مخصوص نشستیں مال غنیمت کی طرح تقسیم ہوئیں،پشاور ہائیکورٹ
شیئر کریں
مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران پشاور ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے ہیں کہ ایسا لگتا ہے جیسے مال غنیمت تقسیم ہوا ہو۔فیڈرل نوٹیفیکیشن کو ہائیکورٹ ختم نہیں کر سکتی ۔سنی اتحاد کونسل کی جانب سے مخصوص نشستوں کے لیے دائر درخواست پر سماعت پشاور ہائیکورٹ میں جسٹس اشتیاق ابراہیم کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے کی، جس میں جسٹس اعجاز انور، جسٹس ایس ایم عتیق شاہ، جسٹس شکیل احمد اور جسٹس سید ارشد علی شامل ہیں۔سماعت کے موقع پر اٹارنی جنرل، ایڈووکیٹ جنرل، الیکشن کمیشن کے وکیل، درخواست گزار وکیل اور دیگر فریقین کے وکلا، پیپلز پارٹی کے نیر بخاری، فیصل کریم کنڈی اور ایچ فاروق نائیک بھی عدالت میں موجود تھے۔وکیل درخواست گزار قاضی انور ایڈووکیٹ نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ انتخابی نشان کے حوالے سے پشاور ہائیکورٹ نے فیصلہ دیا اور سپریم کورٹ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا تو ہم سے نشان واپس لیا گیا اور سارے پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد تصور ہوئے۔ الیکشن میں کامیابی کے بعد آزاد امیدوار جیت گئے تو نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد ایک پارٹی کو جوائن کرنا ہے۔ آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا۔جسٹس اشتیاق ابراہیم نے استفسار کیا کہ کیا سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار الیکشن میں کامیاب ہوا، جس پر وکیل نے جواب دیا کہ سنی اتحاد کونسل کا کوئی امیدوار کامیاب نہیں ہوا۔ جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ ان کا جو چیئرمین ہے اس نے تو خود آزاد حیثیت سے الیکشن لڑا اور کامیاب ہوئے ہیں۔جسٹس سید ارشد علی نے ریمارکس دیے کہ آپ نے 21 فرروی کو مخصوص نشستوں کی لسٹ دی ہے، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہم نے سنی اتحاد کونسل کو جوائن کیا تو اس کے بعد لسٹ دی۔ جسٹس اشتیاق ابراہیم نے کہا کہ آئین میں جو مخصوص نشستیں دی گئی ہیں اگر ان کو خالی چھوڑا جائے تو پھر تو پارلیمنٹ مکمل نہیں ہوگی۔ وکیل نے کہا کہ آئین کہتا ہے کہ مخصوص نشستیں دوسری پارٹیوں کو نہیں دی جاسکتیں، یہ اگلے الیکشن تک خالی رہیں گی۔