
پاک بھارت جنگ کے پوشیدہ حقائق
شیئر کریں
ر فیق پٹیل
۔۔۔۔۔۔
آج کل
معاشرے کو زوا ل سے بچانے کے لیے لازم ہے کہ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے اس کا منصفانہ تجزیہ کیا جائے۔ یہ ایک آفاقی حقیقت کہ عمومی طور پر جنگ صرف تباہی کا باعث ہوتی ہے ۔اس میں معصوم انسانی جانوں کا زیاں ہوتاہے۔ سچ کی موت ہوتی ہے اور جھوٹ پروان چڑھتا ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مئی 2025کی حا لیہ جھڑپ میں بھی دونوں جانب جانی اور مالی نقصان ہوا۔ یہ جھڑپ چونکہ فضائی جنگ تھی اس میں میزائلوں اور ڈرون یعنی بغیر پائلٹ والے ریموٹ کنٹرول کھلونا نما چھوٹے بڑے جہازوں کا استعمال ہوا اور دونوں نے اعلانیہ ایک دوسرے پر حملہ کیے اس لیے دنیا بھر کے میڈیا اور حکومتوں نے اس کا بھر پور نوٹس لیا اور ہر نشریاتی ادارے نے اپنی خبروں اور تبصروں میں اس کا بھرپور احاطہ کیا۔ بھارت کے میڈیا میں اس قدر جنونی اور ہیجانی کیفیت تھی کہ جیسے میڈیا کے نمائندے خود جنگ کو کنٹرول کرہے ہوں۔پاکستان میں بھی انتہائی محدود پیمانے پر یہ کیفیت تھی۔ بھارتی میڈیا کے پاکستان فتح کرنے دعوے اور جعل سازی سے تیار کیے گئے تباہی کے مناظر دکھانے کے مسلسل جھوٹ کو احمقانہ طرزعمل ہی تصور کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح پاکستانی میڈیا کے بھارتی تباہی کے بعض دعوے بھی عالمی میڈیا کے مطابق حقائق کے خلاف ہیں۔اس لڑائی کی بنیادی وجہ بھارتی زیرانتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں 22 اپریل 2025کادہشتگردی کا وہ واقعہ تھا جس میں26لوگوں کو گولیاں مار کر ہلاک کیا گیاتھا ۔بھارت نے اس کا لزام پاکستان پر لگایا اور اعلان کردیا کہ وہ پاکستان کے خلاف کارروائی کرے گا۔ پاکستان نے اس واقعے کی مذمت کی تھی اور عالمی سطح کی غیر جابدارانہ تحقیقات کے لیے کہا تھا لیکن بھارتی وزیراعظم مودی ،بی جے پی اور بھارتی میڈیا نے مل کر پاکستان کے خلاف نفرت کی ایسی آگ بھرکائی کہ ہر طرف جنگی جنون کی ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ بعض مبصّرین کا کہنا تھا کہ یہ کیفیت بھارت کی اندرونی سیاست کے لیے پیداکی گئی تھی تاکہ پاکستان پر حملہ کرکے بی جے پی اور مودی کی طاقت میں اضافہ کیا جائے۔ حملہ پاکستان کو اطلاع دے کر کسی سمجھوتے کے ساتھ کیا جائے ۔اس سلسلے میں دو بیانات کو اہمیت دی جاتی ہے جس میں بھارتی وزیر خارجہ کا یہ بیا ن کہ” پاکستان پر حملے سے قبل پاکستان کو اطلاع دی گئی تھی کہ ہم دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملہ کریں گے فوجی ٹھکانوں پر نہیں کریں گے”۔دوسرا بھارتی وزیراعظم مودی نے بھارتی عوام سے اپنے ٹی وی کے خطاب میں کہا تھا کہ” ہم نے تو دہشت گردو ں کے ٹھکانوں پر حملہ کیا تھا پاکستان نے ہم پر ہی حملہ کردیا ”۔
بعض مبصّرین کے مطابق یہ فکسڈمیچ اس لیے خراب ہوگیاکہ بھارتی رافیل طیارے پاکستان کی فضائیہ نے مار گرائے جس سے بین الاقومی سطح پر بھارت کی فضائیہ پر سوالات کھڑے کردیے گئے۔ بھارت کے اندر مزید دبائو پیدا ہواجس کی وجہ سے بھارت نے پاکستان کے بعض فوجی ٹھکانوں کو میزائل سے نشانہ بنایا ،جواب میں پاکستاں نے بھی ڈرون اور میزائل کے ذریعے جوابی کارروائی کی جس کے بعد جنگ کا دائرہ پھیل رہا تھاکہ اچانک امریکی مداخلت کے بعد جنگ روک دی گئی ۔ فی الحال پاکستان نے اپنے جنگی آپریشن بنیان المرصوص کے خاتمے کا اعلان کردیا ہے جبکہ بھارت نے اپنے جنگی آپریشن سیندور کو جاری رکھنے کا اعلان کر رکھاہے ۔دونوں ملک اس جنگ میں اپنی اپنی کامیابی کا دعویٰ کررہے ہیں۔
اسی طرح کاایک واقعہ 2019 میں بھی پیش آیا تھا۔جنوری2019 میں بی جے پی کو خطرہ محسوس ہورہاتھا کہ آنے والے انتخابات میں انہیں شکست ہو سکتی ہے۔ اچانک 14 فروری کو کشمیر کے علاقے پلواما میںبھارتی ریزرو پولیس کے قافلے پر دھماکہ خیز مواد کا حملہ ہوا اور چالیس اہلکاروںکی ہلاکت ہوئی۔ اس وقت بھی اسی طرح کی ہیجانی کیفیت پیدا کی گئی پاکستان کے علاقے بالاکوٹ پر حملہ ہوا جس میں جانی نقصان نہیں ہوا لیکن بی جے پی ،مودی اور بھارتی میڈیا نے بھارتی عوام کو یقین دلایا کہ مودی کی قیادت کی وجہ سے تین سو دہشت گرد مارے گئے جس کی وجہ سے مودی کو ہیرو بناکر بی جے پی نے مئی 2019کے انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی تھی ۔ پاکستان اور بھارت میں کشیدگی اور جنگی کیفیت کی صورتحال قیام پاکستان سے اب تک جاری ہے کشمیرکا تنازع اس کی بنیادی وجہ ہے۔ پہلی جنگ قیام پاکستان کے فوراً بعد 22 اکتوبر 1947 میں شروع ہوکر یکم جنوری 1949تک جاری رہی۔ دوسری 1965 میں17 روز جاری رہی ۔ تیسری 1971 کی جنگ 13 روزہ جنگ تھی جس میں مشرقی پاکستان پاکستان سے علیحدہ ہوکر بنگلہ دیش بن گیا۔ بنگلہ دیش نے امن کی راہ اختیار کرتے ہوئے صنعت زراعت اور تجارت پر توجہ دے کر ملکی معیشت کو فروغ دیا۔پاکستان اور بھارت کی چوتھی جنگ 1999 کی کارگل جنگ تھی جس میں پاکستان نے سیاچن کے علاقے پر قبضہ کرلیا تھا۔ امریکی مداخلت سے پاکستان کو علاقہ خالی کرنا پڑا،اور اس جنگ میں بھی دونوں جانب ایک ہزار جانوں کا نقصان ہوا ۔ افسوس بھارت اور پاکستان میں کشیدگی کی موجودہ کیفیت انتہائی احمقانہ اور دوطرفہ تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ عقل ودانش کی آواز دبا دی گئی ہے۔ سچ کا قتل ہورہا ہے ۔پاکستان اور بھارت کے درمیان میڈیا پر جنگ کا ڈرامائی ماحول تیار کرنا اور اس جنونیت کی آگ کو بھڑکانا گندی سیاست اور نفرت کی تجارت ہے۔ ایک ممتاز صحافی کے مطابق دونوں ملکوں کی اشرافیہ کشیدگی کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنے سیاسی اور دیگر مفادات حاصل کرتے ہیں۔ اس مرتبہ بی جے پی کو خاطر خواہ کامیابی نہیں ہوئی ۔اس کی بڑی وجہ عالمی سطح پر بھارت کے موقف کی ناکامی ہے پاکستان اور بھارت مسلسل جنگ کی کیفیت میں رہتے ہیں یہ جنگ کبھی اعلانیہ اور کبھی خفیہ ہوتی ہے ۔
دنیا کے بڑے بڑے اداروں نے جس میں اقوام متحدہ بھی شامل ہے اپنی تحقیق میں بتا چکے ہیںکہ ترقی اور خوشحالی کے لئے جن بنیادی ضروریات اور اقدامات پر عمل کرنا لازمی ہے، اس میں پہلا قدم امن ہے۔ معاشرے میں نفرت اور تقسیم کا خاتمہ ہے معاشرے کے تمام طبقات کی اقتدار میں شمولیت ہے۔ عوام کی حالت بہتر بنانے اور ترقی اور خوشحالی کے لیے سب سے پہلے بھارت اور پاکستان کو اپنے اپنے ملک میں غربت کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کی ضرورت ہے ۔جیت ہار کی سیاست کے بجائے عقل ودانش کے ذریعے جیت جیت کی حکمت عملی تیار کرنی ہوگی ۔یہی واحد طریقہ ہے جس سے دو نوں ترقی کرسکتے ہیں ۔خوشحال ہوسکتے ہیں۔ ایک دوسرے کے بے گناہوں کو مارنے کے بجا ئے ایک دوسرے کے عوام تحفظ فراہم کرنے اور انہیں ہر تکلیف اور پریشانی سے نجات دلانے کی ضرورت ہے بھارت نے مذہبی منافرت سے اپنے معاشرے میں تقسیم پیدا کرکے تباہی کاراستہ اختیار کیا ہے ۔یہ ایک ایسا کینسر ہے جو بھارتی معاشرے کو پستی میں دھکیل رہا ہے ۔جمہوریت کمزور ہورہی ہے دوسری طرف پا کستان نے بھی اپنے ہی آئین کی بنیادی روح کو ختم کردیا ہے۔ انصاف کے ادارے انتظامیہ کے زیر اثر ہیں۔انتخابات کا عمل بے معنی ہوچکا ہے ۔پارلیمنٹ عوام کی نمائند گی نہیں کرتی ۔پیکا قانون نے اظہار رائے اور میڈیا کی آزادی ختم کردی ہے۔ معاشرہ اخلاقی زوال کا شکار ہے۔ اس طرح معاشی و سماجی ترقی نہیں ہوسکتی ہے ۔اگر کچھ ترقی ہوگی تو وہ وقتی ہوگی، مصنوعی ہوگی۔ پاکستان اور بھارت کی سیاسی جماعتیں اورمقتدر قوتّیں بشمول انتظامیہ کے اعلیٰ افسران امن اور مفاہمت کا راستہ تلاش کریں تو دونوں ملک تباہی سے بچ سکتے ہیں۔