ہیومن رائٹس کمیشن اور مقبوضہ کشمیر
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
ہیومن رائٹس واچ نے کہا ہے کہ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بھارتی حکام نے گزشتہ برس بھی آزادی اظہار، پرامن اجتماع اور دیگر بنیادی حقوق پر پابندیاں مسلسل عائد کر رکھی ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے اپنی عالمی رپورٹ میں کہا کہ بھارتی فورسز کے اہلکاروں کی طرف سے ماورائے عدالت قتل کے واقعات 2023 میں پورے سال جاری رہے۔ناقدین اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات کی بنیاد پر گرفتاریوں اور چھاپوں کا سامنا کرنا پڑا۔ انسانی حقوق کے ممتاز کشمیری کارکن خرم پرویز پر کالے قانون کے تحت فرد جرم عائد کی گئی۔ گزشتہ سال اپریل میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے 6 ماہرین نے انسانی حقوق کے علمبردار محمد احسن اونتو کی مبینہ جبری گرفتاری اور ان کے ساتھ ناروا سلوک پر بھارتی حکومت کو خط لکھا تھا۔اس خط میں کہا گیا تھا کہ ان کی نظربندی کا مقصد صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خوف زدہ کرنا اور حراست میں لیکر سزا دینا ہے۔
آزادی کشمیرکی تحریک کوئی معمولی تحریک نہیں، یہ 90 لاکھ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی ہے اور یہ استقامت اور حوصلے کی ایک عظیم مثال ہے۔ برہان وانی کے ظہور اور شہادت نے کشمیریوں کی جدوجہد کی ساری حرکیات بدل کر رکھ دی تھیں۔ حکومتی اعداد و شمار کے مطابق 1000 سے زائد نوجوان کشمیری مسلمان جدوجہد آزادی میں شامل ہو چکے ہیں۔ یہ نوجوان کشمیری اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں نہ کہ بنیادی۔ آرٹیکل 370 کو منسوخ کرنے کا بھارت کا غیر جمہوری اور غیر قانونی اقدام کشمیر پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں یعنی یو این ایس سی آر 38، 47، 51، 91 اور 122 کی واضح خلاف ورزی ہے۔
کشمیر کی آزادی کی جدوجہد بہادری، استعمار مخالف ذہنیت اور آزاد اور غیر محدود طرز زندگی سے محبت کی کہانی بیان کرتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آزادی کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ استعمار اور غلامی کا دور ختم ہو چکا ہے۔ یہ 21 ویں صدی ہے جہاں ہر فرد کو کسی قابض طاقت کی نگرانی میں آزادی سے زندگی گزارنے کا حق حاصل ہے، 90 لاکھ کشمیری مسلمانوں کو بھارتی تسلط سے ہٹ کر آزادانہ زندگی گزارنے کے عزم کے ساتھ رہنے دیں۔ کشمیر فلسطین کی طرح غیر ملکی قبضے کی دیرپا ترین صورتحال میں سے ایک ہے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر سب سے طویل حل طلب مسئلہ ہے۔ یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ایٹمی فلیش پوائنٹ بھی ہے۔آج اتنی بڑی مقدار میں بھارتی افواج کی غیر قانونی موجودگی کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ عسکری علاقہ بن چکا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے عنوان سے، 2022 میں شائع ہونے والی ‘ہندوستان میں انسانی حقوق کی تشویش کا خلاصہ’ ، ”سیکیورٹی فورسز کی طرف سے تشدد روز مرہ کا معمول ہے اور اس قدر وحشیانہ ہے کہ سینکڑوں بے گناہ کشمیریوں کو حراست میں قتل کیا جا چکا ہے۔ ایسی مصدقہ رپورٹس بھی ہیں جو عصمت دری کو کشمیری خواتین کے خلاف بھارتی فورسز کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی نشاندہی کرتی ہیں۔بھارتی فورسز کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل میں بھی ملوث ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہندوستانی قابض افواج پبلک سیفٹی ایکٹ (PSA) ، آرمڈ فورسز اسپیشل پاورز ایکٹ (AFSPA) ، اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام کے قانون (UAPA) جیسے سخت قوانین کے تحت مکمل استثنا کے ساتھ کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ سیاست دانوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے کارکنوں کے خلاف مسلسل کریک ڈاؤن اور یہاں تک کہ ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی بندش نے آزاد آوازوں کو مزید دبا دیا ہے اور کشمیر کے لوگوں کو مناسب علاج کے بغیر چھوڑ دیا ہے۔ جموں کشمیر کے ہیومن رائٹس کمیشن کی بندش کو پانچ سال مکمل، جموں کشمیر کی تاریخ بھارتی مظالم سے بھری پڑی ہے جبکہ مودی کی اقتدار پر قابض ہونے کے بعد بھارتی مظالم سنگین شکل اختیار کر چکے ہیں۔
اگست 2019 میں مودی سرکار نے کشمیریوں کی زندگی اجیرن کرتے ہوئے آرٹیکل 370 کی تنسیخ کر دی،کشمیری عوام کے لیے جموں کشمیر کا ہیومن رائٹس کمیشن ایک امید کی حیثیت رکھتا تھا جہاں مظلوم کشمیروں کی سنوائی ہوتی تھی۔مودی کے جابرانہ اقدامات اور آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد بھارتی حکومت کی جانب سے جموں کشمیر کے ہیومن رائٹس کمیشن کو بند کر دیا گیا تھا،مقبوضہ وادی میں ہیومن رائٹس کمیشن نہایت اہمیت کا حامل ہے جو ہمیشہ سے بھارتی حکومت کو کھٹکتا رہا۔بھارتی فورسز کے ہاتھوں قتل ہونے والے کشمیری باپ کی بیٹی پچھلے 30 سالوں سے انصاف کی منتظر ہے، اس کا کہنا ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن کے بند ہونے کے بعد وہ انصاف کی امید چھوڑ چکی ہیں،کئی سالوں سے بھارتی مظالم کے شکار مظلوم کشمیری عوام کے لواحقین تا حال انصاف کے منتظر ہیں۔2019 سے قبل جموں کشمیر میں ہیومن رائٹس کمیشن نے 22 سال تک کام کیا جبکہ اب اس کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کے لیے قائم کردہ دیگر کمیشنز بھی سیل کر دیے گئے ہیں جن میں انفارمیشن کمیشن اور خواتین کمیشن سر فہرست ہیں، جموں کشمیر میں ہیومن رائٹس کمیشن کی بندش کے وقت 3 ہزار سے زائد کیسز سے التواء تھے جن میں سے کئی اختتامی مراحل پر پہنچ چکے تھے۔متاثرہ کشمیری جوانوں کے لواحقین ہیومن رائٹس کمیشن کے بند ہونے پر شدید مایوسی کا شکار اور دل برداشتہ ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔