میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کو رونا کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں کی اہم کامیابی کا دعوی

کو رونا کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں کی اہم کامیابی کا دعوی

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ اپریل ۲۰۲۰

شیئر کریں

کو رونا کے خلاف جنگ میں پاکستانی سائنسدانوں اہم کامیابی حاصل کرنے کا دعوی کیا ہے ۔ ڈائویونیورسٹی سے جاری اعلامیہ میں بتایا گیا ہے کہ ڈائو یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم نے کورونا کے صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈیز سے انٹرا وینیس امیونو گلوبیولن (آئی وی آئی جی)تیار کرلی جس کے ذریعے کورونا متاثرین کا علاج کیا جاسکے گا۔وائس چانسلر پروفیسر محمد سعید قریشی نے کووڈ 19 کے خلاف جنگ میں اسے ایک انتہائی اہم پیش رفت قرار دیا ہے ۔ڈا کالج آف بائیو ٹیکنا لوجی کے پرنسپل پروفیسر شوکت علی کی سربراہی میں ریسرچ ٹیم نے دنیا میں پہلی مرتبہ کورونا کے علاج کیلیے امیونوگلوبیولن کاموثر طریقہ اختیار کرنے کی تیاری مکمل کرلی ہے ۔امریکی ادارے ایف ڈی اے سے منظورشد ہ یہ طریقہ علاج محفوظ، لورسک اور کورونا کے خلاف انتہائی موثر ہے ۔اس طریقہ علاج میں کورونا سے صحت یاب مریض کے خون میں نمو پانے والے اینٹی باڈیز کو علیحدہ کرنے کے بعد شفاف کرکے امیونو گلوبیولن تیار کی جاتی ہے یہ طریقہ علاج پلازما تھراپی سے بالکل ہی مختلف ہے واضح رہے کہ ہائپر امیو نو گلوبیولن کے طریقہ علاج کو امریکا کے وفاقی ادارے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈ منسٹریشن نے عمومی حالات کیلیے منظور کیا ہے جبکہ پلازما تھراپی کی اس کے بعض ضمنی اثرات کے باعث ہنگامی حالات میں ہی اجازت دی جاتی ہے ۔ ڈائویونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر کی زیرنگرانی کام کرنے والی ل ٹیم نے شب و روز محنت کے بعد ہائپر امیو نو گلوبیولن(آ ئی وی آئی جی)تیار کی ۔ڈا یونیورسٹی کی ٹیم ابتدائی طور پرمارچ 2020 میں خون کے نمونے جمع کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی بعد ازاں اس کے پلازمہ سے اینٹی باڈیزکو کیمیائی طور پر الگ تھلگ کرنے ، صاف شفاف کرنے اور بعد میں الٹرا فلٹر تکنیک کے ذریعے ان اینٹی باڈیز کو مرتکز کرنے میں کامیاب ہوگئی اس طریقے میں اینٹی باڈیز سے باقی ناپسندیدہ مواد جن میں بعض وائرس اور بیکٹیریا بھی شامل ہیں انہیں ایک طرف کرکے حتمی پروڈکٹ یعنی ہائپر امیونوگلوبیولن تیار کرلی جاتی ہے یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ دنیا میں پہلی مرتبہ پاکستان میں کورونا سے صحت یا ب مریض کے خون سے یہ امیونوگلوبیولن تیار کی گئی ہے جو کورونا بحران میں امید کی کرن تصور کی جارہی ہے ان ماہرین کے مطابق یہ طریقہ غیرمتحرک مامونیت(پے سو امیونائزیشن)کی ہی ایک قسم ہے مگر اس میں مکمل پلازمہ استعمال کرنے کے بجائے اسے شفاف کرکے صرف اینٹی باڈیز ہی لیے جاتے ہیں اس محفوظ اورموثر طریقہ کار کو اس سے پہلے بھی بڑے پیمانے پر دنیا میں پھیلنے والے وبائی امراض سارس،مرس،اور ابیولا میں موثر طورپر استعمال کیاجاچکاہے جبکہ تشنج،انفلوئنزا اور ریبیز کی شفاف اینٹی باڈیز دنیا میں تجارتی سطح پر فروخت کیلیے بھی دستیاب ہوتے ہیں ریسرچ ٹیم نے کوووڈ نائینٹین کے صحتیاب مریضوں کی جانب سے کم مقدار میں عطیہ کیے گئے خون کو شفاف کر کے اینٹی باڈیز علیحدہ کیے جو کورونا کو غیرموثر کرچکے تھے انکی لیبارٹری ٹیسٹنگ اور حیوانوں پر اس کا سیفٹی ٹرائل کرکے حاصل ہونے والی ہائپر امیونوگلوبیولن کو کامیابی کے ساتھ تجرباتی بنیادوں پر انجیکشن کی شیشیوں((وائلز)میں محفوظ کرلیا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسرمحمد سعید قریشی نے ڈا یونیورسٹی اسپتال کے معالجین کو ریسرچ ٹیم کے ساتھ مل کر اس نئے طریقہ علاج کے ٹرائل کے لیے اخلاقی اور قانونی حکمت عملی وضع کرنے کا ٹاسک سونپ دیاہیمشترکہ ٹیم کے دیگر اراکین میں ڈاکٹر شوبھا لکشمی،سید منیب الدین،میر راشد علی،عائشہ علی ،مجتبی خان،فاطمہ انجم اور ڈاکٹر صہیب توحید شامل ہیں۔یہ کامیابی کورونا سے ہونے والے جانی نقصان کو روکنے کے لیے بین الاقوامی طور پر کی جانے والی کوششوں میں ایک اہم قدم ہے ۔ ایک ہفتہ قبل ہی دنیا کی چھ بڑی ویکسین بنانے والی کمپنیوں نے اس عمل کو شروع کرنے کے لیے اشتراک کا اعلان کیا تھا۔تاہم ڈا یونیورسٹی نے اس عمل میں سبقت لیتے ہوئے مقامی کورونا وائرس کی قسم کے خلاف انٹراوینس امیونوگلوبیولن تیار کر لی ہے ۔ حالیہ دنوں کی ریسرچ نے مقامی کورونا وائرس کی قسم میں کچھ جینیاتی تبدیلیوں کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ ایسی صورت میں مقامی وائرس کے خلاف بنائی گئی آئی وی آئی جی بہت موثر اور مفید ثابت ہوگی۔ ڈائویونیورسٹی نے نئے کورونا وائرس کے خلاف کی جانے والی کوششوں میں اہم کردار ادا کا جینیاتی سیکوینس معلوم کیا، انسانی جین میں ایسی تبدیلیوں کا پتہ لگایا یا جو کرونا وائرس کے خلاف مزاحمت فراہم کرسکتی ہیں، اور اب صحتیاب مریضوں کے خون سے حاصل شدہ اینٹی باڈی سے انٹرا وینس امینوگلوبیولن تیار کرلی ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں