تقسیم برصغیر کا عجائب گھر: دھندلی پڑتی یادوں کو تازہ رکھنے کی کوشش
شیئر کریں
تحریر:۔ ایچ اے نقوی
70 سال پہلے آخرکار غلامی کی یہ بیڑیاں ٹوٹیں تو ایک نئے ملک کا جنم بھی ہوا اور بے پناہ خونریزی بھی،لیکن ان واقعات کو 70سال گزرنے کے باوجود تقسیم کے زخم کی چبھن ابھی تک کم نہیں ہو سکی‘ امرتسر کے خوبصورت ٹاؤن ہال میں ایک گزرے ہوئے دور کی یاد دلانے کی کوشش کی گئی ہے۔ یہ انگریزوں کے زمانے کی عمارت ہے جسے دیکھ کر ذہن میں ایک ایسے ہندوستان کی تصویر ابھرتی ہے جو کبھی غلام تھا۔
ہندوستان برطانوی راج کی سب سے بڑی نوآبادی تھی اور اگست 1947 کے وسط میں کئی ماہ کے سیاسی تعطل کے بعد برطانیا بالآخر اس امر پر رضامند ہوگیا کہ ہندوستانی مسلمانوں کے اس خدشے کو اہمیت دی جائے کہ ہندو اکثریت والے آزاد ہندوستان میں مسلمانوں کو خسارے کا سامنا رہے گا۔چنانچہ ملک کو تقسیم کر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ وطن قائم کر دیا گیا۔اس عمل میں برطانوی ہند کے دو بڑے صوبوں پنجاب اور بنگال کو بھی تقسیم کا سامنا کرنا پڑا۔ آزادی کے دو ہی دن بعد اعلان کر دیا گیا کہ بین الاقوامی سرحد کی لکیر کہاں کہاں سے گزرے گی۔ملک کی تقسیم نے آلام و مصائب کا ایک ایسا طوفان کھڑا کر دیا جس کی مثال حالیہ عالمی تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔ کہا جاتا ہے کہ قحط اور جنگ کی صورتحال کے سوال کبھی لوگوں نے اتنی بڑی تعداد میں اپنا گھر بار نہیں چھوڑا۔اس تعداد کا درست تعین تو آج تک نہیں ہو سکا لیکن محتاط اندازے کے مطابق تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ افراد پناہ کی تلاش میں در بدر ہوئے۔ محفوظ ٹھکانوں کی جانب کْوچ کی کوششوں کے دوران پانچ سے دس لاکھ تک افراد مارے گئے جن میں مسلمان، ہندو اور سکھ سبھی شامل تھے۔ 80 ہزار سے زیادہ عورتیں، مخالف مذہب کے مردوں نے اغوا کر لیں۔
تقسیم برصغیرکے وقت پنجاب کی حالت خاص طور پر ناگفتہ بہ تھی جہاں ہندو، سکھ، مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہتے تھے اور ایک ہی زبان بولتے تھے لیکن اب مسلمان جان بچا کر پاکستان کی جانب بھاگ رہے تھے اور ہندو اور سکھ بھارت کی طرف۔۔۔ لیکن ایک دوسرے کے خون کی پیاس تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ یہ ان معنوں میں خانہ جنگی نہیں تھی کہ متحارب افواج آمنے سامنے صف باندھے کھڑی ہوں لیکن اسے محض چند مشتعل لوگوں کی کارروائی کہہ کر بھی ٹالا نہیں جا سکتا کیونکہ دونوں جانب کے مسلح جتھے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ایک دوسرے کے علاقوں پر حملہ آور ہوتے تھے۔اس مار کاٹ کے زخم آج تک مندمل نہیں ہوئے اور نہ ہی کسی نے ان زخموں پر مرہم لگایا۔ نہ کسی قاتل کو سزا ملی، نہ کسی مقتول کی داد رسی ہوئی بلکہ عرصہ دراز تک ظلم و ستم کی ان داستانوں پر چپ کی چادر پڑی رہی۔برسوں بعد کچھ کہانی کاروں نے ان دہشت ناک فسادات پر اپنے قلم کو حرکت دی اور کچھ فلمسازوں نے اپنے کیمروں کا رخ ان روح فرسا مناظر کی طرف موڑا۔سینہ بہ سینہ چلنے والی زندہ تاریخ کو ریکارڈ پر لانے کا اہم کام بھی حالیہ دنوں میں ہی شروع ہوا ہے اور فسادات کا آنکھوں دیکھا حال سنانے والے چند بچے کھچے بزرگوں کے انٹرویو ریکارڈ کرنے کے کئی منصوبے اس وقت جاری ہیں۔
کشمیر کا تنازع پاک و ہند تعلقات میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ بنا رہا ہے۔1947 کے فسادات میں مرنے والوں کی کوئی یادگار کہیں تعمیر نہیں کی گئی اور تقسیمِ ہند کی یادگاریں محفوظ کرنے کے لیے پہلا عجائب گھر اب جا کر امرتسر میں کھْلا ہے۔تقسیمِ ہند کی تلخ یادیں پاکستان اور انڈیا کے باہمی تعلقات میں ایک زہر کی طرح گھْلی ہوئی ہیں اور خطے کا سیاسی جغرافیہ گزشتہ 70 برس میں کاملاً بدہیئت ہو چکا ہے۔1947 میں جس تصفیے کے تحت پاکستان بنا تھا وہ 25 برس بھی پورے نہ کر سکا اور ملک کا دایاں بازو جو انڈیا کے پار دو ہزار کلومیٹر کے فاصلے پر تھا، 1971 میں الگ ہوگیا۔ مشرقی پاکستان نے انڈین فوج کی مدد سے آزادی حاصل کر لی اور بنگلہ دیش کے نام سے ایک نیا ملک وجود میں آ گیا۔تقسیمِ ہند کے غیر تصفیہ شدہ معاملات میں سرفہرست کشمیر کا مسئلہ ہے۔ ہمالیہ کے دامن میں قائم اس راجواڑے میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ تقسیم کے وقت ہندو مہاراجہ نے انڈیا سے الحاق کا اعلان کیا لیکن جلد ہی پاکستان اور ہندوستان کی افواج کشمیر کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے مدِمقابل آ گئیں۔یہ تنازع آج تک طے نہیں ہو سکا اور پاک و ہند تعلقات میں کشیدگی کی سب سے بڑی وجہ بنا رہا ہے۔بھارت ،پاکستان پر یہ الزام بھی لگاتا ہے کہ وہ اس کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کرنے والے شدت پسند گروہوں کی مدد کرتا ہے جبکہ پاکستان کا کہنا ہے کہ بھارت بلوچستان جیسے علاقوں میں علیحدگی پسند تحریکوں کی حمایت کرتا ہے۔ان اختلافات کے باوجود دونوں ممالک کے رہنما وقتاً فوقتاً ملاقاتیں بھی کرتے رہے ہیں جن سے حالات بہتر ہونے کی امید بھی پیدا ہوتی رہی ہے لیکن اس وقت باہمی تعلقات کی صورتحال نہایت مایوس کن ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت کا تجارتی لین دن بیلجیئم، جنوبی افریقا یا نائجیریا جیسے دوردراز ممالک سے تو بہت زیادہ ہے لیکن اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کے ساتھ انتہائی کم۔جنوبی ایشیا کے ممالک نے ایک تنظیم برائے علاقائی تعاون تو قائم کر رکھی ہے لیکن وہ انتشار کا شکار رہتی ہے اور افریقی یا یورپی یونین یا ‘آسیان’ کی طرح فعال نہیں ہے۔اگرچہ بھارتی فلمیں پاکستان میں بے حد مقبول ہیں اور پاکستان کے ٹی وی ڈرامے بھارت میں شوق سے دیکھے جاتے ہیں لیکن دونوں ممالک میں باقاعدہ ثقافتی تعلقات موجود نہیں بلکہ جب کشیدگی بڑھتی ہے اور معاشرتی اور ثقافتی تعلقات بھی خراب ہو جاتے ہیں۔بھارت اور پاکستان کے درمیان سفر میں مسئلہ صرف ویزے کا حصول ہی نہیں بلکہ دیگر مشکلات بھی بہت ہیں۔ابھی پچھلے دنوں ہی شدت پسندوں کے مطالبے پر بھارت کے معروف فلمساز کرن جوہر کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ آئندہ کسی پاکستانی فنکار کو اپنی فلموں میں کاسٹ نہیں کریں گے۔صحافیوں کا آزادانہ تبادلہ بھی آج کل بند ہے اور خطے کے اہم خبری اداروں کے نمائندے ایک دوسرے کے ملکوں میں موجود نہیں ہیں۔
دونوں ملکوں یعنی پاکستان اوربھارت کے شہریوں کا دوسرے ملک کا سفر بھی آسان نہیں ہے خواہ اس کا مقصد قریبی رشتہ داروں سے ملاقات ہی کیوں نہ ہو۔ مسئلہ صرف ویزے کا حصول ہی نہیں بلکہ سفر میں دیگر مشکلات بھی بہت ہیں۔ مثلاً دونوں ملکوں کے درمیان گنتی کی چند پروازیں چلتی ہیں اور وہ بھی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان براہِ راست نہیں ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان ایک طویل سرحد ہے لیکن سرحد پار کرنے کے مراکز موجود نہیں۔لوگوں کا کہنا ہے کہ ایک بڑے اور طاقتور ہمسائے کی جانب سے کسی بھی وقت حملہ ہو جانے کے اصلی یا فرضی خطرے کے نتیجے میں پاکستانی فوج کو پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہا ہے جبکہ جمہوریت پختگی کی منزل تک پہنچنے سے محروم رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2050 تک بھارت دنیا میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والا ملک بن جائے گا۔پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے زیادہ ہے جن میں سے 96 فیصد مسلمان ہیں۔بھارت کی آبادی ایک ارب 30 کروڑ ہے اور ہر ساتواں شخص مسلمان ہے۔گویابھارت میں بھی مسلمانوں کی تعداد کم از کم پاکستانیوں جتنی تو ضرور ہے۔ لیکن وہاں پارلیمان اور سرکاری اداروں میں مسلمانوں کی نمائندگی آبادی کے تناسب سے کہیں کم ہے۔ کچھ مبصرین کے نزدیک اس تعصب اور بدسلوکی کا سبب یہ تاثر ہے کہ بھارتی مسلمان پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔پاکستانی اوربھارتی باشندے حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہیں اور جب دونوں ملکوں کی ٹیمیں کھیل کے میدان میں آمنے سامنے آتی ہیں تو حب الوطنی کا یہ جادو سر چڑھ کر بولتا ہے لیکن اس کا کیا علاج کہ تقسیم کے حادثے کا وہ زخم آج تک ہرا ہے جس نے آزادی کے جشن کو صفِ ماتم میں تبدیل کر دیا تھا اور جس کی چبھن 70 برس بعد بھی کم نہیں ہوئی۔اور ہاں جس کرکٹ میچ سے بات شروع ہوئی تھی اس میں پاکستان کو زبردست فتح حاصل ہوئی تھی۔ بھارت نے بظاہر یہ صدمہ برداشت کر لیا لیکن سوشل میڈیا پر بھارتی عوام دل کی بھڑاس نکالتے رہے کیونکہ اپنے ‘پرانے دشمن’ سے یوں شکست کھا جانا عام بھارتی کے لیے کوئی معمولی صدمہ نہیں تھا۔
اسی ٹاؤن ہال میں قائم تقسیم کا عجائب گھر ان یادوں کو تازہ رکھنے کی کوشش ہے جو وقت کے ساتھ دھندلی پڑتی جا رہی ہیں لیکن دوسرے عجائب گھروں سے یہ ذرا مختلف ہے۔یہاں تقسیم کو قریب سے دیکھنے والوں کی یادوں کو انہیں کی آواز میں محفوظ کیا گیا ہے جن میں مشہور شاعر گلزار بھی شامل ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ ‘مجھے یاد ہے کہ جنم اشٹمی کے دن ہم نے ایک اور پنجابی بستی میں جاکر پناہ لی تھی۔۔۔ مدت تک یہ داغ آنکھوں پر جمے رہے۔ انہیں دھونے میں بڑا وقت لگا۔گلزار کے مطابق ’20، 25 سال تک میں فسادات کے خواب دیکھتا رہا، آنکھ کھل جاتی تھی تو پھر سوتا نہیں تھا، یہ خوف رہتا تھا کہ یہ خواب پھر آجائے گا۔ اس کے بعد جب لکھنا سیکھ لیا تومیں یہ سب اپنے اندر سے باہر نکال سکا، ورنہ نہ جانے اس کا میرے اوپر کیا اثر ہوتا۔کم ہی لوگ جانتے ہیں کہ ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں کا اعلان آزادی کے دو دن بعد 17 اگست کو ہوا تھا، افراتفری کے اس عالم میں لاکھوں بے گھر ہوئے لاکھوں زندگیاں تباہ ہوئیں۔ملکہ آہلووالیہ اس عجائب گھر کے بانیوں میں شامل ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ‘یہ ایک ایسا وقت تھا جب ہندو، مسلم اور سکھوں کو بہت کچھ سہنا پڑا۔۔۔ تینوں نے تشدد دیکھا بھی اور شاید خود کیا بھی۔ اپنے عجائب گھر میں ہم یہ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ظلم تینوں طرف ہوا۔ لیکن ہم یہ بھی دکھانا چاھتے ہیں کہ اس وقت لوگوں نے ایک دوسرے کی مدد بھی کی، ایسی مثالیں ہمارے عجائب گھر میں موجود ہیں اور بہت ضروری ہے کہ یہ کہانیاں بھی بتائی جائیں۔
امرتسر کے خوبصورت ٹاؤن ہال میں قائم کیے گئے عجائب گھر کے ایک بڑے کمرے کے بیچوں بیچ ان عورتوں کی یاد میں ایک کنواں بنایا گیا ہے، جنھوں نے مذہبی جنون کے اس دور میں اپنی عزت بچانے کے لیے کنوؤں میں کود کر جان دے دی تھی۔ملکہ کہتی ہیں کہ ‘ہمارے پاس درد بھری داستانیں تو بہت ہیں لیکن دل کو خوش کرنے والی کہانیاں بھی ہیں، ہمارے پاس پھلکاری کی ایک جیکٹ ہے جس سے محبت کی ایک کہانی جڑی ہوئی ہے۔ دو پیار کرنے والے کیسے بچھڑے اور پھر کیسے ملے۔۔۔ لیکن اس کہانی کو سننے کے لیے آپ کو خود عجائب گھر میں آنا پڑے گا!اسی ہال کے ایک کونے میں ایک خط رکھا ہے، اپنے بیٹوں کے نام ایک باپ کا خط جس میں لکھا ہے کہ ‘حالات اب ایسے ہو گئے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ میں یہاں سے نکل پاؤں گا یا نہیں اور تمہیں دوبارہ دیکھ پاؤنگا یانہیں۔جس نسل نے تقسیم دیکھی تھی، وہ اب تیزی سے ختم ہو رہی ہے، اور ان کے ساتھ ان کی یادیں بھی، لیکن یہاں آنے والوں میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی بھی شامل ہے جو روشن تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘یہ عجائب گھر ہمارے لیے ایسے دروازے کھولتا ہے جو اب تک بند پڑے تھے۔۔۔ ہم نے اپنے استادوں اور بزرگوں سے کہانیاں سنی تو تھیں لیکن یہاں آکر آپ باقاعدہ یہ محسوس کرسکتے ہیں کہ ایسا بھی ہوا ہے۔۔۔ یہاں آکر یہ سبق ملتا ہے کہ حالات کتنی جلدی بے قابو ہو سکتے ہیں۔اس عجائب گھر میں تاریخ بھی ہے، سبق بھی، درد بھری داستانیں بھی، اور محبت کے حسین قصے بھی۔ جسے جس کی تلاش ہو۔