جیل کے تالے ٹوٹ گئے ، کیجریوال چھوٹ گئے!
شیئر کریں
ڈاکٹر سلیم خان
یہ حسن ِ اتفاق ہے کہ جس دن اروند کیجریوال کو عبوری ضمانت ملی اسی دن دہلی کے راؤس اوینیو کورٹ نے حکم دیا کہ بی جے پی رکن پارلیمان اور کشتی فیڈریشن کے سابق صدر برج بھوشن کے خلاف خاتون پہلوانوں کی جانب سے جنسی ہراسانی کے الزامات کی چارج شیٹ داخل کی جائے ۔ عدالت نے کہا کہ فرد جرم عائد کرنے کی خاطر ان کے خلاف کافی ثبوت ہیں جو اس معاملے میں کارروائی کے راستے کو آسان بنا سکتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جہاں سے اروند کیجریوال کو لایا گیا تھا وہیں برج بھوشن کو بھیج دیا جاتا۔ ویسے برج بھوشن نامی بکرا اور اس کی اماں بی جے پی کب تک خیر منائے گی ؟آثار تو ایسے ہیں کہ بہت جلد چھری کے نیچے آئے گی ۔ دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال کواگر مستقل ضمانت کے ساتھ انتخابی مہم میں شرکت سے روک دیا جاتا تو بات نہیں بنتی اس لیے الیکشن کی تشہیر میں اجازت کے ساتھ ملنے والی یہ ضمانت عبوری ہونے کے باوجود مستقل سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے ۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ یکم جون کو پھر سے جیل جانے والے اروند کیجریوال ٤ جون کے بعد پہلی سماعت میں آن بان اور شان کے ساتھ جیل سے چھوٹ کر باہر آجائیں اور ان کے خلاف یہ فرضی مقدمہ خارج کردیا جائے ۔
اروند کیجریوال کے قضیہ کو سمجھنے کے لیے کچھ تاریخوں پر توجہ دینا کافی ہے ۔نومبر 2021 میں عام آدمی پارٹی نے دہلی میں نئی آبکاری پالیسی نافذ کی۔ جولائی 2022 میں دہلی کے لیفٹننٹ جنرل وی کے سکسینہ نے اس کی سی بی آئی تفتیش کا حکم دیا۔ ایک ماہ کے اندر ای ڈی اور سی بی آئی نے بدعنوانی کے تحت مقدمہ درج کروادیا اور اگلے ماہ دہلی سرکار نے اس پالیسی منسوخ ختم کردی ۔ دہلی کی حکومت سوچ رہی تھی کہ اس طرح معاملہ رفع دفع ہوجائے گا مگر ای ڈی نے منیش سسودیا اور سنجے سنگھ کوتو گرفتار کرلیا۔ پچھلے سال30 اکتوبر( 2023) کو ای ڈی نے اروند کیجریوال کو پہلا سمن بھیجا ۔انہوں نے اسے نظر انداز کردیا تو دسمبر میں مزیددو سمن روانہ کیے ۔ اس سے بھی بات نہیں بنی تو جنوری میں پھر سے دو سمن بھیجے گئے ۔ کیجریوال نے ان سے بھی بے اعتنائی برتی تو ای ڈی نے 3 فروری کو پہلی بارکیجریوال کے خلاف مجسٹریٹ کورٹ سے رجوع کیا اور تفتیش میں غیر حاضری کی شکایت کردی تو عدالت سے 7فروری کو سمن جاری ہوگیا ۔ ای ڈی نے فروری میں پھردو سمن جاری کردئیے ۔ ایک ماہ بعد مجسٹریٹ کورٹ نے کیجریوال کو بلایا۔ 15 مارچ کو اس معاملے میں اسٹے لگانے کی درخواست کو مسترد کردیا ۔ اگلے دن اروند کیجریوال عدالت میں حاضر ہوگئے اور انہیں ضمانت بھی مل گئی۔ اس فیصلے کے خلاف ای ڈی ہائی کورٹ میں پہنچ گئی تو اس نے 21مارچ کو گرفتاری سے تحفظ نہیں دیا اور اسی دن اروند کیجریوال دھر لیے گئے ۔
دو دن بعد 23 مارچ کو اروند کیجریوال نے اپنی گرفتاری کو چیلنج کردیا مگر 9اپریل کوان کی درخواست مسترد کردی گئی ۔ اس طرح 15 اپریل پہلی بار وہ سپریم کورٹ کی چوکھٹ پر پہنچے مگر عدالتِ عظمیٰ نے فوری راحت دینے سے انکار کردیا تاہم ای ڈی کو نوٹس بھیجا گیا۔ 30 اپریل کو جب سپریم کورٹ نے کیجریوال کی گرفتاری کو لے کر ٹائمنگ پر سوال کیا تو ایسا لگا کہ وہاں پر ان کے لیے نرم گوشہ ہے ۔ 5 مئی کو سپریم کورٹ نے اشارہ دیا کہ عبوری ضمانت پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ 7 مئی کو عدالتِ عظمیٰ نے اپنے فیصلے کو ملتوی کیا تو دو دن بعد 9مئی کو اپنے حلف نامہ میں کہا کہ انتخاب لڑنے والے امیدواروں کو بھی تشہیر کی خاطر عبوری ضمانت نہیں دی جاتی ۔ اس کا مطلب ہے کہ مودی سرکار کسی بھی صورت اروند کیجریوال کو انتخابی مہم سے روکنا چاہتی تھی مگر اس کی ایک نہیں چلی اگلے دن سپریم کورٹ نے انہیں یکم جون تک ضمانت دے دی ہے ۔اس طرح لوہے کو تپایا گیا تاکہ اروند کیجریوال کے حق میں خوب ہمدردی جمع ہوجائے اور پھر ہتھوڑا ماردیا گیا۔اروند کیجریوال اب دہلی، ہریانہ اور پنجاب میں جو انتخابی مہم چلائیں گے اس کے اثرات غیر معمولی پڑیں گے ۔
دہلی کے وزیر اعلی کو عبوری ضمانت دینے سے قبل ای ڈی کہہ رہی تھی کہ اگر انہیں انتخابی مہم کی بنیاد پر ضمانت دی جاتی ہے تو یہ امرت پال جیسے کیس کے لیے ایک مثال قائم کرے گالیکن عدالت عظمیٰ نے کہہ دیا کہ کیجریوال عادی مجرم نہیں ہیں۔ اس کے بعد سپریم کورٹ نے ضمانت منظور کرتے ہوئے کہاکہ 21 دن سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔اس لیے کسی دوسرے کیس کے ساتھ اس کی مماثلت نہ بنائیں۔ عدالت کے مطابق مقدمہ 2022 میں درج کیا گیا تھا اور انہیں مارچ 2024 میں گرفتار کیا گیا۔ انہیں پہلے یا بعد میں بھی گرفتار کیا جا سکتا تھا۔ڈیڑھ سال تک وہ باہر تھے ان 21 دنوں میں ان کے یہاں یا وہاں رہنے سے کوئی فرق نہیں ہونا چاہئے ۔یہ نہایت معقول موقف ہے لیکن مرکزی حکومت کے لیے جو اروند کیجریوال سے گھبرائی ہوئی ہے 440وولٹ کا جھٹکا بن گیا اور اس کی نیند اڑ گئی۔ اس بابت مرکزی حکومت کے ارادوں کا اندازہ کرنے کے لیے 6مئی کو لیفٹیننٹ گورنر وی کے سکسینہ کی سفارش سے کیا جاسکتا ہے جس میں انہوں نے دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال پر ممنوعہ دہشت گرد تنظیم سکھس فار جسٹس سے سیاسی فنڈنگ حاصل کرنے کا الزام لگاکر این آئی اے جانچ کی سفارش کی تھی۔
مرکزی حکومت کے کٹھ پتلی لیفیننٹ گورنر نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہیں شکایت موصول ہوئی ہے ۔ اروند کیجریوال کی قیادت والی عام آدمی پارٹی کو دیویندر پال بھلر کی رہائی میں سہولت فراہم کرنے اور خالصتان حامی جذبات کو فروغ دینے کے لیے انتہا پسند خالصتانی گروپوں سے 16 ملین امریکی ڈالر حاصل ہوا تھا ۔سکسینہ نے سفارش کی تھی چونکہ شکایت ایک وزیر اعلیٰ کے خلاف ہے اور اس کا تعلق ایک کالعدم دہشت گرد تنظیم سے حاصل ہونے والی سیاسی فنڈنگ سے ہے اس لیے شکایت کنندہ کے ذریعہ دیے گئے الیکٹرانک شواہد کی فارینسک جانچ سمیت اس معاملے میں مزید تحقیقات کی ضرورت ہے ۔ یہ اس قدر سنگین الزام ہے کہ اس کے تحت کسی بھی ملزم برسوں تک جیل میں سڑایا جاسکتا ہے ۔ ہنومان بھگت اروند کیجریوال نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ رام بھگت سرکار ان پر وہ الزامات لگائے گی جو سکھوں اور مسلمانوں کے مختص ہیں۔
عدالت عظمیٰ سے آزادی کا پروانہ حاصل کرنے کے بعد اب اروند کیجریوال دہلی، ہریانہ اور پنجاب میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں خوب زور و شور سے مہم چلا ئیں گے ۔ دہلی میں 25 مئی کو ووٹنگ ہونی ہے اور وہاں کانگریس کے ساتھ عآپ اتحاد میں الیکشن لڑ رہی
ہے۔ عام آدمی پارٹی 4 جبکہ کانگریس 3 لوک سبھا سیٹوں پر اپنے امیدوار میدان میں اتارے ہیں ۔ ہریانہ کے اندرچوتھے مرحلے میں عام آدمی پارٹی کروکشیتر سیٹ سے الیکشن لڑ رہی ہے ۔ پنجاب میں یکم جون کو ووٹنگ ہونی ہے ، اس لیے کیجریوال اپنے حلقۂ اثر والے علاقہ میں انتخابی مہم چلانے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہے تاکہ وہ کمل کے پھول کو جڑ سمیت اکھاڑ کر پھینک سکیں ۔ پہلے وہ اکیلے پارٹی کارکنان کے ساتھ انتخاب لڑتے تھے مگر جب وہ جیل میں تھے تو ان کی اہلیہ سنیتا کیجریوال نے انتخابی مہم شروع کردی اور ریلیاں و روڈ شوز کرنے لگیں اس طرح اب وہ دوہنسوں کا جوڑا انتخابی مہم چلائے گا۔ اروند کیجریوال اب جیل بھیجے جانے اور عدالت سے ریلیف ملنے والی فتح کا بھرپور فائدہ اٹھانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے ۔
دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال تہاڑ جیل سے رِہا ئی کے بعد ان کی رہائش پر بڑی تعداد میں عآپ لیڈران و کارکنان نے زبردست آتش بازی کے ساتھ استقبال کیا ۔ وہ لوگ تہاڑ جیل کے گیٹ نمبر 3 پر بھی موجود تھے ۔جیل سے نکلنے کے بعد اروند کیجریوال نے انتہائی پُرجوش انداز میں بولے ”میں نے کہا تھا میں جلدی آؤں گا، آ گیا۔ ہم سب کو مل کرآمریت سے ملک کو بچانا ہے ۔ میں پوری طاقت سے لڑ رہا ہوں اور تاناشاہی کے خلاف جدوجہد کر رہا ہوں۔ 140 کروڑ لوگوں کو بھی آمریت سے لڑنا پڑے گا۔” کیجریوال کے ہر جملے میں ڈکٹیٹر شپ سے لڑائی کا عزم ان کی گرفتاری کا تحفہ ہے ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بھگونت مان سمیت عآپ رہنماوں نے کیجریوال کی رِہائی کو جمہوریت کی عظیم فتح قرار دیا۔ان کے علاوہ این سی پی کے سربراہ شردپوار، کانگریس کے پون کھیڑا، ترنمول کانگریس کی سربراہ ممتا بنرجی، سماجوادی پارٹی کے سربراہ اکھلیش یادو اور شیوسینا آدتیہ ٹھاکے نے کیجریوال کی رہائی پر خوشی کا اظہار کیا ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس موقع پر جبکہ شمالی ہند کے بیشتر مقامات پر ووٹنگ باقی ہے اروند کیجریوال کی رہائی بی جے پی کے ارمانوں پر جھاڑو پھیر دے گی ۔مودی اور شاہ نے اروند کیجریوال کو گرفتار کرکے جو داوں کھیلا تھا وہ اس پر الٹا پڑگیا ہے اور اس سازش سے اسے لینے کے دینے پڑ گئے ہیں۔ فی الحال بی جے پی کی حالتِ زار پر یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے
الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ سزا نے کام کیا
دیکھا اس کرسی کی ہوس نے آخر کام تمام کیا