میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بزم بے حیا

بزم بے حیا

ویب ڈیسک
بدھ, ۱۴ فروری ۲۰۲۴

شیئر کریں

سرکارِ دو عالمۖ کا ارشاد ہے کہ ”بے حیا جو جی چاہے کرے”۔ بے حیا نظام کا بندوبست بھی ہر حد عبور کر چکا۔ یہ ڈھٹائی الیکشن کمیشن ہی دکھا سکتا ہے کہ انتخابات کو شفاف کہے۔ اعلامیہ جاری ہوا جس میں فرمایا گیا کہ ”انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو یکسر مسترد کرتے ہیں، اکا دکا واقعات کے تدارک کے لیے شکایات پر فوری فیصلے بھی کیے جا رہے ہیں”۔ یہ وہ الیکشن کمیشن ہے جن پر ووٹوں کی گنتی کا بوجھ تھا جو 70 سے 80 حلقوں کے نتائج کی پھیر بدل کو ”اکا دکا” واقعات قرار دے رہا ہے۔ یہی وہ انتخابات ہے جسے نواز شریف کی ”بزمِ بے حیا” نے 8 فروری کے صاف وشفاف اُفق سے انتخابات کے ایسے سورج کے طلوع ہونے کی صورت میں دیکھا ہے، جس پر کسی 2018 کے آسیب نے سایہ نہ کر رکھا تھا۔ نواز شریف کی ”بزم بے حیا” سے ایک آواز نے چھ برس قبل کے ”جری سپوتوں” کو یاد کرتے ہوئے اُن پر ”حیا باختہ” کی پھبتی بھی کسی ہے۔ مہرباں ساعتوں میں جن کو اب ”حیا باختہ ” کردار کہا جا رہا ہے، یہ وہی تھے جو 2018 ء میں این اے 71 سیالکوٹ میں عثمان ڈار کے خلاف خواجہ آصف کے کام آئے تھے۔ یہ وہی تھے جن کے بار ے میں اب راز کھلا ہے کہ وہ تب عمران خان کی نشستوں کو بڑھا نہیں گھٹا رہے تھے، یہ وہی ہیں جنہوں نے سندھ  زرداری کے حوالے کر دیا تھا۔ یہ وہی تھے جنہوں نے کراچی میں تحریک انصاف کی 16 نشستوں کو تب بھی 14 پر محدود کیا تھا۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے تب بھی جماعت اسلامی کے مینڈیٹ کو چھینا تھا۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے تب بھی اپنے فرماں بردار ”جی ڈی اے” کو آصف علی زرداری کے رحم و کرم پر چھوڑ د یا تھا۔ یہ وہی ہیں جن کی سرپرستی کے بغیر تحریک عدم اعتماد پیش نہ کرنے کا اعلانیہ اظہار ”پروفیسر” احسن اقبال نے جگمگاتی ٹی وی اسکرین پر کیا تھا، یہ وہی ہیں جنہوں نے 8 مارچ 2022ء کووزیراعظم عمران خان کے خلا ف تحریک عدم اعتماد کی سرپرستی کی تھی۔ یہ وہی ہیں جن سے” چھوٹے شریف” نے چھپ چھپ کر ملاقاتیں کی تھیں۔ یہ وہی ہیں جن کے سسرالی رشتہ دار لندن کے پرفضا مقامات اور اُن فلیٹوں میں (جس کی رسیدیں کبھی شریف خاندان دکھا نہیں سکا) ملاقاتیں کرتے رہے، ان ہی ملاقاتوں میں وہ منصوبے بنائے گئے، جس نے پاکستان کی سیاست میں مایوسی کو بو دیا، مجرمانہ روش کی سرپرستی کے خدوخال طے ہوئے، پارلیمنٹ میں اُٹھا پٹخ سے وفاداریوں کی خرید و فروخت کے دھندے شروع ہوئے اوراسلام آباد کے سندھ ہاؤس کی میزوں پر نوٹوں کو سجا کر ارکان سے سودے پٹائے گئے۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے تحریک عدم اعتماد کامیاب کرائی۔ اجلاس میں تاخیر پر جیل کی گاڑیاں اسمبلی کے باہر کھڑی کروائیں۔ یہ وہی ہیں جنہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف مختلف خانہ ساز کہانیوں کو پھیلا کر شریف خاندان کے لیے راستے ہموار کیے۔ نوازشریف کی ”بزمِ بے حیا” نے اب انہیں طنز سے بھری ”جری سپوتوں” کی ترکیب سے یاد کیا ہے اور تسلی نہ ہونے پر ”حیا باختہ” کی پھبتی بھی اُچھالی ہے۔ اگر یہ تمام احسانات بھی اُنہیں آج تحقیر آمیز الفاظ سے یاد کرنے کے سزاوار بناتے ہیں جو مناصب پر نہیں رہے، تو یہ شریف خاندان کے کردار کے عین مطابق ہے۔ کوئی اس بات کو پہچانتا ہو یا نہ ہو، مگر راجہ ریاض اسے خوب جانتے ہیں۔ عمران خان کی حکومت گرانے میں اپنا کندھا فراہم کرنے کے بعد جب بھلا دیے گئے تو راجہ ریاض نے اس کردار کی وضاحت میں وہ شہرہ آفاق فقرہ کہا تھا جس میں لہجے کی گھلاوٹ کے ساتھ کسبی کی حیا کا سایہ بھی تھا کہ ”مطلب نکل گیا تو’ پشانتے’ بھی نہیں”۔ آج مناصب سے سرفراز بھی کل اسی طرح نشانہ ہوں گے کہ ابھی بھی تمام فوائد سمیٹنے کے بعد یہ پورا طبقہ ان کی حمایت میں ایک لفظ بولنے کو تیار نہیں۔ زیادہ دن نہیں گزرے، عین انتخابات سے چند روز پیشتر شہباز شریف نے کہا تھا کہ ”اگر میں اسٹیبلشمنٹ کا آدمی ہوتا تو جیل کبھی نہ جاتا”۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد سولہ ماہ کی حکومت میں سب سے اعلیٰ منصب کی ”مہربانی” کے باوجود اور حالیہ انتخابات میں تمام مہربانیوں کو سمیٹنے والے اگر اتنی حیا بھی نہیں رکھتے کہ اپنے سرپرستوں سے تعلق کو تسلیم کرتے ہوئے اُن قوتوں کو کچھ سیاسی حمایت فراہم کریں جوخود ان کو حکومت میں لانے کے لیے ملک بھر میں رسوا ہوئے تو کل جب یہ اپنے مناصب پر نہ ہوں گے تو کن الفاظ سے یاد کیے جائیںگے؟ راجہ ریاض کے الفاظ میں یہ ”پشانیں ”(پہچانیں) گے بھی نہیں۔
ابھی تو ان موٹے پیٹوں کے لشکر اور نوازشریف کی ”بزم بے حیا ”کا ہدف حکومت بنانا ہے۔ جس کے لیے انتخابات کے عمل کو الیکشن کمیشن کی طرح ٹھیک باور کرانا مجبوری ہے۔ چنانچہ تمام دسترخوانی قبیلے کو حرکت میں لایا گیا ہے جو نون لیگ کو دھاندلی سے پڑنے والوں ووٹوں کا شمار باقی اتحادی جماعتوں کی گنتی میں شامل کرکے یہ باور کرانے پر تُلے ہیں کہ تحریک انصاف کے خلاف کتنا ووٹ پڑا ہے۔ دستر خوانی قبیلے کی خدمت میں عرض ہے کہ تحریک انصاف کو ووٹ 8 فروری کو پڑا ہے اور باقی جماعتوں نے ووٹ 9 فروری کو لیے ہیں۔ باقی جماعتیں تو فارم 47 کی حد تک تو ابھی بھی مسلسل ووٹ حاصل کر رہی ہیں۔  دستر خوانی قبیلے کے حساب کتاب کی بات دوسری ہے جو ووٹوں کی گنتی نوالوں کی تعداد سے کرنے کی عادی ہے۔
دسترخوانی قبیلے کو کون احساس دلائے گا کہ پاکستان کی تاریخ کے بارہویں انتخابات ماضی کے رجحانات کے غماز نہیں، نئے رجحانات کی تخلیق کے آئینہ دار ہیں۔ جس میں عمران خان کی کامیابی کا جائزہ روایتی پیمانوں سے نہیں لیا جا سکتا۔ عمران خان کی کامیابی کو انتخابی نشستوں کے اُس ہندسے سے بھی  جانچا نہیں جا سکتا جو 70 سے 80 نشستوں کے نتائج کی ہیر پھیر کے باوجود اب بھی سب سے زیادہ ہیں۔ جس کے ووٹوں کی تعداد حقیقی ووٹوں کی گنتی میں تمام جماعتوں کے مجموعی ووٹوں سے بھی بہت زیادہ ہے۔ جس کے آزاد امیدواروں کے چہرے نہ پہچانے جانے کے باوجود فتح یاب ہوئے۔ درحقیقت یہ سب کچھ اس کے باوجود ہوا کہ عمران خان کے خلاف ایسے اقدامات اُٹھائے گئے جو ماضی میں کبھی کسی جماعت کے خلاف نہیں اُٹھائے گئے۔ مسلم لیگ ن  کے ساتھ 2018 ء میں جو کچھ ہوا، اس کا موازنہ 2024ء کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ساتھ روا سلوک سے نہیں کیا جا سکتا۔ ایسا کب ہوا کہ پورے کے پورے انتخابی عمل کو انتخابات سے پہلے ہی یرغمال بنا لیا گیا ہو، ایسا کب ہوا کہ انتخابات سے قبل سب سے مقبول جماعت کا شیرازہ ہی بکھیر دیا گیا ہو۔ ایسا کب ہوا کہ ایک جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے ایسے محروم کر دیا گیا ہو کہ اُس کے امیدواروں کے پاس کوئی دوسرا اجتماعی نشان بھی نہ رہا ہو۔ ایسا کب ہوا کہ امیدواروں کو اپنے انتخابی فارم لینے سے روکا جاتا رہا ہو، ایسا کب ہوا کہ امیدواروں سے انتخابی فارم ہی وصول نہ کیے جاتے ہوں، ایسا کب ہوا کہ امیدوار انتخابی مہم تک نہ چلا سکتے ہوں۔ ایسا کب ہوا کہ انتخابات لڑنے والے امیدوار روپوش رہنے پر مجبور ہوں، ایسا کب ہوا کہ انتخابات کے روز پورے کے پورے انتخابی عمل کو دھاندلی کے لیے یرغمال بنا لیا گیا ہو۔ ایسا کب ہوا کہ رات گئے فارم 45 سے ہٹ کر فارم 47 الگ بنا لیے گئے ہو۔ ایسا کب ہوا کہ پاکستان میں ہارنے والوں کے متعلق جیتنے والے کہہ رہے ہوں کہ ہم نہیں وہ جیتے ہیں۔ ایسا کب ہوا کہ الیکشن کمیشن ہارنے والے امیدواروں کو تحریک انصاف کے خلاف جیت دلانے کے لیے اُنہیں تیار کر رہا ہو کہ وہ جیتے ہیں اور امیدوار کہہ رہے ہوں کہ وہ ہارے ہیں۔ مگر یہ الیکشن کمیشن ہے اور ایک بزم بے حیا جو ان انتخابات پر شفافیت کی مہر لگانے پر تُلے ہیں۔ سرکارِ دو عالمۖ نے نکتہ واضح کر دیا ”بے حیا جو جی چاہے کرے”۔
٭٭٭
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں