میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن کادو مرتبہ واک آئوٹ

سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن کادو مرتبہ واک آئوٹ

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۴ جون ۲۰۱۹

شیئر کریں

سینیٹ میں متحدہ اپوزیشن نے سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اور سابق صدرپیپلز پارٹی پارلیمینٹرینزکے چیئرمین آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری نہ ہونے کے معاملہ پر احتجاجاً یکے بعد دیگرے دو مرتبہ واک آئوٹ کیا۔ایوان بالامیں وفاقی بجٹ.2010 2019 پربحث شروع ہوگئی ہے ۔ایوان بالا میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی وطن واپس لانے کا مطالبہ کردیا گیا ہے ۔آصف زرادری کے پروڈکشن آرڈر کے معاملے پر پی پی پی کی رہنماسینیٹر شیری رحمان نے نکتہ ء اعتراض پر کہا کہ آصف علی زرداری کو گھر سے اچانک نیب نے گرفتار کیا ہے ۔ سنا ہے کہ ان کی بہن کے بھی وارنٹ جاری ہو چکے ہیں اور ان کی گرفتاری کے لئے بھی ناکے لگ چکے ہیں۔ اپوزیشن کو ہراساں کیا جا رہا ہے ، آصف علی زرداری عدالتوں میں پیش ہو رہے تھے ۔ وہ بیرون ملک بھی نہیں جا رہے تھے پھر کیوں ان کی گرفتاری کی ضرورت پیش آئی۔ انہوں نے کہا کہ 4 ارکان قومی اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر ابھی تک جاری نہیں ہوئے ۔ اس پر چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ یہ دوسرے ایوان کا معاملہ ہے ، ہم اس میں کچھ نہیں کر سکتے ۔ اس پر متحدہ اپوزیشن نے ایوان بالا سے آصف علی زرداری کی گرفتاری پر واک آئوٹ کیا۔ سینیٹ میںبا قاعد ایوان سینیٹر شبلی فراز نے کہا کہ ایوان کی کارروائی ایجنڈے کے تحت چلائی جائے ، اس ایوان کو یرغمال نہ بنایا جائے ۔ یہ گرفتاری نیب نے کی ہے ، اس سے حکومت کا کوئی تعلق نہیں ہے ۔ یہ گیلری سے کھیل رہے ہیں۔ سینیٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ قاضی فائز عیسیٰ کے حوالے سے منظور ہونے والی قرارداد پر عمل درآمد کیا جائے ، حکومت کو اس کا احترام کرنا چاہئے تھا، ہم اس حوالے سے ایوان سے واک آئوٹ کریں گے ، اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ایوان سے واک آئوٹ کرگئی۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور سینیٹر اعظم سواتی نے کہا کہ اپوزیشن کو احتساب کے حوالے سے حکومت کا ساتھ دینا چاہئے تھا ہم اخلاقی اقدار کی بات کرتے ہیں۔ میں نے خود استعفیٰ دیا تھا اور احتجاج نہیں کیا تھا۔ ہمیں اداروں کا کھلواڑ نہیں بنانا چاہئے ، نیب سے کہتا ہوں کہ بلاامتیاز احتساب کرے ۔ اگر جمہوریت کی اساس کو بچانا ہے تو ہمیں نیب اور دیگر اداروں پر انگلی نہیں اٹھانی چاہئے ، قانون کی حکمرانی سے حقیقی جمہوریت آئے گی۔ سینیٹر نعمان وزیر نے کہا کہ قانون حرکت میں آیا ہے تو اپوزیشن کو اس پر اعتراض ہے ۔ اگر کوئی بھی کرپشن میں ملوث ہے تو اس کو مثالی سزا دینی چاہئے ، ہمارا بھی احتساب ہونا چاہئے ، ذرا سی بات ہوتی ہے تو یہ واک آئوٹ کر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر شہزاد وسیم نے کہا کہ یہ ایوان وفاق کا نمائندہ ہے ۔ میرا تعلق پنجاب سے ہے ۔ پنجاب سے ایک رکن صوبائی اسمبلی نے حلف نہیں اٹھایا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کو بھی وطن واپس لایا جائے ۔بعدازاں ایوان بالا میں مختلف سیاسی جماعتوں کے ارکان نے بجٹ پر بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کے قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا، حکومت نے بجٹ سے قبل ہی بہت سے اہم اقدامات کر لئے تھے ، مہنگائی میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے ، موجودہ بجٹ پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا خسارے والا بجٹ ہے ۔ حکومت تحقیقاتی کمیشن ضرور بنائے تاکہ حقائق قوم کے سامنے آئیں۔ سوشل سیکٹر میں موجودہ حکومت نے سب سے بڑا پروگرام متعارف کرایا ہے ، فیصلہ کرنا ہوگا کہ ٹیکسوں کے ذریعے پیسہ جمع کر کے ملک چلانا ہے یا قرضہ لے کر۔ جمعہ کو ایوان بالا میں آئندہ مالی سال کے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے سینیٹر جنرل (ر) عبدالقیوم نے کہا کہ بجٹ سے تعلیم و صحت سمیت مختلف شعبوں کے حوالے سے یہ بجٹ حوصلہ افزاء نہیں ہے ، دفاع کے شعبے میں اندرونی و بیرونی خطرات درپیش ہیں، ہمیں ان کو پیش نظر رکھنا ہوگا۔ معیشت کے حجم اور فی کس آمدن میں کمی آئی ہے ۔ قرضوں میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے ، ہمارے دور میں جو قرضے لئے گئے ان سے ملک میں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبے شروع کئے گئے ۔ ہم نے سابق حکومت کے دور میں لئے گئے قرضے بھی ادا کئے ، موجودہ حکومت نے جو اقتصادی ٹیم بنائی اس نے کارکردگی نہیں دکھائی، فیصلے نہیں کر سکے اس لئے اسے ہٹانا پڑا، دنیا کے بڑے بڑے ادارے ہمارے دور میں ملک کی معیشت کو تیزی سے ترقی کرتا قرار دے رہے تھے ۔ بین الاقوامی سطح پر ہماری کارکردگی کو سراہا جا رہا تھا، محض کرنسی کی قدر میں کمی سے برآمدات نہیں بڑھیں۔ ہمیں اپنی صنعتوں کی حوصلہ افزائی کرنا ہوگی۔ تعلیم و صحت پر مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ، ہم حکومت سے قومی سلامتی، ترقی و خوشحالی کے منصوبوں میں تعاون کے لئے تیار ہیں، وزیراعظم کی گزشتہ رات کی تقریر سے دکھ ہوا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں