کشمیریوں کی جبری بے دخلی
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما میر واعظ عمر فاروق نے مودی کی فسطائی بھارتی حکومت کی غیر قانونی طور پر زیر قبضہ جموں و کشمیر میں بے دخلی اور املاک کو منہدم کرنے کی جاری مہم کو کشمیریوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کرنے کے مذموم ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس عمل کوفوری طور پر روکنے کا مطالبہ کیا ہے۔ قابض حکام کی اس ظالمانہ مہم سے کشمیریوں میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جس سے ان کی زندگی اور ذرائع معاش بری طرح متاثر ہو ر ہے ہیں مودی حکومت کے یکے بعد دیگرے ظالمانہ اقدامات سے کشمیری عوام کو اپنے ہی مادر وطن میں بے گھر کیا جارہا ہے۔ مودی حکومت اس ظالمانہ مہم کو فوری طورپر روکے اور تنازعہ کشمیر کو اسکے تاریخی تناظر میں حل کرنے پر توجہ مرکوز کرے۔
میر واعظ نے کہا کہ حریت کانفرنس کی قیادت نے تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کے لیے اس اقدام کی پرزورحمایت کی تھی۔ یہ تنازعہ ہمسایہ جوہری طاقتوں بھارت، پاکستان اور چین کے درمیان مسلسل کشیدگی کی بڑی وجہ ہے تاہم میر واعظ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی کے نتیجے میں یہ عمل پٹڑی سے اتر گیا اور یہ موقع ضائع ہو گیا۔ تنازعات اور دشمنی سے ترقی اورخوشحالی کا ہدف حاصل نہیں کیاجاسکتااسی لئے حریت کانفرنس نے ہمیشہ تنازعات کے حل کیلئے لوگوں اور ریاستوں کے درمیان مذاکرات اور بات چیت کی حمایت کی ہے۔
میر واعظ عمر فاروق نے جو گزشتہ ساڑھے تین سال سے مسلسل گھر میں نظربند ہیں بھارت پر زور دیا کہ وہ خطے میں جوہری تباہی کو روکنے کیلئے تنازعہ کشمیر کے منصفانہ حل کیلئے سازگار ماحول قائم کرے۔ میر واعظ عمر کو 4 اگست 2019 کو مودی حکومت کی طرف سے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی سے ایک دن قبل سرینگر میں گھر میں نظربند کردیاگیاتھا ۔حریت کانفرنس کے ترجمان نے میر واعظ عمر فاروق کی مسلسل گھر میں غیر قانونی نظربندی اور انکے تمام بنیادی حقوق سلب کئے جانے کی شدید مذمت کی انہوں نے قابض انتظامیہ سے میر واعظ عمر فاروق اور دیگر تمام سیاسی رہنماؤں کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ مودی حکومت مقبوضہ کشمیر پر اپنا قبضہ جمانے اور ہندوؤں کی آبادکاری کیلئے کوشاں ہے۔نہتے کشمیر یوں پر ظلم و ستم کر کے، کشمیریوں کو کشمیر سے بے دخل کر کے ، غرض ہر صورت میں وادی پر اپنا مکمل قبضہ چاہتی ہے۔ گویا بی جے پی کی قیادت میں ہندتوا حکومت ، نازی نظریہ سے متاثر ہوکر مقبوضہ کشمیر میں آبادیاتی تناسب کو بدلنے کے لئے ہر حد کو عبور کر چکی ہے۔
بھارتی حکومت کے اعلان کے مطابق دہلی کی حکومت مقبوضہ جموں و کشمیر میں ہندوؤں کو الگ بستی فراہم کرے گی۔ مقبوضہ کشمیر کی آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی طرف یہ پہلا قدم ہے۔اس سے قبل ہندوستان غیر کشمیری سرمایہ کاروں کے لئے 60000کنال اراضی پہلے ہی فراہم کرچکی ہے۔ بھارتی سرکار کا منصوبہ یہ ہے کہ سرکاری فرنٹ مین وہ زمین خریدیں گے ۔ ایک ہندو مندر کو بھی 1000 کنال اراضی فراہم کی گئی ہے۔ جموں میں مسلمانوں سے 4 ہزار کنال سے زائد اراضی ہتھیائی گئی ہے۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے ” انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ”نے جھوٹے مقدمے میں نظر بند معروف کشمیری تاجر ظہور احمد وٹالی کی ضلع بڈگام میں چھ کروڑ روپے مالیت کی اراضی قبضے میں لے لی۔ بی جے پی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی دو سے تین لاکھ ہندوپنڈتوں کو کشمیر میں بسانے کے لئے پر عزم ہے۔اس لئے بھارتیہ جنتا پارٹی مسلم اکثریتی وادی کشمیر میں ہندوؤں کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے محفوظ کیمپوں کی تعمیر کے منصوبے کو بحال کرے گی۔
دنیا کا ہر ملک کشمیریوں پر بھارتی ظلم و بربریت پر نالاں ہے اورکثیرجہتی عالمی فورمز پر بھارتی سیکیورٹی فورسزکی بہیمانہ فوجی کارروائی کے خلاف کھل کر تنقید کرتا ہے، اس میں ایک تو بھارت کی اقوام متحدہ کی قراردادوں اور کشمیریوں کے بنیادی استصواب رائے کے حق کو تسلیم نہ کرنا اور دوسرے کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد اب وادی کی مسلم اکثریتی آبادی کو اقلیت میں کرنے کی سر توڑ کوشش ہے۔ بھارت اور اسرائیلی گٹھ جوڑ ایک عالمی حقیقت بن چکا ہے۔ مودی حکومت منظم اور مربوط طریقے سے دنیا کی آنکھوں میںدھول جھونکتے ہوئے کشمیر کی ڈیموگرافی کی تبدیلی پرکمربستہ ہے۔ نیو یارک میں کشمیری پنڈتوں اور بھارتی باشندوں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی قونصل جنرل نے اعتراف کیا کہ نریندر مودی انتظامیہ کشمیر میں ہندو آبادی کو نوآبادیاتی یقینی بنانے کے لیے اسرائیل کی طرز پر قائم کردہ قبضہ بستیوں کی تعمیرکرے گی۔ اگراسرائیل فلسطینی علاقوں میں اپنے لوگوں کوآبادکرسکتا ہے تو ہم بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے کشمیر میںہندوؤںکو بسا سکتے ہیں۔اس اعتراف سے حریت قیادت کے موقف کی تصدیق ہوگئی کہ بھارت مقبوضہ علاقے میں آبادی کا تناسب بگاڑنے اورکشمیریوںکو اپنے وطن میں بے گھرکرنے کے لیے اسرائیلی ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔
بھارت کشمیر کی تقسیم کے خنجر سے کشمیر کے قلب کوگھائل کر رہا ہے۔ مودی حکومت کشمیرکے جغرافیہ کو بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ اسے کشمیرکی قانونی حیثیت کو بدلنے کا کوئی حق نہیں۔ اس ناروا اقدام کو بدلنا ہوگا۔ یہ صورتحال دیر تک جاری نہیں رہے گی۔ کشمیر میں ایک سناٹا چھایا ہوا ہے۔ لوگوں کی خاموشی معنی خیز اور اسٹرٹیجک ہے۔ ان کی خاموشی بول رہی ہے جب کہ مودی حکومت سچ کو دبا رہی ہے۔جموں وکشمیر کے عوام تصادم، جنگ یا لا متناہی جھگڑا نہیں چاہتے بلکہ اپنا حق خودارادیت چاہتے ہیں جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں میں تسلیم کیا گیا ہے اور جس کا وعدہ عالمی برادری نے کشمیریوں سے کر رکھا ہے۔ یوں تو مقبوضہ جموں وکشمیر کے عوام کو گزشتہ 72سال سے قتل، جبری گمشدگیوں، آنکھوں کی بصارت سے محرومی اور جنسی تشدد جیسے وحشیانہ مظالم کا نشانہ بنایا جا رہا ہے لیکن پانچ اگست 2019کے بعد مقبوضہ کشمیر کا پورا علاقہ مسلسل محاصرے، لاک ڈائون اور مواصلاتی ناکہ بندی کی زد میں ہے۔ مقبوضہ جموں وکشمیر کی سرزمین اور وہاں کے باشندے دونوں عذاب سے دوچار ہیں۔