میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
گرمی اورلوڈ شیڈنگ کاعذاب

گرمی اورلوڈ شیڈنگ کاعذاب

منتظم
هفته, ۱۴ اپریل ۲۰۱۸

شیئر کریں

اخباری اطلاعات کے مطابق وفاقی کابینہ نے کراچی میں بجلی کی تقسیم کار کمپنی کے الیکٹرک میں کے ایس ای پاور لمیٹڈ کے شیئر کی فروخت کے لیے چینی کمپنی کو نیشنل سیکیورٹی سرٹیفکیٹ کے اجرا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس پاکستان کے مطابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیر صدارت نجکاری کے بارے میں کابینہ کمیٹی برائے نجکاری کا اجلاس وزیراعظم آفس میں منعقد ہوا۔اجلاس میں کے ای ایس پاور لمیٹڈ کی جانب سے کے الیکٹرک لمیٹڈ میں اس کے حصص کی شنگھائی الیکٹرک پاور کو فروخت کے معاملے پر غور کیا گیا جبکہ اس میں وفاقی کابینہ کی توثیق سے مشروط نیشنل سیکورٹی سرٹیفکیٹ کے اجرا کا فیصلہ کیا گیا۔ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سرٹیفکیٹ کا تعلق کے الیکٹرک پر وجب الادا اربوں روپے کے قرضوں سے ہوگا جس کی منظوری نیپرا دے گا۔

کے الیکٹرک کوچینی کمپنی کو اپنے شیئرز فروخت کرنے کی اجازت کے حوالے سے اخبارات میں شائع ہونے والی اس خبر سے یہ تو ظاہرہوتاہے کہ حکومت نے کے الیکٹرک کے شیئرز کی فروخت کی اجازت کو حکومتی قرضوں یا واجبات کی ادائیگی سے مشروط کرکے سرکاری اداروں کے مفادات کا تو تحفظ کرلیا ہے لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے ایسا کرتے ہوئے عوام کے مفادات کو قطعی پس پشت ڈال دیا اور کراچی کے عوام کو بلا تعطل بجلی کی فراہمی اور انھیں بھیجے جانے والے تصورراتی بلز کی روک تھام کے بارے میں کوئی شرط عاید نہیں کی گئی ،جبکہ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ گرمیوں کی آمد کے ساتھ ہی ایک بار پھر ملک بھر میں اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ نے شہریوں کی زندگی دوبھر کردی ہے، میاں نواز شریف اور ان کے حواریوں کے تمام تر دعوئوں کے باوجود حکومت لوڈشیڈنگ ختم کرنے میں بری طرح ناکام نظر آرہی ہے۔ سندھ، بلوچستان، خیبر پی کے کے علاوہ پنجاب کے مختلف شہروں اور دیہات میں بھی 12 سے 16 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ پر عوام سراپا احتجاج ہیں۔ بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہریوں کوپانی کی فراہمی میں بھی تعطل کے ساتھ ہی پانی کابحران بھی پیدا ہوجاتاہے کیونکہ بجلی نہ ہونے کی وجہ سے پمپنگ اسٹیشنوں سے پانی فراہمی رک جاتی ہے جس کی وجہ سے بعضعلاقوں میں مساجد میں وضو کے لیے بھی پانی دستیاب نہیں ہوتا۔ بجلی کی اس لوٖڈ شیڈنگ سے تنگ کراچی کے شہریوں نے گزشتہ روز ٹیٹی جیٹی کے پل پر ایم پی اے کی قیادت میں مظاہرہ بھی کیا اور کے الیکٹرک کے خلاف نعرے لگائے اس دوران تین گھنٹے بندرگاہ پر جانے اور وہاں سے آنے والی ٹریفک بند رہی۔

یہاں سوال یہ پیداہوتاہے کہ نواز شریف اوران کے جاں نثار بھائی کی جانب سے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کرنے کے بلند بانگ دعوے کہاں گئے ، اور وہ ملک میں ضرورت سے زیادہ بجلی تیار کرنے کے جو دعوے کررہے ہیں ان دعووں کے مطابق تیار کی جانے والی وافر بجلی کہاں گئی، اس ضرورت سے زیادہ بجلی کوزمین نگل گئی یا وہ آسمان پر اڑ گئی،اب جبکہ عام انتخابات قریب ہیں اور مسلم لیگ ن نے اپنی غیر اعلانیہ انتخابی مہم شروع کردی ہے سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اس بدترین لوڈشیڈنگ کے ساتھ آئندہ انتخابات میں ووٹ مانگنے عوام کے پاس جائے گی۔اور کیا حکمران عوام کے اس منفی اور شدید ردعمل کے لیے تیار ہیں جو سامنے آئے گا۔ ابھی چند ماہ باقی ہیں، حکومت کو اس دوران کچھ کرکے دکھانا ہوگااور لوڈشیڈنگ پر قابو پانا ہوگا۔ ورنہ شاید حکمرانوں کے لیے الیکشن مہم چلانا بھی مشکل ہوجائے ۔ اور آئندہ الیکشن میں عوام انہیں بھی قصہ پارینہ بنا دیں گے۔

گرمیوں کا آغاز ہوتے ہی جس طرح لوڈ شیڈنگ شروع کی گئی ہے اس کی وجہ سے حکمران مسلم لیگ کے نئے صدر اور پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کا یہ دعویٰ تو وقت کی گرد میں دب کر گم ہوچکا ہے کہ اقتدار ملا تو چند ماہ میں لوڈ شیڈنگ ختم کردیں گے۔ ان کے بڑے بھائی اور نا اہل قرار دیے گئے وزیر اعظم میاں نوازشریف تو اب بھی اپنے جلسوں میں بہ تکرار کہتے ہیں کہ دیکھو، ہم نے لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ کر کے اپنا وعدہ پورا کردیا۔ وہ نجانے کس ملک یا پاکستان کے کس حصے کی بات کرتے ہیںاور نہ معلوم انھیں یہ کہتے ہوئے شرم بھی نہیں آتی کہ ملک سے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کاخاتمہ ہوچکاہے جبکہ بجلی کی لوڈ شیڈنگ پوری شدت سے مسلط ہے۔ سردیوں میں چونکہ بجلی کا استعمال کم ہو جاتا ہے چنانچہ لوڈ شیڈنگ بھی کم رہی۔ مگر اب گرمی کا پارا چڑھتے ہی لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام کی زندگی اجیرن کررہا ہے۔ پنجاب اور بالائی علاقوں میں تو ابھی گرمی کی شدت کم ہے لیکن کراچی سمیت پورے سندھ میں مارچ ہی میں شدید گرمی پڑنے لگی ہے اور بجلی کی آنکھ مچولی کا آغاز ہوگیا ہے۔ ابھی یہ حال ہے تو مئی جون میں جانے کیا ہو۔ ایک طرف گرمی اور دوسری طرف بجلی سے محرومی غضب ڈھا رہی ہے اور اس پر حکمرانوں کے یہ دعوے کہ ہم نے لوڈ شیڈنگ ختم کردی۔ کراچی اور سندھ کے کئی شہروں میں درجہ حرارت ابھی سے 40ڈگری ہوگیا ہے۔ کے الیکٹرک تو شروع سے بے لگام ہے۔ اس نے مختلف علاقوں میں غیرا علانیہ لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ 18گھنٹے تک پہنچا دیا اور اس پر یہ دعویٰ کہ 60فیصد علاقے کو لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ کردیا ہے۔ وہ علاقے کون سے ہیں ؟ یہ تو کراچی کا حال ہے، سندھ کے کئی شہروں میں 16,16 گھنٹے بجلی غائب ہو رہی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ میٹرک کے امتحانات بھی شروع ہوگئے ہیں۔ امتحانی مراکز میں بجلی غائب اور گھروں میں امتحان کی تیاری بجلی کی عدم موجودگی میں مزید مشکل۔ کے الیکٹرک نے جن علاقوں کو مستثنیٰ قرار دیا ہے وہاں بھی 6,6گھنٹے لوڈ شیڈنگ کی اطلاعات ہیں۔ بجلی نہ ہونے سے پانی کی فراہمی بھی متاثر ہو رہی ہے۔ عوام کی جان پر کئی عذاب ہیں۔ اس صورت حال کے پیش نظر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ کے الیکٹرک کو چینی کمپنی کے ہاتھوں فروخت کرنے کی منظوری کو شہر سے لوڈ شیڈنگ سے مشروط قرار دے دیاجاتا اور یہ شرط عاید کردی جاتی کہ اگر چینی کمپنی نے فوری طورپر تمام ٹربائن چلاکر بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم نہ کی تو اس کامعاہدہ منسوخ اوراس کی اداکردہ رقم ضبط کرلی جائے گی ، لیکن ہمارے وزیر اعظم کو جو ابھی تک خود کو وزیر اعظم سمجھنے کے بجائے نااہل قرار دئے گئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا اردلی ہی سمجھتے ہیں عوام کے مسائل سے غالبا ً کوئی لگائو نہیں ہے اور وہ محض رسمی خانہ پری کے ذریعہ عام انتخابات تک حکومت چلانے کی حکمت عملی پر کارفرما ہیں،لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ غالباً یہ حقیقت فراموش کررہے ہیں کہ موجودہ حکومت نے اپنے گزشتہ ساڑھے4سالہ دور میں عوام کی بہبود کے لیے کچھ بھی کیا ہو لیکن انتخابات نزدیگ آنے کے بعد اگر ان کو اذیت میں مبتلا ہونا پڑرہاہے تو یہ اذیت حکومت کے سابقہ تمام کارناموں اور خدمات پر پانی پھیر دے گی اور عام انتخابات میں ووٹرز کو صرف لوڈ شیڈنگ کے حوالے سے جواب دینا ارباب حکومت کے لیے مشکل ہوجائے گا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں