میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
خطے میں صہیونی دجالی منصوبہ کلائمکس پر پہنچ چکا

خطے میں صہیونی دجالی منصوبہ کلائمکس پر پہنچ چکا

ویب ڈیسک
هفته, ۱۴ مارچ ۲۰۲۰

شیئر کریں

وطن عزیز کا حال دیکھیں کہ ایک شخص احتساب کا نعرہ لگاکر اقتدار میں آتا ہے لیکن اس ہی کی پارٹی میں سرنگیں لگا لی جاتی ہیں ، وطن عزیز میں سیاسی، سرمایہ کار اور جاگیردار مافیا اس قدر طاقتور ہے کہ اس کی موجودگی میں پاکستان کو بھارت جیسے دشمن کی بھی ضرورت نہیں۔ اس ملک میں رائج نظام اس ملک اور قوم کی کیسے جڑیں کھوکھلی کررہا ہے وہ سب کے سامنے عیاں ہے ۔ہمارا کس قسم کی دنیا سے واسطہ پڑ چکا ہے اس کا ہمیں احساس ہی نہیں۔۔آئیں پہلے اس موجودہ دنیا کی جانب۔

کیا مشرق وسطی میں دوبارہ امن کے دن آسکیں گے؟ کیا وسطی اور جنوبی ایشیا میں دوبارہ سکون ہوسکے گا؟ باقی دنیا دوبارہ سکون کا سانس لے سکے گی؟ کیا صرف دنیا کا موسم ہی بدل رہا ہے یا حالات بھی بدل چکے ہیں؟ نائن الیون کے ڈرامے سے پہلے کی دنیا کا تجزیہ کرلیں اور اس کے بعد کے حالات کو دیکھ لیں امریکہ سے لیکر جاپان تک انسانیت امن اور سکون کے نام سے نہ آشنا ہوتی جارہی ہے۔انسان دوسرے انسان کے درد سے غافل ہورہا ہے، شام، فلسطین، عراق، مقبوضہ فلسطین، مقبوضہ کشمیر ، بھارت، برما، مشرقی ترکستان اور جانے کہاں کہاں مسلمانوں پر دل پھاڑ دینے والے مظالم جاری ہیں لیکن انسانیت تو دور کی بات دیگر مسلمان بھی اپنی جگہ سے حرکت کرنے سے گریزاں ہیں زیادہ سے زیادہ سارا غصہ سوشل میڈیا پر نکال لیا جاتا ہے اس کے بعد تو کون اور میں کون۔۔بھارت میں کروڑوں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کو قومیت بل کے نام پر بے یار ومددگار کرنے کی پوری کوشش ہورہی ہے لیکن نہ مغرب کی نام نہاد انسانیت جاگتی ہے اور نہ اقوام متحدہ جیسے صہیونی ادارے کے کان پر جوں تک رینگتی ہے۔۔۔ ہاں اگر آج حماس کی جانب سے فائر کیا جانے والا کوئی راکٹ اسرائیل کی کسی یہودی آبادی پر جاگرے اور پندرہ بیس یہودی مارے جائیں تو پھر دیکھیں امریکہ یورپ سمیت دنیا میں کیسا کہرام مچتا ہے ۔حالیہ امریکہ ایران تنازعہ کے تناظر میں ایسا نظر آرہا ہے کہ امریکہ جلد ہی اپنے صہیونی دجالی اتحادیوں کے ساتھ مل کر ایسے حالات پیدا کرنے جارہا ہے جس میں ایران کو روایتی جنگ لڑنا پڑے گی۔ ایک منصوبے کے تحت عراق اور اس کے بعد شام میں ایران کو رسائی دی گئی تھی اب اس کی پسپائی کے دن قریب ہیں۔ اب امریکہ مشرق وسطی میں جو جنگ لڑے گا اس کا دائرہ صرف ایران تک محدود نہیں ہوگا بلکہ وہ باقی خلیجی ریاستوں تک اسے دراز کرکے تحفظ کے نام پر اپنا یا یوں کہہ لیں اسرائیل کا قبضہ مستحکم کرائے گا۔ اس سلسلے میں اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کی دوڑ اب پرانی بات ہوچکی اب تو اسرائیلی دوحہ، ریاض، قاہرہ، بغداد ، بحرین عمان اور جانے کہاں کہاں دندناتے پھرتے ہیں عرب ریاستوں کی جانب سے اسرائیلی حکومت اور عوام کو خیر سگالی کے کھلم کھلا پیغامات دیئے جاتے ہیں۔ افسوس عرب حکومتوں کی اشیرباد سے عوامی سطح پر اب یہ بھی کہا جارہا ہے کہ مشرق وسطی میں جس طرح عربوں کا حق ہے اسی طرح یہود کا بھی حق بنتا ہے نعوذ باللہ۔ اس عوامل کے تناظر میں صاف نظر آرہا ہے کہ عرب تو اپنے دفاع کے اب قابل نہیں رہے اور وہ گھڑی اب باقی عربوں کے سر پر بھی آن کھڑی ہوئی ہے جس کے بارے میں آقائے دو جہاں ﷺ صحیح حدیث شریف ہے کہ ـام المومنین ام حکم زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول پاک ﷺ گھبرائی ہوئی حالت میں تشریف لائے اور فرمایا: لا الہ الا اللہ، ویل للعرب من شر قد اقترب، فتح الیوم ردم یاجوج وماجوج مثل ھذہ وحلق باصبعیہ الابھام والتی تلیھا ۔ قلت یا رسول اللہ انھلک وفینا الصالحون ؟ قال : ’’نعم اذا کثرالخبث‘‘ (متفق علیہ):
ترجمہ : ام المومنین ام الحکم زینب بنت جحش رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ رسول پاک گھبرائی ہوئی حالت میں تشریف لائے اور فرمایا ’’ لا الہ الا اللہ، عربوں کے لیے مصیبت ہے اس شر سے جو قریب آلگا، آج یاجوج ماجوج کی دیوار میں اتنا سوراخ ہوگیا ہے اس کے بعد آپ ﷺ نے اپنے انگوٹھے اور اور انگلی مبارک سے سوراخ بنا کر دکھایا، میں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ کیا ہم ہلاک ہوجائیں گے جبکہ ہمارے درمیان نیک لوگ بھی ہیں ، فرمایا ہاں جب الخبث (گناہ)کی کثرت ہوجائے گی‘‘۔ اس حوالے سے متعدد بار ہم پہلے بھی اپنی تحریروں بیان کرچکے ہیں کہ علم کی کمی کی وجہ سے ہمارے ہاں بہت سے حلقے یاجوج ماجوج کو کوئی افسانوی کردار سمجھتے ہیں لیکن ایسا بالکل نہیں ہے یہ کیسپین اور بحیرہ اسود کے درمیانی علاقے میں آباد ایک بت پرست اور انتہائی جنگجو قوم تھی جس کا یہود کی تاریخ کے علاوہ قرآن کریم میں سورۃ کہف میں تفصیلا ذکر موجود ہے اسی کو روکنے کے لیے فارس کے توحید پرست بادشاہ ذوالقرنین نے باقی دنیا کو ان کے شر سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک بڑی آہنی دیوار تعمیر کرائی تھی اور ساتھ قراں کریم میں یہ بھی درج ہے کہ اس نے اس دیوار کے مکمل ہونے کے بعد یہ کہا تھا کہ یہ سب اللہ رب العزت کی توفیق کی بدولت ہے اور جب وہ رب چاہئے گا یہ دیوار گر جائے گی۔ یہ دیوار تقریبا 516ق م میں تعمیر ہوئی تھی اور جس وقت تقریبا بارہ سو بعد جس وقت رسول پاک ﷺ کا زمانہ آچکا تھا اس دیوار کے ساتھ بحیرہ اسود اور بحیرہ قزوین کے کناروں سے پانی دو ہٹنا شروع ہوگیا تھا جس کی وجہ سے اس درے میں شگاف پڑنا شروع ہوئے اور اس کے بعد ہی اس دیوار میں توڑ پھوڑ شروع ہوگئی تھی اورپھر یہاں سے یاجوج ماجوج کی قوم نے نکل کر قزوین کے علاقے میں ایک ریاست تشکیل دی چونکہ یہ لوگ اس وقت کے عالمی تجارتی روٹ پر بیٹھے تھے اس لیے ان کے تعلقات شمالی عراق میں موصل کے ذریعے وہاں بسنے والے یہودیوں سے بھی قائم ہوگئے تھے یہ وہ متمول یہودی تاجر کا گروتھا جنہوں نے ذوالقرنین کے بیت المقدس فتح کرنے کے بعد بھی واپس جانے سے انکار کردیا تھا کیونکہ یہاں ان کے بڑے تجارتی مفادات تھے۔ ساتویں صدی ہجری یعنی عناسی خلیفہ ہارون رشید کی خلافت کے دوران ایک ایسا واقع رونما ہوا تھا جس نے اس قوم کی شناخت بدل تھی یہودی تاجروں سے قریبی میل جھول کی وجہ سے انہوں نے اپنے بادشاہ سمیت پوری قوم نے یہودیت اختیار کرلی تھی۔ کیونکہ انہیں ایک طرف سے یعنی مشرق کی جانب سے آرتھوڈکس روسی عیسائی ریاست کا سامنا تھا جس نے ان کے لیے مشکلات کھڑی کررکھی تھیں مغرب کی جانب سے انہیں کیتھولک عیسائیت سے جنگیں کرنا پڑتی تھیں جبکہ جنوب میں اسلامی خلافت تھی جس سے بھی ان کی متعدد بار جنگیں ہوئیں لیکن یہ اس قدر جنگجو اور چلاک تھے کہ کوئی ان پر مکمل غلبہ حاصل نہ کرسکا تھا لیکن تین اطراف میں گھری اس قوم نے مسئلے کا حل یہ نکالا کہ یہودیت قبول کرلی تاکہ خود کو بھی آسمانی مذہب سے وابستہ کرکے دیگر آسمانی مذاہب کی مملکتوں کے درمیان سکون سے رہ سکے۔ انہیں مغربی تاریخ میں ’’اشکنازی‘‘ یہودی کہا جاتا ہے حیرت کی بات یہ ہے کہ یہودی ہونے کے لیے سامی النسل ہونا ضروری ہے لیکن یہ یہودی تمام کے تمام آریائی نسل سے ہیں۔۔!! روسی حملوں سے تنگ آکر سترویں صدی عیسوی میں مشرقی یورپ کی جانب ہجرت کی تھی اور پھر وہاں پولینڈ میں اپنا اژررسوخ جماکر یہ گرو درگرو مغربی یورپ اور اس کے بعد امریکہ میں وارد ہوئے جہاں انہوں نے بڑے بڑے قرضے دینے والے مالیاتی ادارے اور بینک قائم کیے یورپ میں بینک آف انگلینڈ، فرانس ، ہالینڈ، اسپین اور دیگر یورپی ملکوں میں بینک قائم کرنے کے بعد امریکہ میں ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف جیسے صہیونی ادارے قائم کیے جنہوں نے آج تمام عالم انسانیت کی معاشیات کو اپنے پنجہ میں دبوچ لیا ہے ۔ انہی کے لیے اسرائیل کی صہیونی ریاست تشکیل دی گئی تھی اور اب اسی صہیونی دجالی ریاست کے عالمی اقتدار کے لیے تمام مشرق وسطی کو آگ میں جھونک دیا گیا ہے۔ اوپر بیان کردہ دنیا کی یہ حالت کیا نائن الیون کے بعد ہی ہوئی ہے یا یہ سلسلہ ماضی بعید سے جاری ہے؟ اس وقت مسلم ممالک میں اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لیے جو دوڑ لگوائی گئی ، اس کے نتائج تو آنے والا مورخ ہی بیان کرسکے گا مگر ماضی قریب کی مثالوں میں ترکی اور مصر ’’اسرائیل دوستی‘‘ کا منہ بولتا ثبوت ہیں ۔ مسلم امہ کو یہ تاثر دیا گیا کہ اگر اسرائیل کے ساتھ دوستی ہوجائے تو ان کے ملکوں میں گویا کہ دودھ کی نہریں جاری ہوجائیں گی!! کیونکہ یہودی اس وقت دنیا کی اقتصادیات پر مکمل غلبہ حاصل کرچکے ہیں۔اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی ڈرامائی دوڑ اس وقت شروع کی گئی جب یاسر عرفات کو راستے سے ہٹایا جاچکا تھاکیونکہ یاسر عرفات کی موجودگی میں شاہد ایسا ممکن نہ ہوتا ۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس وقت دنیا کی اقتصادیات پر عالمی صہیونیت کا قبضہ ہوچکاہے ، نہ صرف تمام دنیا بلکہ امریکہ اور برطانیہ کے عوام بھی غیر محسوس انداز میں یرغمال بنائے جاچکے ہیں انہیں صرف وہی کچھ سجھائی دیتا ہے جو ’’کنٹرولڈ‘‘ میڈیا کے ذریعے انہیں دکھایا جاتا ہے ۔عالمی صہیونیت اور اس سے وابستہ ’’باطنی یہودی فرقوں‘‘ کے حوالے سے کبھی مسلم دنیا میں علماء نے آگاہی کا کام نہیں کیا اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ’’علمائ‘‘ اس قسم کے علم سے بلکل نابلد ہیں پاکستان جیسے مسلم ملک جس کی بنیاداسلامی فکراور نظریات پر مبنی ہے اسے بدقسمتی سے ایسے سکالروں کی بڑی تعداد میسر نہ آسکی جو انہیں اسلام کا بدلتے حالات میں نفاذ ممکن کردکھاتے یوں پوری قوم روایتی قسم کے مولویوں کے ہاتھوں یرغمال بنی رہی جن کا ’’علم‘‘ ان کی لگی لپٹی کتابوں سے آگے مار نہیں کرسکتا تھا۔اس کے بعد سیاسی علماء کا نمبر آتا ہے جن کی وضع قطع تو علماء جیسی ہے مگر علم سے زیادہ ان کا عمل دخل سیاست میں ہے ۔ کیا ان سیاسی علماء کی کوئی علمی تحقیق منظر عام پر آچکی ہے؟ کیا کسی علمی اور فقہی معاملے میں انہیں نے جمود کا شکار امت کو ہلانے کی کوشش کی؟ تو پھر آج ان کو علماء کیوں کہا جائے؟ صرف ان کی وضع قطع کی بنیاد پر علم کی دلیل حاصل کی جائے گی ؟ اسلام سے زیادہ اسلام آباد سے محبت کرنے والے ان علماء کی ہی لاعلمیاں ہیں کہ آج اسرائیل جیسا ناجائز وجود اپنے آپ کو منوانے کی بہترین پوزیشن میں آچکا ہے۔ امریکہ جیسا اسرائیلی پشتی بان مسلم ممالک کو ڈرا دھمکا کر ایسے مقام پر لے آتا ہے کہ یہ ممالک اسرائیل سے تعلقات میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں، جبکہ مصر اور ترکی جو سالہا سال سے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات میں منسلک ہیںان کی اقتصادی حالت بہتر ہونے کی بجائے پہلے سے زیادہ خراب ہوتی گئی۔لیکن ترکی میں طیب اردگان جیسے لیڈر نے ترکی کو اس خسارے کی دلدل سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی ہے اور شاید واحد مسلم لیڈر ہیں جو اسرائیل کو للکار کر اس کے مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔

دوسری جانب اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اسی مصر میں ایسے ادارے اور علماء و اسکالر موجود ہیں جنہوں نے شر کے اس طوفان کے ساتھ خیر کے کئی پہلو تلاش کررکھے ہیں اس سلسلے میں عالم عرب کو باقی مسلم دنیا پر فوقیت حاصل ہے کہ وہاں صہیونیت سے متعلق خاصہ تحقیقی کام ہوچکا ہے اور اب عرب سکالر پابندیوں کے باوجود ان کے شیطانی منصوبوں کوبے نقاب کرنے میں زیادہ دقت محسوس نہیں کرتے۔ رسول پاک ﷺ کی حدیث شریف کے مطابق اس وقت آدھے سے زیادہ مشرق وسطی میں آگ لگ چکی ہے عربوں پر مصیبت کا دور جاری ہے باقی عرب ریاستوں کو بھی خطرات لاحق ہیں کہ ایران سے جنگ کی آڑ میں ان عرب ملکوں کی آزادی سلب نہ ہوجائے اسی خوف کی بناپر جو عرب حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ اسرائیل کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑاکر وہ محفوظ رہ جائیں گے احمقوں کی دنیا میں رہتے ہیں۔ ویل للعرب من شر قد اقترب۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں