میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کلام اقبال کا محور قرآن مجید ہے!

کلام اقبال کا محور قرآن مجید ہے!

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۴ جولائی ۲۰۲۳

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

 

اقبال کا سارا کلام اپنے اندر روحِ قرآن کو سموئے ہوئے ہے شاید ان کا ایک شعر بھی ایسا نہیں جو کسی قرآنی آیت کی تفسیر اور مفہوم سے خالی ہو۔خود اقبال کا یہی دعویٰ ہے اور رموزِ بیخودی کی نظم ”عرضِ حال مْصنّف بحضور رحمتہ اللعالمین” اسی حقیقت کا اظہار ہے جس میں اقبال بارگاہِ سرورِ کونین میں عرض گزار ہیں۔
عالمی مجلس بیداری فکراقبال کی ادبی نشست میں”اورتم خوارہوئے تارک قرآں ہوکر "کے عنوان پر طارق شاہین نے کہاکہ آج کاخطاب تین حصوں پر مشتمل ہے،اقبال کاقرآن مجیدسے لگاؤ،ترک قرآن مجیدکے نتائج اور اقبالیات کی روشنی میں اسلامی نشاة ثانیہ کی منزل۔ علامہ کے والد نے انہیں نصیحت کی تھی کہ قرآن مجیدایسے پڑھا کروجیسے ابھی آپ پر نازل ہورہاہے۔ زمانہ طالب علمی میں بھی اقبال کوقرآن مجیدسے گہراشغف رہاتھا،پھرجب یورپ گئے توپختہ مسلمان بن کرلوٹے اور سحرخیزی کے لمحات میں قرآن فہمی ان کاخاص وظیفہ ہوتاتھا۔علامہ کے نزدیک اسلامی نشاة ثانیہ صرف قرآن مجیدسے وابستگی کے نتیجے میں حاصل ہوسکتی ہے۔ قرآن ایسی زندہ کتاب ہے جس نے راہزنوں،بدؤں اور جہلاء کو زمانے کی تہذیبوں کاامام بنادیاتویہ کتاب امت کے حالیہ مسائل بھی پوری طرح حل کرکے سیادت زمانہ کااہل بناسکنے کی قدرت رکھتی ہے۔ اہل کفر کے غلبے کامطلب اہل ایمان کی شکست نہیں ہوتابلکہ یہ مومنین کی آزمائش ہوتی ہے۔ یہ امت آج قرآنی قیادت سے محروم ہے چنانچہ اقبال اس زبوں حالی سے نکلنے کے تین حل بتاتے ہیں،لسان القرآن سے آگاہی،قرآنی نصاب کی تدوین اور امت کے نوجوانوں کی قیادت کے لیے تیاری۔
اقبال صرف مسلمانوں کے نہیں بلکہ پوری انسانیت کے شاعر ہیں اورجب تک اردوزبان رہے گی تب تک اقبال زندہ رہے گا۔ دگرگوں حالات سے نکلنے کے لیے قرآن کادامن تھامنا ضروری ہے۔ مسلمانوں کے زوال پرخود قرآن کاتبصرہ ہے کہ تم کتاب کے ایک حصے پرایمان لاتے ہواورایک حصے کو فراموش کردیتے ہو۔ مسلمانوں کے دورعروج میں غیرمسلم اسی طرح مسلمانوں کی جامعات میں آتے تھے جس طرح آج مسلمان غیرمسلموں کے ہاں جاتے ہیں۔جب تک مسلمان قرآن وق سنت سے جڑے رہے دنیاان کے سامنے سرنگوں رہی لیکن زوال کی سب سے بڑی وجہ پیغام قرآن مجید اورپیغام سنت رسول اللہ ۖسے دوری ہے اوراس کاواحد حل بھی اپنی اصل کی طرف لوٹناہے۔
حضرت علامہ محمد اقبال کے کلام کی بنیاد قرآن و سنت کی منظوم تشریح ہے جس کے ذریعے انہوں نے خواب غفلت سے سوئی ہوئی مسلم امہ خصوصاً برصغیر کے مغرب زدہ اور خوشحال طبقہ کو جھنجوڑا۔ انہوں نے ساری زندگی بیداری و اتحاد امت کی دعوت دی اور امت مسلمہ کو غلامی سے نکلنے اور خودی اپنانے کا درس دیا۔ اْمت مسلمہ کے اس عظیم فرزند نے اپنی تصانیف میں قرآن حکیم سے استفادہ کیا ہے۔ اْس کے حوالے سے بے شمار نشانیوں کی نشاندہی کی ہے۔ عقل و تدبر رکھنے والے قرآنی آیاتِ مبارکہ کے مطابق ہمیشہ آفاقی نشانیوں کو دیکھ کر بے ساختہ پکار اْٹھتے ہیں۔” یعنی اے ہمارے رب! آپ نے یہ ساری کائنات فضول پیدا نہیں کی ہے۔ علامہ اقبال اپنی فکر کے مطابق اس آیت کی توضیح کرتے ہوئے خطبات میں بیان کرتے ہیں کہ دنیا میں وسعت اور بڑھنے کی صلاحیت موجود ہے ہم کائنات میں اہم تبدیلیاں بھی دیکھتے رہتے ہیں اور لیل و نہار کی حرکت کے ساتھ ہم زمانے کا خاموش اْتار چڑھاؤ کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں۔
اقبال نے اپنے معجزہ فکر و فن کے ذریعے زبان و ادب اور شاعری کو ایک نئی جہت اور ایسا جدید قالب عطا کیا جس کی مثال ڈھونڈنے لگیں تو شاید ہی کہیں ملے۔ویسے تو کلامِ اقبال میں علمِ بدیع اور علم ِ بیان کا تنوع پایا جاتا ہے لیکن بالخصوص قرآنی آیات، تمثیلات، تلمیحات تشبیہات و استعارات کا کثرت سے بیان نہ صرف فکرِ اقبال کے جمالیاتی پہلو اور حسنِ سخن کا عکاس ہے بلکہ ان کی قادر ْالکلامی، شاعرانہ عظمت اور قرآن مجید سے محبت کا بھی واضح ثبوت ہے۔خدا اور کائنات سے رابطے کا شعور بیدار کرنے اور تعلق باللہ و تعلق باالرّسول قائم کرنے کیلئے ہر مفسر قرآن اور قاری قرآن کو چاہئے قرآن کا مطالعہ اس انداز میں کرے جو اقبال کی منشاہے ۔ اقبال ملت اسلامیہ کے ہر فرد سے توقع رکھتا ہے کہ مسلمان قرآن کے ظاہر کے ساتھ قرآن کے باطنی اسرار و رْموز تک بھی رسائی حاصل کرے،قرآن کی ان آیات پر غور کرے جن میں دعوتِ فکر کے ساتھ بالخصوص عمل اور مشاہدہ کی تلقین فرماتے ہوئے انفس و آفاق دونوں کا مطالعہ یکساں طورپر ضروری قرار دیا گیا ہے مگر اس کیلئے ہمیں اقبال کے طرز ِ مطالعہ قرآن سے رہنمائی لینی ہوگی۔
اقبال کے نزدیک قرآن کریم کا حقیقی مقصد تو یہ ہے کہ انسان اپنے اندر ان گونا گوں روابط کا ایک اعلیٰ اور برتر شعور پیدا کرے، جو اس کے اور کائنات کے درمیان پیدا ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنے کلام اور افکار میں اسلام کے بنیادی عقائد کی نہایت ہی خوبصورت اور عالمانہ تعبیر پیش کی ہے۔ توحید اور رسالت کی اہمیت اور افادیت کا جیسا عالمانہ اظہار علامہ کے ہاں ملتا ہے اس سے قبل شاید ہی ایسا تعبیراتی اور تفسیراتی اظہار کسی شاعر کے کلام کاحصہ بن سکا ہو۔ علامہ نے فکر و فلسفہ کی بوقلمونی میں الجھنے اور کش مکش سے دو چار ہونے کے بجائے سیدھے سادے انداز میں اسلامی تصورات اور عقائد کی جامعیت کو بیان کیا ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ اقبال ایک عظیم مفکر تھے، جن کی تعلیمات نہ صرف مسلمانوں بلکہ پوری دنیا اور انسانیت کے لئے مشعل ِ راہ ہیں۔ انہوں نے اس وقت کے تمام نظریات کا احاطہ کیا اور قرآن پاک سے رہنمائی لیتے ہوئے کبھی بھی کسی نظریہ یا تہذیب کے خلاب تعصبانہ رویہ نہیں رکھا۔ مسلمانوں کو سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کرنی چاہئے، جیسا کہ قرآن کریم نے بھی کائنات کو انسان کیلئے مسخر کر دئیے جانے کا فرمایا ہے۔ اسلام زندگی کے ہر معاملے میں بات چیت اور دوسروں کی رائے کے احترام کا درس دیتا ہے۔
٭٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں