جنگ کے میدان میں ہوں۔طالبان ہوں، اشرف غنی یا دیگر سیاسی قوتیں، انہیں کسی تصفیے یا نتیجہ خیز عمل تک پہنچا کر کون فائدہ اٹھا سکتا ہے۔ کیا اس بارے میں کوئی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں کہ افغان حکومت کو ایک ایک پائی امریکا، یورپ اور بین الاقوامی برادری سے ملتی ہے؟ ان کا افغان حکومت پر کتنا کنٹرول ہے۔ کیا یہ سیاسی قوتیں انہیں افغانستان میں ایک فعال حکومت بنانے یا بدعنوانی کے بارے میں بات چیت کرنے کے لیے قائل کر سکیں؟ہمارا نہیں تمام مغربی پریس دیگر آوٹ لیٹس یہاں تک کہ خود افغان اس بارے میں بات کر رہے ہیں۔ کیا یہ سب کچھ جان بوجھ کر ہو رہا ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ ایک ایسی صورت حال بن چکی ہے جس میں ایک ایک پیسہ باہر سے آ رہا ہے۔ خود امریکی انٹیلیجنس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ”افغان حکومت امریکا کے بغیر چھ ماہ بھی نہیں چل پائے گی۔پاکستان کا ایسا کوئی تعلق نہیں رہا ہے۔ 90 کی دہائی میں بھی، اسوقت جب محض تین ممالک نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا، انہوں نے کبھی پاکستان کی نہیں سنی۔ یہ سب من گھڑت ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب امریکا نے انخلا کا فیصلہ کیا اسے اچھی طرح ادراک تھا کہ اس ملک میں جہاں وہ 20 سال سے زیادہ موجود رہا ہے، وہاں سے اس کے نکلنے کے بعد یہ ملک کتنا غیر مستحکم ہو گا اور طالبان پیش قدمی کریں گے۔اب پاکستان کی طرف رخ کرنا اور اس سے کہنا کہ وہ کچھ کرے۔ جس وقت افغانستان میں ایک لاکھ پچاس ہزار غیر ملکی فوجی تعینات تھے، اس وقت پاکستان کہہ رہا تھا کہ افغانستان کے لیے کوئی سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ 2002 کی شروعات سے لے کر 2006 تک پاکستان سیاسی حل کی بات کرتا رہا، تب کسی نے اس کی نا سنی۔ اب برائے مہربانی ان ‘ناکامیوں پر توجہ مرکوز کریں۔ ‘ناکامیاں افغانستان کے اندر کی ہیں۔ یہ ہمارا انتخاب نہیں تھا۔انہوں نے کہاکہ اب ‘پاکستان کو قربانی کے بکرے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی ملک کے ساتھ اس سے زیادہ نا انصافی کی بات نہیں ہو سکتی کہ جس نے 80 ہزار انسانی جانوں اور ایک سو پچاس ملین ڈالر کا مالی نقصان اٹھایا، ساڑھے تین تا چار ملین افغان مہاجرین کا بوجھ اب بھی اٹھا رہا ہے، اسے ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ جو شکار ہوا اسے الزام دینا چھوڑ دیں۔