
بھارت میں سرمایہ کاری زوال پذیر
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
بھارت میں رواں مالی سال کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 96 اعشاریہ 5 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے دوران براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں 96 اعشاریہ 5 فیصد کی زبردست کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ مالی سال کے دوران بھارت میں براہِ راست غیر ملکی سرمایہ کاری 10 ارب ڈالر رہی تھی جو اب کم ہو کر صرف 35 کروڑ ڈالر رہ گئی ہے، یہ ریکارڈ کم ترین سطح بتائی گئی ہے۔ٹائمز آف انڈیا کے مطابق اس شدیدگراوٹ کی بنیادی وجہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی جانب سے ہائی پروفائل ابتدائی عوامی پیشکشوں (IPOs) سے سرمایہ نکالنا اور بھارتی کمپنیوں کی طرف سے بیرون ملک سرمایہ کاری میں اضافہ ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاروں نے رواں مالی سال کے دوران بھارت سے 49 ارب ڈالر کی رقم نکال لی۔ جب کہ پچھلے مالی سال کے دوران بھی وہ 41 ارب ڈالر کی رقم بھارت سے نکال کر لے گئے تھے۔دوسری جانب امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آئی فون پر نیا ٹیکس عائد کرکے بھارت کو ایک اور بڑے صدمے سے دوچار کر دیا ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں بننے والے ایپل آئی فون کی حوصلہ شکنی کے لیے ایک اور بیان دیتے ہوئے کہا کہ امریکا میں صرف وہی آئی فون فروخت ہوں گے جو امریکا میں ہی بنے اور تیارکیے گئے ہوں ناکہ بھارت یا کسی اور جگہ سے درآمدکیے گئے ہوں۔ ایسے آئی فون کی امریکا میں فروخت پر ایپل کمپنی کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا، اپیل کے مالک ٹم کک کو اس حوالے سے پہلے ہی آگاہ کر چکا ہوں۔
مالی سال 2025 میں بھارت کی نیٹ غیر ملکی براہ راست سرمایہ کاری (ایف ڈی آئی) 96.5 فیصد کی شدید کمی کے بعد صرف 35 کروڑ 30 لاکھ ڈالر رہ گئی، جو گزشتہ سال کے 10 ارب ڈالر کے مقابلے میں ایک ریکارڈ کمی ہے۔ ریزرو بینک آف انڈیا (آر بی آئی) کی جانب سے جاری کردہ ماہانہ بلیٹن میں اس کمی کی وجہ بڑی سطح پر سرمایہ واپس لے جانے، منافع بخش ابتدائی عوامی پیشکشوں ( آئی پی اوز) سے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اخراج، اور بھارتی کمپنیوں کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری میں اضافے کو قرار دیا گیا۔آئی پی او مارکیٹ میں ہنڈائی موٹر اور سوِگی جیسے اداروں کی فہرست میں آنے سے طویل مدتی سرمایہ کاروں نے بھاری منافع حاصل کر کے مارکیٹ سے سرمایہ نکالا۔ دوسری طرف بھارتی کمپنیوں نے بھی عالمی سپلائی چین میں تبدیلیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے بیرون ملک سرمایہ کاری میں اضافہ کیا۔یہ سب اس وقت ہوا جب مجموعی ایف ڈی آئی میں مضبوط اضافہ دیکھا گیا، مگر غیر ملکی اداروں کی جانب سے سرمایہ نکالنے اور بھارتی کمپنیوں کی بیرونِ ملک سرمایہ کاری کے باعث نیٹ ایف ڈی آئی میں کمی واقع ہوئی۔ مالی سال 2025 میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے بھارت سے 49 ارب ڈالر کا سرمایہ نکالا جو گزشتہ سال کے 41 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔
بھارت کی جارحانہ سفارتی اور عسکری پالیسیوں کے مہنگے اثرات اب معیشت پر نمایاں ہونے لگے ۔مالی سال 2024ـ25 کے ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق بھارت میں غیر ملکی سرمایہ کاری تقریبا 96.5 فیصد تک کم ہوگئی ہے، جو عالمی سرمایہ کاروں کے گرتے ہوئے اعتماد کا واضح ثبوت ہے۔ گزشتہ برس بھارت کو 10 بلین ڈالرز تک کی غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل ہوئی تھی، جب کہ رواں مالی سال کے دوران یہ رقم محض 353 ملین ڈالرز تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ کمی صرف ایک عددی گراوٹ نہیں، بلکہ بھارت کی عالمی پالیسیوں پر عدم اعتماد کی عکاسی بھی کرتی ہے۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت کی عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی جارحیت، ہمسایہ ممالک کے ساتھ بڑھتی کشیدگی، اور سفارتی تنازعات نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو سخت تحفظات میں مبتلا کر دیا ہے۔ نتیجتاً، وہ بھارت میں سرمایہ لگانے کے بجائے دیگر نسبتا مستحکم اور پرامن مارکیٹس کی جانب منتقل ہو رہے ہیں۔اس سرمایہ کاری کے بحران کے براہ راست اثرات بھارتی معیشت پر بھی پڑنا شروع ہوچکے ہیں۔ بھارتی روپیہ دبا کا شکار ہے، جب کہ زرمبادلہ کے ذخائر میں بھی بتدریج کمی دیکھی جا رہی ہے۔ معاشی ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اگر یہی صورتحال جاری رہی تو بھارت کو جلد ہی سنگین مالی بحران کا سامنا ہو سکتا ہے۔دوسری جانب، مودی سرکار کی پالیسیوں کو اپوزیشن اور معاشی تجزیہ کار شدید تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
حقیقت ہے کہ بھارت میں جاری سیاسی کشیدگی اور خطے میں بڑھتی ہوئی سفارتی تناؤ نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو شدید متاثر کیا ہے، جس کے نتیجے میں مالی سال 2024ـ25 کے دوران غیر ملکی سرمایہ کاری میں تاریخی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔معاشی ماہرین کے مطابق یہ کمی محض ایک وقتی رجحان نہیں بلکہ بھارت کی جارحانہ خارجہ پالیسی، خطے میں کشیدگی اور غیر یقینی سیاسی ماحول کا نتیجہ ہے۔سرمایہ کار عمومی طور پر استحکام، شفاف قوانین، اور پْرامن سفارتی رویے کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ بھارت کی حالیہ پالیسیاں ان تمام اصولوں کے برخلاف سمجھی جا رہی ہیں۔مودی حکومت کی پالیسیوں پر اپوزیشن کی جانب سے سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ "ملک کو عسکری بیانیے کے بجائے اقتصادی استحکام کی ضرورت ہے، جبکہ موجودہ حکومت نے سفارتی محاذ پر غیرضروری محاذ آرائی کو ترجیح دی ہے۔غیر ملکی سرمایہ کاروں کا بھارت سے پیچھے ہٹنا نہ صرف داخلی معاشی دباؤ کی علامت ہے، بلکہ عالمی برادری کے لیے ایک اشارہ بھی ہے کہ خطے میں سیاسی اور دفاعی توازن برقرار رکھنا کتنا اہم ہے۔