تاریخ کی تاریخ!(ماجرا۔۔۔محمد طاہر)
شیئر کریں
14؍ اگست 1947ء کیلنڈر کی نہیں حقیقی تاریخ کا دن تھا۔
اب 72 برس ہوتے ہیں ، یہ 14؍ اگست 2019 ہے، محض کیلنڈر کی ایک تاریخ ۔ اپنی ہی’ تاریخ ‘سے ناآشناتاریخ!!
وہ بے بدل یہ بے بصر، وہ ثمر باریہ بے برگ و بار،وہ بے خودیہ دم بخود،وہ نجوم یہ ہجوم، وہ قافلہ یہ بھیڑ، وہ نماز باامامت یہ بے دُولھا کی برات ، وہ باہدف یہ بے مصرف۔وہ تاریخ جس کے پیچھے صدیاں باادب یہ تقویم کی تاریخ جس کے آگے صدیوں کی ملامت۔تاریخ کی دو مختلف سمتوں میں کھڑی یہ دونوں تاریخیں اپنے مقام کی منتظر ہیں؟ٹہر جائیے ریمنڈ کارور کی کہانی کا ایک کردار ہم سے بھی پوچھتا ہے:ہم تو اچھے بھلے مردوں کی طرح چلے تھے، آخر ہمیں کیا ہوگیا‘‘؟
پاکستان ایک صراطِ مستقیم ہے، نظریۂ پاکستان اس راستے کے آسمان پر چاند کی طرح چمکتا ، رہنمائی کرتا ہے۔ اس کی تائید ہمارے اجتماعی اعمال سے نہیں ہر روز بھارت کے اندر سے ہوتی ہے۔ اب تازہ گواہی مقبوضہ کشمیر سے آئی ہے۔ جہاں کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کردیا گیا۔ اسی جال اور فریب سے کشمیریوں کو وہاں کی مسلم قیادت احمق بناتی چلی آتی تھی۔کشمیریوں کو خصوصی حیثیت حاصل ہے، اُن کی شناخت کو ختم نہیں کیا جاسکے گا۔ یہ جغرافیہ اُن کے ہاتھ میں رہے گا۔ ہندو پاک کشاکش کا حصہ بن کر رہنے سے کوئی فائدہ نہ ہوگا۔ اب فاروق عبداللہ سے لے کر محبوبہ مفتی تک سب اپنے اپنے زخم دکھا رہے ہیں۔ ہندو کی برہمن ذہنیت اُن کے ساتھ اسی سلوک کی مرتکب ہوئی جس نے تاریخ کے دوام میں مسلمانوں کو ایک علیحدہ ریاست کے قیام پر گامزن کیا۔
پاکستان مسلمانوں کی اجتماعی روحانی ، اخلاقی اور مذہبی روح کا مطالبہ تھا۔ مگر اس کی تشکیل میں ہندوانتہاپسندی کا عمل دخل سب سے زیادہ ہے۔ ہندوؤں کی تاریخ ہے کہ وہ غلبے کی نسلی نفسیات یعنی برہمن مزاج کے ساتھ سب کو دیوار سے لگانا چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے باب میں اُن کا یہ رویہ زیادہ بہیمانہ اور عریاں ہواکیونکہ مسلم مزاج مزاحمت پر آمادہ رہتا ہے۔ تاریخی طور پر اسی لیے ہندو مسلم تصادم برصغیر کے افق پر سب سے نمایاں رہا۔ اگرچہ ہندوؤں کی یہی تاریخ دیگر نسلی اور مذہبی اکائیوں کے ساتھ بھی موجود ہے۔ مگر چونکہ باقی نسلی اور مذہبی اکائیوں کی مزاحمت کم اور عملاً برہمن جارحیت کے آگے سپر انداز رہنے کی روایت زیادہ ہے تو اس کا ذکر بھی معدوم رہتا ہے۔ اس ضمن میں ہندوؤں کے سفاک اور دہشت انگیز سماج کی مختلف اکائیوں کی تشکیل میں موجود’’ شودروں ‘‘کے مقام کا مطالعہ ہی کافی ہوگا۔ ہندوؤ ں نے اس اکائی کو سماجی طبقات کی نچلی پرت پر رکھ کر چھ ہزار برس سے مسلسل ذلت کی زندگی گزارنے پر مجبور رکھا ہے۔ ہندو رکا کت کی انتہایہ ہے کہ برہمنوں نے اپنے سفاک طرزِ عمل کی مسلسل آگ سے نچلی ذات کے لوگوں میں احتجاج کی لہروں کو بھی فنا کردیا۔ اور اُنہیں ذات پات کے سماج میں کمتر، کہتر اورذلت آمیزحیثیت پر قانع بنادیا۔ انسان اپنے انسان ہونے کے شرف سے سمجھوتا کرلے ، زندگی میں زندگی سے دستبردار ہونے پر آمادہ ہوجائے، تو وہ صدی بعدصدی اورنسل در نسل کس مسخ حالت میں زندگی کرسکتا ہے، اس کی تصویر آج کے بھارت میں شودروں کی زندگیوں میں دیکھی جاسکتی ہے۔ ڈاکٹر رام شرن نے 1956 میں اپنی ڈاکٹریٹ کی سند کے لیے تحقیق میں شودر ذات کو ایک موضوع بنایا۔اُنہوں نے شودروں پر مظالم کی تاریخی تصویر تو نہیں کھینچی، مگر سماجی عدم مساوات کی اس تاریخی کہانی کے بعض حصوں کو واضح ضرور کیا۔ وہ برہمنوں کے اس سماجی نظام کی شقاوت پر لکھتے ہیں کہ تاریخ میں پیدا ہونے والی تمام اصلاحاتی تحریکوں نے بھی اسی ذات پات کے نظام کو مستحکم کرنے میں حصہ ڈالا۔ بودھ ، جین، شیو اور وشنو کی اصلاحی مذہبی تحریکوں نے بھی نچلی ذاتوں کو صرف مذہبی مساوات کی امید دلائی مگر عملاً اُنہیں مستقل برہمن بالادستی کے موجودہ سماجی نظام سے ہم آہنگ کرڈالا، یعنی ہندوؤں کی نفسیات یہ ہے کہ وہ اپنے سماجی نظام کی اس شقاوت میں ہر مخالف لہر کو بھی جذب کرلیتے ہیں۔ مسلمان تو بابری مسجد کو روتے ہیں افسوس ناک امر یہ ہے کہ آج نچلی ذات کے لوگ مندروں میں نہیں جاسکتے۔ اس سے آگے بڑھ کر بعض مندروں میں بلاامتیاز عورتیں داخل نہیں ہوسکتیں۔ اس نوع کی خبریں بھارت سے ہر دوسرے روز سامنے آتی ہیں۔تاریخی طور پریہ دعویٰ بلاخوفِ تردید کیا جاسکتا ہے کہ ہندوؤں کے ساتھ کسی بھی قسم کا نباہ دراصل اسی برہمن نفسیات کو قبول کرنا ہے۔ یہ دراصل مذہب ،انسانی شرف ، مساوات اور ہر نوع کی تکریم سے دستبردار ہوکر برہمن ہندوؤںکے دستِ نگر اور حاشیہ بردار ہونا ہے۔ بھارت سے آج بھی کسی قسم کے تعلقات کا مطلب یہی ہے۔
بھارت کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات دراصل دشمن کو دبانے کے ہتھکنڈوں میں شراکت داری کے تعلقات ہے۔ امریکا سے تعلقات اس دہشت ناک پالیسی کی عالمی تنقید سے تحفظ کے لیے ہے۔ وگرنہ دنیا کا یہ وہ ملک ہے جو اپنے علاوہ کسی بھی دوسرے ملک کے ساتھ برابری کے تعلقات رکھنے کی نفسیات ہی نہیں رکھتا۔ اس کاسب سے اچھا اور حقیقی مشاہدہ جنوبی ایشیا میں موجود اُس کے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کی تہہ داریوں میں کیا جاسکتا ہے۔بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی کو ایک تامل عورت نے اس لیے نشانا بنایا کیونکہ وہ سری لنکا کی خانہ جنگی میں ملوث تھا۔ نیپال ایک ہندو ریاست کے طور پر بھارت کا ہم مذہب ملک ہے مگر بھارت اسے بھی گوارا کرنے کو تیار نہیں۔ چنانچہ نیپال بھارت سے زیادہ چین سے اچھے تعلقات رکھتا ہے۔ بھارت چین سے ایک جنگ لڑ چکا ہے اور مستقل چین کے خلاف اپنی جنگی حکمت عملی کو استوار رکھتا ہے۔ برما اُس کی ایک طفیلی ریاست بن کررہ گئی ہے۔وہ بنگلہ دیش کو بھی ایک باج گزار ریاست کے طور پر دیکھنا چاہتا ہے۔
ہندوستان کی تاریخ کا جوہری مطالعہ یہ واضح کرتا ہے کہ ہندوستان کا ہر برہمن رہنما ایک ہندوراج منصوبے کا ہی حصہ رہا ہے۔ اگرچہ اُس نے مختلف طریق ہائے سیاست اختیار کیے۔ ان رہنماوؤں میں کوئی انتہاپسند، کوئی معتدل، کوئی مسلمانوں سے تعلقات کا خواہاں، کوئی اُن کے وجود کو معدوم ونابود کرنے کے درپے، کوئی برابری کا قائل کوئی عدم مساوات کی مذہبی تعبیر کا مبلغ رہا۔ مگر عملاً ان سب نے یہ سارے مقاصد ایک ہندو راج کی ماتحتی کی تحویل میںرکھے ہیں۔ اس حوالے سے قائد اعظم برصغیر کا وہ پہلا ذہن تھے جنہوں نے ہندو برہمن کی اس تہہ دار نفسیات کی اپنے تجربات سے تفہیم کی تھی۔قائد اعظم اس راز کو پا گئے تھے۔اس کا ادراک سب سے پہلے علامہ اقبالؒ نے کیا۔ بر صغیر کے مسلمانوں پر ان دورہنماوؤں کے ’’احسانات‘‘کا بدل کوئی نہیں ہوسکتا۔ پورا پاکستان اور برصغیر میں جینے والا ہر مسلمان ان کا دائم احسان مند ہے۔
درحقیقت یہ راز ہر مسلم بیدار ذہن کے لاشعور میں دفن تھا کہ ہر ہندو رہنما برصغیر میں ایک ہندو راج کا خواہشمند ہے۔ تاریخی طور پر مسلمان اس امر سے واقف تھے کہ ہندو سے مسلمان ہونے والوں کو بھی سلطان غیاث الدین بلبن نے اپنے ’’درباری‘‘ بنانے سے منع کردیا تھا۔ اس کے پیچھے ہندوؤں کی یہ چانکیائی سیاست بے نقاب ہوئی تھی کہ ہندوؤں نے مختلف مکروفریب کے راستے اختیار کرتے ہوئے یہ طے کیا تھا کہ مسلم سلاطین کے دربار میں بہترین ہندو دماغوں کو مسلمان بنا کر بھیجا جائے جو مسلم اقتدار کو کمزور اور مسلمانوں کی رسوائی کا سامان کریں۔تقسیم ہند سے قبل کی پچاس سالہ سیاست ہندوؤں کے تمام طریقوں کی نقاب کشائی کی تاریخ بھی ہے۔ ہندوؤں کا سب سے بناؤٹی اور ڈھونگی رہنما گاندھی کے استاد گوپال کرشن گوکھلے سے لے کر خود گاندھی تک اور بال گنگا دھر تلک سے لے کر سردارولبھ بھائی پٹیل اورنہرو تک سب ایک ہندوراج کے متمنی تھے۔ ان میں فرق صرف طریقۂ واردات کا تھا۔ مسلمانوں کو سمجھنے اور اُنہیں قابو کرنے کے طریقوں پر غور کا تھا۔ ہندوستان ہندو سیاست میں جن دوراستوں سے اپنے نجات کی راہ دیکھتا تھا،اُن میں سے ایک گوپال کرشن گوکھلے کا بنایا ہوا تھا اور دوسرا بال گنگا دھر تلک کا تھا۔بال گنگا دھر تلک انگریز کے خلاف مزاحمت کے قائل تھے۔ اُنہیں نوآبادیاتی حکام ’’ہندوستانی بے امنی کا سرچشمہ ‘‘قرار دیتے تھے۔ وہ23 ؍جولائی 1856 ء کو پیدا ہوئے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ نریندر مودی نے گزشتہ ماہ اُن کے یوم پیدائش پر اُنہیں خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ دوسری طرف گوپال کرشن گوکھلے کا راستا تھا، جسے گاندھی نے اپنی ذہنی افتاد اور دماغی پیچیدگیوں سے مختلف طریقوں ، حیلوں اور فریبوں سے آراستہ کیا ۔ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ہی نہیں خود ہندو طلباء کے لیے بھی یہ ایک سوال رہا کہ قائد اعظم محمد علی جناح آخر کیوں ہند ومسلم اتحاد کے سفیر سے رفتہ رفتہ مسلمانوں کے واحد ترجمان اور مسلم ریاست کے علمبردار بن گئے۔ گوپال کرشن گوکھلے کے قائد محترم کے لیے الفاظ تھے کہ
’’Jinnah is an ambassador of Hindu-Muslim unity.‘‘
(جناح ہندو، مسلم اتحاد کے سفیر ہیں‘‘)۔
ایک برہمن بنگالی خاندان میں پیدا ہونے اور بعدازاں بلبلِ ہند کہلانے والی سروجنی نائیڈو نے بھی قائد اعظم کو’’ ہندو مسلم اتحاد کی علامت ‘‘کے طور پر دیکھا۔ یہ سوال صرف طلباء میں نہیں ،ہندو انتہاپسند جماعت بی جے پی کے ایک رہنما جسونت سنگھ کے ذہن میں بھی پیدا ہوا۔اُس نے اپنی ایک کتاب ’’Jinnah : India, Partition, Independence‘‘ میں بھی اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی۔ اگرچہ جسونت سنگھ نے اپنی کتاب میںتاریخ سے کھلواڑ کیاہے۔ایک خاص پسِ منظر کے باعث وہ ہندو سماج کی تہہ داریوں میں اُترنے سے قاصر رہے۔ مختلف ہند ورہنماوؤں کے ساتھ قائد کے تجربات کا احاطہ کرنے میں بھی وہ اکثر جگہوں پر غیر معروضی دکھائی دیتے ہیں۔اُنہیں کہیں پر بھی برصغیر کی سب سے محترم شخصیت کے طور پر ایک الگ اور مسلم نمائندہ قیادت کے حوالے سے ناپسندیدہ انداز میں اظہار پر پشیمانی بھی نہیں۔ مختلف اور تھکا دینے والے ادھورے اور یکطرفہ موقف سے لتھڑی چار سو سے زائد صفحات پر محیط اس آلودہ کتاب میں کہیں کہیں قائد اعظم کو مایوس کرنے والے کانگریسی رہنماوؤں کے اقدامات بھی ازخود سامنے آجاتے ہیں۔بھارت کے ہندو ذہن نے اپنی انتہا پسند ہندو جماعت کے اس رہنما کے اس ’’قصور‘‘ کو بھی معاف نہیں کیا۔ جسونت سنگھ بھار ت کے ریٹائرڈ آرمی افسر تھے، وہ بھارت کے وزیر خارجہ اور وزیر دفاع بھی رہے۔ مگر اس کتاب کے منظر عام پر آنے کے بعد اُنہیں خود بی جے پی نے دیوار سے لگا دیا۔یہ ہندو ذہنیت ہے۔ قائد اعظم اس ذہنیت سے چھڑا کر مسلم قوم کو بچاکر لائے۔اُنہیں ایک جغرافیہ دیا۔اُن کی شناخت کو مستحکم کیا۔ اور اُنہیں برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لیے ایک نمونہ بنانے کی جستجو کی۔ یہ عظیم قائد آج ہم میں نہیں، مگر اُن کا بچا کھچا پاکستان اب بھی ہے اور اس کا دشمن بھارت بھی۔ ان کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے کوشاں کشمیری مسلمان میدان عمل میں ہماری راہ تک رہے ہیں۔ یہ سچ جذباتی نہیں، سوچا سمجھا اور تاریخ کے گہرے پانیوں میں ڈوب کر تلاش کیا گیا ہے کہ برہمنوں سے رواداری ، انکساری اورملنساری سے کچھ نہیں منوایا جاسکتا۔ اگر کوئی اس غلط فہمی میں ہے کہ ان سے ہماری دشمنی کسی بھی کشمیر کی وجہ سے ہے تو یہ ہندوؤں کی غلط تفہیم ہے۔ کشمیر سے دست کش ہوجائیں تو اگلے ہی روز بھار ت آپ کے ساتھ ایک نیا تنازع تخلیق کرلے گا۔ یہی برہمن نفسیات ہے۔ یہی ہندوؤں کی تاریخ ہے۔ اسی تاریخ نے قائد اعظم کو الگ ریاست کا راستا سجھایا تھا۔ ہندوستانی مسلمان اسی نفسیات اور تاریخ کے آج بھی شکار ہیں۔ کاش ہم 14؍اگست 2019 کے مخمصوں سے نکلیں اور 14؍ اگست 1947 میں ایک حقیقی قوم کی طرح جھانکیںتو پتہ چلے گا کہ کیلنڈر کی تاریخوں پر جینے والی قوم جتیی نہیں مرتی ہے۔ اور تاریخ کی سچائیوں سے اُبھر کر موت کا سامنا کرنے والی قوم مرتی نہیںجیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔