ہاکی اور آوارہ کتے
شیئر کریں
میری بات/ روہیل اکبر
ہماری ہاکی ٹیم جن مشکلات اور مصائب سے نکل کر آج جس مقام پر کھڑ ی ہے اس میں بلاشبہ ہمارے ان ہیروز کا کردار ہے جنہوں نے اسکی بہتری کے لیے کام کیے لیکن بدقسمتی سے آج بھی ہاکی کے اندر سیاست کو گھسیٹا جارہا ہے۔ ہاکی جو ہمارا قومی کھیل ہے جس میںہم نے ناقابل تسخیر کارنامے سرانجام دے رکھے ہیں۔ ہماری ہاکی ٹیم دنیا بھر میں اپنی الگ پہچان رکھتی تھی پاکستان کی قومی ٹیم نے 1948 میں اپنا پہلا میچ کھیلا تھا جسکے بعد پاکستان ہاکی فیڈریشن (PHF) انتظام عمل میںلایا گیا جو پاکستان میں ہاکی کی گورننگ باڈی بھی ہے جو 1948 سے ہی انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن (FIH) کا رکن ہے اور 1958 میں قائم ہونے والی ایشین ہاکی فیڈریشن (ASHF) کا بانی رکن ہے ۔پاکستان دنیا کی کامیاب ترین قومی ہاکی ٹیموں میں سے ایک تھی جس نے ریکارڈ چار ہاکی ورلڈ کپ جیتے ہیں (1971، 1978، 1982 اور 1994 میں) پاکستان ہاکی ٹیم ایشین گیمز میں بھی سب سے کامیاب ٹیم تھی جنہوں نے آٹھ طلائی تمغے حاصل کر رکھے ہیں( 1958، 1962، 1970، 1974، 1978، 1982، 1990، اور 2010) پاکستانی ہاکی ٹیم واحد ایشیائی ٹیم تھی جس نے تین بار چیمپئنز ٹرافی جیتی ہے(1978، 1980 اور 1994) پاکستان نے کل 29 آفیشل انٹرنیشنل میچ جیتے ہیں اولمپک گیمز میں بھی ہاکی ٹورنامنٹس میں تین طلائی تمغے جیت چکے ہیں ( روم 1960، میکسیکو سٹی 1968، اور لاس اینجلس 1984) پاکستان کی قومی ہاکی ٹیم کو FIH نے 2000 اور 2001 میں دنیا کی نمبر 1 ٹیم کا درجہ دیاتھا بین الاقوامی ہاکی کی تاریخ میں کسی کھلاڑی کی جانب سے سب سے زیادہ بین الاقوامی گول کرنے کا عالمی ریکارڈ سابق کپتان سہیل عباس کے پاس ہے جبکہ وسیم احمد ٹیم کے لیے سب سے زیادہ کیپ کھیلنے والے کھلاڑی ہیں جنہوں نے 1996 سے 2013 کے درمیان 410 بار کھیلا ہے ہاکی کے دلچسپ ترین مقابلوں میں پاک بھارت ٹاکرا ہوا کرتا تھا یہ میچ کم اور جنگ کا ماحول زیادہ لگتا تھا دونوں ٹیمیںساؤتھ ایشین گیمز اور ایشین گیمز کے فائنل میں ایک دوسرے کے خلاف 20 بار مدمقابل آئی ہوئی ہیں جن میں سے پاکستان نے مجموعی طور پر 13 ٹائٹل جیتے ہیں۔ پاکستان کے پاس ہاکی ایشیا کپ کی پہلی تین چیمپئن شپ 1982، 1985 اور 1989 میں بھارت کے خلاف لگاتار جیتنے کا ریکارڈ بھی ہے ۔اس کے علاوہ پاکستان ، نیدرلینڈز اور آسٹریلیا کے ساتھ میچ دیکھنے والے ہوتے تھے جب ہماری ہاکی کا آغاز ہوا تب ہمارے پاس وسائل بھی محدود ہوا کرتے تھے لیکن اس وقت اقتدار شاہ دارا جیسے لوگ موجود تھے جن کی قیادت میں ہم نے بیلجیئم کے خلاف 1948 کے لندن اولمپکس میں 2ـ1 سے اپنا پہلا بین الاقوامی میچ جیتا جس کے بعدپاکستان ہالینڈ، ڈنمارک اور فرانس کو شکست دے کر ناقابل شکست جبکہ پاکستان کی ہالینڈ کو 6ـ1 سے شکست ٹیم کے لیے خاص بات تھی۔ اولمپکس کے بعد پاکستان یورپ کے دورے پر گیا جہاں بیلجیئم، ہالینڈ اور اٹلی سے میچ ہوئے اور ہم پھر بھی ناقابل شکست رہے۔ ٹیم کا اگلا بین الاقوامی دورہ دو سال کے وقفے کے بعد ہوا جب پاکستان نے 1950 میں اسپین میں ہونے والے دعوتی مقابلے میں حصہ لیا۔ فائنل ڈرا پر ختم ہونے کے بعد پاکستان کو ہالینڈ کے ساتھ فاتح قرار دیا گیا۔ یہ پاکستان کی پہلی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں فتح تھی دو سال کے وقفہ تھا 1952 کے اولمپکس مقابلوں میں پاکستان نے فرانس کے خلاف پہلا ناک آؤٹ میچ 6ـ0 سے جیت لیا لیکن ہالینڈ اور برطانیہ سے ہار کر ایونٹ میں دوبارہ چوتھی پوزیشن حاصل کی۔ ان چار سالوں میں پاکستان نے یورپی ممالک کے دورے بھی اور دوسرے ممالک کی ٹیموں کی میزبانی بھی کی لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہماری تمام فیڈریشنوں میں سیاسی تعیناتیاں ہونے لگی۔ سب سے پہلے ہم نے ہاکی کو ختم کیا اس کے بعد فٹ بال بھی ختم کی بلکہ فٹ بال نے تو انٹرنیشنل سطح پر ہماری بدنامی بھی کی کروائی جبکہ ہاکی فیڈریشن والوں کا صبح کے وقت ایک سیکریٹری ہوتا تھا تو شام کو دوسرا سیکریٹری بن جاتا تھا۔ ابھی پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری نے صدر کا عہدہ سنبھالا تو انہوں نے شہلا رضا ء کو ہاکی فیڈریشن کا صدر بنا دیا جبکہ ان سے پہلے ہمارے نگران وزیر اعظم اپنے بھائی کو اسی عہدہ پر براجمان کرواچکے تھے۔ دو سیاسی گروپوں کی لڑائی میں سیکریٹری مجاہد رانا جو خود بھی ہاکی کے اچھے کھلاڑی رہے ہیں ،ہاکی بال کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومتے رہے ۔ایسی ہی سیاسی لڑائیوں میںجہاں ہماری دوسری کھیلیں برباد ہوئی ،وہیں پر ہماری ہاکی بھی آوارہ ہوگئی ۔آوارہ سے یاد آیا ۔آجکل کراچی کے شہری آوارہ کتوں سے بہت تنگ ہیں ویسے تو ملک بھر میں آوارہ کتوں کی بھر مار ہے لیکن سندھ میںکچھ زیادہ ہی ہیں جہاں ا ن کتوں کے کاٹے کی ویکسین بھی نہیں ہے اور لوگ دوائی نہ ہونے کے سبب موت کے منہ میںجارہے ہیں ۔صرف ایک دن میںروشنیوں کے شہر کراچی کے مختلف علاقوں اورنگی ٹاؤن، بلدیہ ٹاؤن، عزیز آباد اور ناظم آباد میں سگ گزیدگی کے درجنوں واقعات پیش آئے ہیں اس پر نہ تو وہاں کی مقامی حکومت دلچسپی لے رہی ہے اور نہ ہی صوبائی حکومت شہری آوارہ کتوں کے ہاتھوں پریشان ہیں جو گلی محلوں، بس اسٹاپ حتیٰ کہ ہسپتالوں کے باہر بھی ٹولیوں کی شکل میں منڈلاتے ہوئے نظر آتے ہیں اور پھر اچانک شہریوں پر حملہ آور ہوجاتے ہیں روزانہ درجنوں کی تعداد میں کتوں کے کاٹنے سے زخمی ہونے والوں کو مختلف ہسپتالوں میں لایا جاتا ہے جن میں سے اکثر سگ گزیدگی کے شکار افراد کو بروقت ویکسین نہ ملنے سے اموات بھی ہوجاتی ہیں ۔کراچی شہر کی کچی آبادیوں میں پوش علاقوں کی نسبت گلیوں کے باسی آوارہ کتوں سے متاثرہ افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے جبکہ پورے سندھ کی صورتحال اس سے بھی زیادہ خطرناک ہے ۔اسی طرح لاہور میں بھی آوارہ کتوں کی بھر مار ہے لیکن اتنے نہیں ہیںجتنے کراچی میں پائے جاتے ہیں کیونکہ لاہور میں 2009 میں کتا مار مہم شروع کی گئی تو اس وقت شہر میں 27,576 کتے مارے گئے، 2005 میں یہ تعداد 34,942 تھی اسی طرح 2012 میں ملتان شہر میں 900 کتوں کو مارا گیا تھا یہ آوارہ کتے غریب لوگوں کو ہی کاٹتے ہیں امیرلوگوں کی گاڑی کے ساتھ تھوڑی دور تک بھاگتے اور بھونکتے ہیں جب وہ نکل جاتے ہیں تو پھرانکا غصہ بھی غریب لوگوں پر ہی اُترتا ہے ۔بات ہاکی کی ہو رہی تھی اور درمیان میں آوارہ کتے آگئے آخر میں حکومت سے درخواست ہے کہ وہ ہاکی فیڈریشن میںہونے والی لڑائی جھگڑے کا سیاسی حل نکالنے کی بجائے میرٹ پر یہ فیڈریشن ہاکی کے سابق کھلاڑیوں کے حوالے کردے اور اسکے ساتھ ساتھ اذلان شاہ ٹورنامنٹ میں بہترین کارکردگی کے باوجود قومی ہاکی ٹیم کے کھلاڑیوں ڈیلی الاؤنس سے محروم ہیں۔ ہر میچ کے بعد ڈیلی الانس دینے کی تسلی دی جاتی رہی لیکن رقم ادا نہ کی گئی۔ فائنل میچ سے پہلے ڈیلی الانس کی ادائیگی کا وعدہ بھی کیا گیا لیکن فائنل کے بعد بھی تاحال کھلاڑیوں کو کچھ نہیں ملا ۔ اذلان شاہ ہاکی ٹورنامنٹ میں کھلاڑیوں کو شاپنگ کیلئے بھی پیسے نہیں دیئے گئے۔ ایشین گیمز، ایشین جونیئر ہاکی کپ اور ڈومیسٹک ٹورنامنٹ کے ڈیلی الانس بھی تاحال ادا نہیں کئے گئے ہیں۔