میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اِسے کہتے ہیں تذلیل سے لُطف کشید کرنا

اِسے کہتے ہیں تذلیل سے لُطف کشید کرنا

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۴ اپریل ۲۰۲۱

شیئر کریں

این اے 75سے نوشین افتخار کی جیت اندازوں کے برعکس نہیں البتہ اسجد ملہی اگر فتح مند ہوتے تو یہ اچھنبے کی بات ہوتی وجہ تمام تر بدنامیوں اور الزامات کے باوجود یہاں ظاہرے شاہ کے خاندان کو مقبولیت حاصل ہے علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کا ٹکٹ اِس حلقے میں کامیابی کی کلیدسمجھاجاتاہے مرنے والے کے خاندان سے روایات کے مطابق ویسے بھی ہمدردی کی لہر پیداہوتی ہے اگرمرحوم خاندان کی بیٹی یا کوئی اور خاتون کسی کے دروازے پر چلی جائے تو لوگ احترام کرتے ہیں اور خالی نہیں لوٹاتے 19فروری کو وزیر آباد اور ڈسکہ میں مشرقی روایات کا مظاہرہ جابجا دیکھنے کو ملا مرحوم خاندانوں کی دو خواتین کو ٹکٹ دیکرمسلم لیگ ن نے سیاسی مہارت کا مظاہرہ کیا لیکن حکومت کے نشے میں پی ٹی آئی ادراک نہ کر سکی اوربدامنی کو ہوا دیکر پریذائڈنگ آفیسروں سے نتائج تبدیل کرائے مگردس اپریل کو پولنگ عمل پُرامن بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے سیکورٹی کے سخت اقدامات کیے دفعہ 144پرمکمل عمل کرایا گیا اور اسلحہ کی نمائش کرنے والوں کورینجرز نے بلاتفریق گرفتارکیا جس کی وجہ سے نہ صرف آزادانہ مرضی سے ووٹ ڈالنے کی فضا بنی بلکہ حکومت کے خوف وہراس کابھی خاتمہ ہوگیاجس کی بنا پر ڈسکہ ضمنی انتخاب کوصاف شفاف کہنے میں کوئی امر مانع نہیں۔

سمجھدار کے لیے اشارہ کافی ہوتا ہے لیکن نہ سمجھ نقصان اُٹھا کر بھی سبق حاصل نہیں کرتا ڈسکہ کے ضمنی الیکشن میں حکمران جماعت نے بھی ناسمجھی کا ثبوت دیا حالانکہ یہ نشست کم و بیش دو دہائیوں سے مسلم لیگ ن کے پاس ہے اِس لیے معمولی سی عقل و فہم کے مالک کو بھی ادراک ہے کہ یہاں کسی اور جماعت کے ٹکٹ کی کوئی اہمیت نہیں پھربھی عثمان ڈار جیسے لوگوں کی طرف سے زندگی و موت کا مسئلہ بنانا سمجھ سے بالاتر ہے قبل ازیں ڈی سی اور ڈی پی او کے ساتھ مل کر دھاندلی کی گئی اور کئی اچھے ڈویژنل آفیسرز کوعہدوں سے ہٹانے کا باعث بنے پھر عدالتوں میں خوار ہونے کی راہ اپنائی گئی جب کہیں بات نہ بنی تو بھی کُشتوں کے پُشتے لگانے کے بلند وبانگ دعوے کیے گئے سچ پوچھیے تو یہ سیاست نہیں کیونکہ سیاست میںبر وقت اچھے فیصلے کیے جاتے ہیں جب کھڑی ٹرین میں پرسوار ہونہیں سکے تو روانگی کے بعد پیچھے بھاگنے کی کیا تُک ہے؟مگر حکمراں جماعت نے ڈسکہ الیکشن میں کچھ ایسے ہی رویے کا مظاہر ہ کیا ہے ارے بھئی حکومت آپ کے پاس ہے اگر آپ چاہتے تووسائل کو استعمال میں لاکر علاقے کے مسائل حل کرتے اور لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتے لیکن حاصل وقت گنوا کر جیت کے تصوراتی قلعے تعمیر کرنا تعجب ہے عیاں حقیقت تو یہ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں جب عمران خان کی مقبولیت جوبن پر تھی پورے ضلع سیالکوٹ سے پی ٹی آئی کا کوئی امیدوار بھی کامیاب نہیں ہو سکا یاتو مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے حصے میں کامیابی آئی یاپھر ایک صوبائی نشست پرمسلم لیگ ق کے امیدوار بائو رضوان جیت گئے جسے ایک بارجہاں سے سُبکی ہو تووہ دوسری بار احتیاط کر تا ہے لیکن پی ٹی آئی نے شاید صمیمِ قلب سے حماقتیں دُہرانے کا عزم کررکھا ہے شاید اِسے ہی کہتے ہیں تذلیل سے لُطف کشید کرنا ۔

عمران خاں کے ساتھی خود پسندی کا شکار ہیں اُنھیں زعم ہے کہ وہ ملک بھر میں مقبول ہیں مگر سوشل میڈیا پر بیٹھ کر پوسٹیں لگانے اور پھر مخالفوں کے لتے لینے کو مقبولیت نہیں کہہ سکتے عثمان ڈار جیسے لوگوں کو بارہا تجربہ ہو چکاپھر بھی تزلیل سے لُطف کشید کرنے سے باز نہیں آتے۔ ملک کے تمام طبقات ہوشربا مہنگائی سے بلبلا رہے ہیں کاروبار بند ہورہے ہیں بے روزگاری خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے رہی سہی کسر کرونا نے نکال دی ہے عام لوگ تو اِتنے تنگ ہیں کہ وہ بھوک و افلاس سے مرنے کی بجائے کرونا سے مرنے کو آسان سمجھنے لگے ہیں لیکن لگتا ہے حکمرانوں کو اِس بات کی کوئی پرواہ نہیں اُنھیں حریفوں کو چور اور ڈاکوکہناتو مرغوب ہے مگر عام آدمی کے مسائل حل کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں نصف مدتِ اقتدارگزر چکی اِس لیے اب کچھ کارگزاری دکھانا ہوگی وگرنہ یقین کر لیں چاہے حکمران تذلیل سے جتنا مرضی لُطف کشید کرتے رہیں آنے والے عام انتخابات میںکسی طرف سے چاہے حمایت ملے پی ٹی آئی کے لیے حالات اچھے نہیں ہوں گے عین ممکن ہے آئندہ عام انتخابات کے بعدپنجاب میں پی پی کی موجودہ پوزیشن پر پی ٹی آئی نظر آئے۔

سیالکوٹ میں فردوس عاشق اعوان کے سوا پی ٹی آئی کے پاس کوئی معروف چہرہ نہیں اسجد ملہی میں چاہے لاکھ خوبیاں ہوں لیکن اُن کی ایک خامی سب پر حاوی ہے کہ وہ عوامی نہیں بلکہ حاکمانہ مزاج رکھتے ہیں اُنھیں عام آدمی سے ملتے ہوئے کراہیت محسوس ہوتی ہے کرونا سے اِتنے خوفزدہ ہیں کہ الیکشن کے باوجود لوگوں سے ملنے سے گریزاں رہتے ہیں چاہے انھوں نے بظاہر بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیدہ نوشین افتخار کو کامیابی پر مبارکباد دی ہے لیکن اپنی شکست تسلیم کرنے اجتناب کیا ہے اور انتظامیہ سمیت الیکشن کمیشن کو ہدفِ تنقید بنایا ہے مگر اُ ن کا ہر ساتھی شکست کے لیے تیار نظر آیا اِس یہ شکست کے آثار ہی تھے کہ اسجد ملہی نے امیدوار ہوکر بھی اپنا ووٹ کاسٹ نہیں کیا بلکہ ایک سے زائد بارووٹ کے بارے ساتھیوں کی طرف سے یادکرانے پربھی اُن کا مختصر جواب یہی تھا کہ بڑا وقت ہے ووٹ کاسٹ کر لیتے ہیں اِس کا مطلب ہے کہ زہنی طور پر ہزاروں کی شکست کے لیے وہ بھی تیار تھے اسی لیے ووٹ کاسٹ کرنے کی بجائے دیگر امور پر توجہ دی یہ اطوار اور رویہ متوقع شکست کا عکاس نہیں تو اور کیا ہے ؟

بادی النظر میںپی ڈی ایم کے غبارے سے ہوا نکل چکی حالانکہ اپوزیشن اتحاد کو جتنی عوامی پزیرائی ملی اُس سے حکومت خاصی دبائو میں آچکی تھی اور بات تک نہ کرنے کے روادار سلسلہ جنبانی قائم کرنے کے لیے زرائع تلاش کرنے لگے کہ مسلم لیگ ن اور پی پی نے اپنے اپنے مفاد پر پی ڈی ایم کو قربان کر دیا لیکن یادرکھنے والی بات یہ ہے کہ عوام اپوزیشن بیانیہ قبول کر چکی ہے اور حکومتی بیانیہ بے اثر ہو چکا ہے پنجاب ،سندہ اور کے پی کے میں ہونے والے ضمنی الیکشن واضح ثبوت ہیںایک کروڑ ملازمتیں اور پچاس لاکھ گھر دینے کی باتوں کا لوگ مذاق اُڑاتے اور گھبرانے کی اجازت طلب کرنے کی باتیں کرتے ہیں پھر بھی حکمران جماعت کو ملک کی مقبول ترین جماعت ہونے کا زعم ہے عجیب بات ہے یہ تو ایسا ہی ہے کہ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے شاید باربار تذلیل کرانے میں حکمرانوں کو اِ تنا مزہ آنے لگا ہے کہ اُنھیں اور کچھ بھاتا ہی نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں