چیٹ جی پی ٹی
شیئر کریں
علی عمران جونیئر
دوستو،آرٹی فیشل انٹیلی جنس (اے آئی) ٹیکنالوجی پر مبنی چیٹ بوٹ چیٹ جی پی ٹی نے دنیا بھر میں مقبولیت کے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور حیران کن طور پر یہ نئی انٹرنیٹ سروس پاکستان میں انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور ٹوئٹر جیسے مقبول سوشل میڈیا نیٹ ورکس سے زیادہ استعمال کی جا رہی ہے۔رپورٹس کے مطابق یہ وہ سنگ میل ہے جو انسٹاگرام، ٹک ٹاک، واٹس ایپ اور فیس بک سمیت کوئی بھی مقبول ایپ اتنے کم وقت میں حاصل نہیں کر سکی تھی،اس کے بعد اب تک کوئی اعداد و شمار تو سامنے نہیں آئے مگر صارفین کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہی ہوا ہوگا۔انٹرنیٹ سروسز اور ویب سائٹس کی رینکنگ کرنے والی سروس similarweb کی فہرست میں پاکستان میں مقبول ترین سائٹس کی درجہ بندی کی گئی ہے۔اس فہرست کے مطابق پاکستانی انٹرنیٹ صارفین کے لیے مقبول ترین ویب سائٹس میں اوپن اے آئی (چیٹ جی پی ٹی تیار کرنے والی کمپنی) کی ویب سائٹ 7 ویں نمبر پر ہے،اس کے مقابلے میں انسٹاگرام 8 ویں، ٹوئٹر 9 ویں جبکہ ٹک ٹاک 10 ویں نمبر پر ہے۔عالمی سطح پر اوپن اے آئی کی ویب سائٹ 17 ویں نمبر پر ہے جس پر مئی کے مہینے میں ایک ارب 90 کروڑ وزٹ کیے گئے،اس ویب سائٹ کا وزٹ کرنے والے 81 فیصد سے زیادہ افراد کی عمریں 18 سے 44 سال کے درمیان ہیں۔
واضح رہے کہ چیٹ جی پی ٹی کو استعمال کرنے والے افراد آسانی سے مطلوبہ تفصیلات حاصل کرسکتے ہیں، مضامین لکھوا سکتے ہیں اور بھی بہت کچھ کرسکتے ہیں۔چیٹ جی ٹی پی کے آنے کے بعد سے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی بڑی تعداد میں لوگوں کی نوکریاں ختم کرسکتی ہے۔ لیکن ایک شعبہ ایسا ہے جس کو اس سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے اور وہ ہے ‘کامیڈی’۔ یعنی چیٹ جی پی ٹی مزاحیہ مواد اور معلومات بنانے کا کوئی خاص تجربہ نہیں رکھتی۔ دو جرمن محققین سوفی جینٹش اور کرسٹین کرسٹنگ نے ایک تحقیق میں چیٹ جی ٹی پی کے متعلق یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا اس میں مزاح کرنے اور موقع کی مناسبت سے لطائف پیش کرنے کی صلاحیت ہے یا یہ آن لائن لطائف کو ڈھونڈ کر سمجھے بغیر نقل کردیتا ہے۔کورنیل یونیورسٹی کے تحت چلنے والی ویب سائٹ arXiv پر شائع ہونے والے ایک مقالے میں پیچیدہ نتیجہ پیش کیا گیا۔مطالعے میں محققین نے چیٹ بوٹ سے کوئی اچھا لطیفہ سنانے کا کہا، جس کے جواب میں چیٹ بوٹ نے 1008 لطائف پیش کیے۔ تاہم، 90 فی صد لطیفے 25 لطیفوں کی تکرار تھے جبکہ باقی کچھ مختلف تھے۔تحقیق کے مطابق چیٹ بوٹ مزاح کو بیان تو کر سکتا ہے لیکن یہ دانستہ طور پر مزاحیہ مواد تخلیق نہیں کر سکتا۔ اس کے لطیفوں کو شکل دینے کی صلاحیت میں مزید بہتری کی گنجائش ہے۔ دوسری اہم وجہ یہ ہے کہ ہر ملک کا حسِ مزاح اپنے ماحول، معاشرتی اقدار اور تہذیب سے تشکیل پاتا ہے۔
چیٹ جی پی ٹی کو ہم بھی کبھی کبھار استعمال کرتے ہیں،لیکن یہ ہمیں بالکل بھی پسند نہیں آئی، چیٹ جی پی ٹی کا حال کچھ اس طرح سے پایا۔۔۔ایک عورت سڑک پر ایک آدمی کے پاس آتی ہے اور کہتی ہے۔۔ معاف کیجئے جناب، میں ایک چھوٹا سا سروے کر رہی ہوں، کیا میں آپ سے کچھ سوال کر سکتی ہوں؟۔۔اس آدمی نے اجازت دے دی۔ عورت بولی،فرض کریں کہ آپ بس میں بیٹھے ہیں اور ایک خاتون بس میں سوار ہوئی اور اس کے پاس سیٹ دستیاب نہیں ہے، کیا آپ اس کے لیے اپنی سیٹ چھوڑ دیں گے؟ اس آدمی نے جواب دیا، بالکل نہیں۔۔عورت نے اپنے پاس موجود پیپر پر نظر دوڑاتے ہوئے مذکورہ شخص کے لئے ”بے ادب” کے خانہ پر ٹک کرتے ہوئے دوسرا سوال کیا۔۔اگر بس میں سوار خاتون حاملہ ہو تو کیا آپ اپنی سیٹ چھوڑ دیتے؟۔۔وہ آدمی بولا۔۔ نہیں۔۔ اب کی بار عورت نے ”خودغرض” پر ٹک کرتے ہوئے اگلا سوال کیا۔۔اور اگر وہ خاتون جو بس میں سوار ہوئی وہ ایک بزرگ خاتون ہوں تو کیا آپ اسے اپنی سیٹ دیں گے؟۔وہ آدمی بولا۔۔نہیں۔۔عورت غصے سے دھاڑی اور بولی۔۔تم ایک نہایت خود غرض اور بے حس آدمی ہو جس کو خواتین کا، بڑے اور ضعیف افراد کے آداب نہیں سکھائے گئے۔۔یہ کہتے ہوئے عورت آگے چلی گئی۔ پاس کھڑا دوسرا آدمی جو یہ بات چیت سن رہا تھا، اس بندے سے پوچھتا ہے کہ اس عورت نے تمہیں اتنی باتیں سنائیں تم نے کوئی جواب کیوں نہیں دیا؟تو اس آدمی نے جواب دیا۔۔یہ عورت اپنی چھوٹی سوچ اور آدھی معلومات کی بنا پر سروے کر کے لوگوں کا کردار طے کرتی پھر رہی ہے، اگر یہ مجھ سے سیٹ نا چھوڑنے کی وجہ پوچھتی تو میں اسے بتاتا کہ میں ایک ”بس ڈرائیور” ہوں۔۔!!ھمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہی ہے کہ ہم ادھوری معلومات سے ہی دوسروں کو جانچنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔ اور چیٹ جی پی ٹی بھی ایسی ہی ادھوری معلومات آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہے۔
اور اب چلتے چلتے آخری بات۔۔ انتہائی افسوس سے اطلاع دی جاتی ہے کہ ”خلوص” گم ہوگیا ہے، اس کی عمر کئی سو سال ہے، بڑھاپے کی وجہ سے کافی کمزور ہو گیا ہے۔”خودغرضی” کے ساتھ ان بن ہو جانے پر ناراض ہو کر کہیں چلا گیا ہے۔ اُس کے بارے میں گمان ہے کہ انسانوں کے جنگل نے اسے نگل لیا ہے۔ اس کا چھوٹا لاڈلا بھائی ”اخوت” اور بہن ”حب الوطنی” سخت پریشان ہیں۔اس کے دوست ”محبت” اور ”مہربانی” بھی اس کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔اس کی عدم موجودگی میں اس کے دشمن ”شرپسند” نے ”تعصب” اور ”ہوس” کے ساتھ مل کر تباہی مچا رکھی ہے۔ اس کی جڑواں بہن ”شرافت” کا اس کے فراق کی وجہ سے انتقال ہو چکا ہے۔ ”شرافت” کے غم میں ”حیا” بھی چل بسی ہے۔اس کا بڑا بھائی ”انصاف” اس کی جدائی میں رو رو کر اندھا ہو چکا ہے۔ اس کے والد محترم ”معاشرہ” کو سخت فکر لاحق ہے۔اس کی والدہ ”انسانیت” شدید بیمار ہے۔ آخری بار اپنے جگرگوشہ ”خلوص” کو دیکھنا چاہتی ہے۔جس کوملے وہ اسے ”انسانوں” کے پاس پہنچا دے ورنہ ”انسانیت” دم توڑ دے گی۔خوش رہیں اور خوشیاں بانٹیں۔
٭٭٭