اللہ سے دوستی
شیئر کریں
مسلمانوںکی تاریخ بڑی خوشگواربھی ہے ،المناک بھی،اس میں ایسے لو گ بھی ہیں جن کو انپوں نے ہی عبرت کا نشان بناڈالا کچھ حالات کے رحم و کرم کا شکارہوگئے اس تاریخ میں محبت کی کہانیاںبھی ہیںاور سبق آموز باتیں بھی ہماری تاریخ میں بہت بڑا خوبصورت نام عبداللہ بن زید رحمتہ اللہ علیہ کا ہے۔ آپ نے نہ جانے کیوں ساری زندگی نکاح نہیں کیا، جوانی گزر گئی بڑھاپا آیا وہ ایک دن بیٹھے کچھ مبارک ا حادیث پر غوروفکرکررہے تھے کہ انہوںنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ِ ذیشان پڑھا جس کا مفہوم یہ تھا کہ: جنت میں کوئی اکیلا نہیں ہو گا جو نکاح کی عمر میں نہیں پہنچا یا پہنچا بھی تو کسی وجہ سے نہیں ہوا اور وہ مسلمان ہی مرا تو اللہ مسلمان مردوں اور عورتوں کا جنت میں نکاح کر دے گا۔ وہ اس حدیث پاک پر غورکرنے لگے تو ان کے پریشان دل میں یہ خیال آنافطری بات تھی کہ دنیامیں تو میں نے نکاح ہی نہیں کیا تو اس حدیث کی روشنی میں جنت میں میری بیوی کون ہو گی ؟
عبداللہؒ بن زید نے اسی وقت دعا کی کہ یا اللہ مجھے دکِھا تو سہی جنت میں میری بیوی کون ہو گی؟ کون جنت کی ساتھی ہوگی میں یہ جاننے کے لئے بڑابے چین ہوں
ان کی پہلی رات دعا قبول نہیں ہوئی کوئی اشارہ ۔۔کوئی استعارہ نہیں ملا دوسری رات بھی عبداللہ بن زید کی دعا قبول نہیں ہوئی تیسری رات پھر دعا کی اسی رات وہ خواب میں کیا دیکھتے ہیں ایک کالے رنگ کی عورت نظرآئی اس کالے رنگ میں بھی عجب ملکوتی حسن تھا اس نے ایک مسکراتے ہوئے کہا میں حضرت بلال ؓ حبشی کے دیس کی میمونہ ولید ہوں اور آج کل بصریٰ میں رہتی ہوں ۔
پوشیدہ اسرار حل ہوگیاعبداللہؒ بن زید کی اسی وقت آنکھ کھل گئی یہ تہجد کا وقت تھا انہوں نے نوافل پڑھے نماز فجر باجماعت ادا کی اور سواری لے کر بصریٰ چلے گئے لوگ ان کے متعلق جانتے تھے کیونکہ عبداللہؒ بن زید کے علم و دانش کا بڑا چرچا تھا وہاں لوگوں نے ان کا بڑا استقبال کیا شناسا ئوں نے استفسارکیا حضرت بتائیں بغیر اطلاع کیسے آنا ہوا ؟خیریت تو ہے؟
آپ نے سب کے سوالوںکو نظراندازکرکے انہی پر سوال کرڈالا یار یہ تو بتاؤ یہاں کوئی میمونہ ولید بھی رہتی ہیں کیا؟
لوگوں نے بہت حیران ہو کر پوچھا حضرت آپ اتنی د ور سے محض میمونہ ولید سے ملنے آئے ہیں
آپ نے اثبات میں سرہلاکر فرمایا کیوں میں اْس سے نہیں مل سکتا ؟
ایک نے عرض کی حضور آپ اسے کیسے جانتے ہیں؟
عبداللہؒ بن زید نے کہا اس بات کو چھوڑو میں اسے کیسے جانتاہوں بس یہ بتائو کہ یہاں کوئی میمونہ ولید بھی رہتی ہے ان کے لہجے میں اشتیاق تھا جیسے وہ اس کے متعلق جاننے کے لئے مضطرب ہوں۔بے چین ہوں۔
ایک نے ترنت کہا حضوروہ تو دیوانی ہے دیوانی ۔
دوسرا بولالوگ اْسے پتھر مارتے ہیں وہ لہولہان ہوجاتی ہے تو پھر نہ جانے کہاں بھاگ کر چھپ جاتی ہے ۔
تیسرا بولا نہ جانے کیا چیزہے وہ کالی کلوٹی۔۔۔
عبداللہ بن زیدؒنے نرمی سے ان سے پوچھا لوگ کیوں اسے مارتے ہیں؟۔
‘‘ حضور ۔ ایک بزرگ نے کہا جناب وہ کام ہی ایسے کرتی ہے لوگوںکو اس پر غصہ آجاتاہے
ایک بولا عجیب عورت ہے ۔۔ کوئی رو رہا ہو تو اسے دیکھ کر وہ ہنسنے لگتی ہے اور کوئی ہنس رہا ہو تو رونا شروع کر دیتی ہے
ایک باوقار شخص نے کہا محترم وہ اجرت پر پیسے لیکر لوگوں کی بکریاں چراتی ہے پگلی کہیں کی۔۔ آج بھی وہ ہماری بکریاں لیکر جنگل میں گئی ہے آپ آرام فرمائیں عصر کے بعد آ جائے گی آپ مل لیجیے گا۔
عبداللہ بن زیدؒ نے فرمایا عصر کو ابھی کافی وقت ہے یہ بتائووہ کس سمت گئی ہے؟
لوگوں نے سمجھایا کہ حضور جنگل نہ جائیں بہت خوفناک اور گھنا جنگل ہے آپ نہ جائیں تھوڑی دیر بعد تو وہ خود آجائے گی تو مل لیجئے گا۔
عبداللہ بن زید نے فرمایا تم صرف یہ بتادو وہ کس طرف گئی ہے میں خود ڈھونڈ لوں گا۔
لوگوں نے ناچار راستہ بتادیا ایک دو تو ساتھ جانے کے لیے بھی تیارہوگئے لیکن انہوں نے منع کردیا عبداللہ بن زیدؒ جوں جوں جنگل کے قریب آتے گئے واقعی خوفناک اور گھناہوتاچلاگیا جنگل میں جنگلی جانوروں کی بہتات تھی قدم قدم پر کوئی نہ کوئی جانور کھڑادکھائی دیتا انہوں نے ایک لمبا سا ڈنڈہ اٹھالیا وہ سوچنے لگے یقینا میمونہ ولید کوئی عام عورت نہیں ہو سکتی میں قربان جاؤں اس عورت کی مردانگی پر وہ اس خوفناک جنگل میں کس جواں مردی طرح بکریاں چرا رہی ہے لگتا ہے اس نے پگلی ہونے کا ڈھونگ رچارکھاہے کیا اسے شیر،چیتے،بھیڑئیے،سانپ بچھو سے کوئی ڈرنہیں لگتا یقیناً وہ عام خاتون نہیں
ہو سکتی جوں جوں وہ سوچتے جاتے ان کے دل میں میمونہ ولید بارے تجسس بڑھتاچلاگیا کہ اتنے خونخوار جانور بکریوں کو نقصان نہیں پہچاتے ہوں گے وہ سوچنے لگے اتنے درندے ہیں سارے مل کر حملہ کر دیں تو کیا کرے گی آخر یہ اکیلی عورت کس کس کو روکے گی؟
عبداللہ بن زیدؒ چلتے گئے آخرکار وہ جگہ آہی گئی جہاں ایک عورت موجود تھی جس میں میمونہ ولید کی ساری نشانیاں اتم تھیں انہوںنے ادھر ادھردیکھا تو منظر حیران کردینے والا تھا انہیں یقین ہی نہیں آیاکوئی اور کہتاتو یقیناًعبداللہ بن زیدؒ اسے فاترالعقل قراردے دیتے لیکن جاگتی آنکھوں سے جو دیکھا اس پربھلا وہ کیسے یقین نہ کرتے ۔ اسے چہار جانب کئی شیر نظر آئے جو بکریوں جیسے بے ضرر لگ رہے تھے
میمونہ ولید جنگل میں جائے نماز بچھا کر نوافل پڑھ رہی تھی یقیناًبکریاں چرانا تو بہانہ تھا اس کا مطلب تھا لوگوں سے کنارہ کشی ،عبادت کے لئے وقت نکالنا عام لوگ یہی سمجھتے تھے وہ سارا دن بکریاں چراتی ہے لیکن میمونہ ولیدبکریاں نہیں چرا رہی تھی۔ وہ تو نماز پڑھ رہی تھی ان کے دل میں خیال آیا پھر بکریاں کون چرا رہا ہے بکریوں کی تو فطرت ہے وہ ایک جگہ نہیں رکتیں کہیں اِدھر جاتی ہیں کہیں اْدھر آپ فرماتے ہیں کہ میمونہ نماز پڑھ رہی تھی اور شیر بکریاں چرا رہے ہیں بکریاں چر رہی ہیں شیر انکے اردگرد گھوم رہے ہیں عجیب منظرتھا اگر کوئی بکری بھاگتی ہے تو شیر اْسے پکڑ کر واپس لے آتا ہے لیکن کہتا کچھ نہیں۔عبداللہؒ بن زید حیران و پریشاں کھڑے تھے کہ یہ کیسے ہو گیا ہے؟
یہ توفطرت کے خلاف ہے لوگ کہتے ہیں فطرت نہیں بدلتی یہ شیروں اور بکریوں میں یاری کیسے ہو گئی ؟ وہ یہ سارا معاملہ دیکھ کر دنگ رہ گئے حیران و پریشاں کھڑے میمونہ ولید کو تک رہے تھے کہ ایک شیریں آواز نے ان کو چونکا دیا ” اے عبداللہ ملنے کا وعدہ تو جنت میں تھا آپ یہاں آ گئے ”
عبداللہ بن زید کو یہ بھی پتہ نہیں چلا کہ کب میمونہ ولید نے نماز ختم کر دی اور اب وہ مخاطب تھی عبداللہ بن زید حیران رہ گئے کہ اس سے پہلے تو کوئی ملاقات بھی نہیں ہوئی تو پھر میمونہ ولید کو میرا نام کیسے پتہ چل گیا؟
عبداللہ بن زیدنے کایہی سوال لبوںپر آگیا اِس سے پہلے ہمارا کوئی رابطہ نہیں ،کبھی ملاقات نہیں ہوئی تو میرا نام کیسے پتہ چلا
میمونہ ولید نے مسکراکرکہا عبداللہ جس رات کو تجھے میرے بارے اشارہ ملا اْسی رات خواب میں مجھے آپکے خیالات آشکارہوگئے تھے ۔
عبداللہ بن زید نے حیرانگی سے دریافت کیا جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ حیران کیا وہ یہ تھا کہ جانوروں کی فطرت کیسے بدلی ؟ میمونہ ولید بتاؤ یہ شیروں نے بکریوں کے ساتھ یاری کیسے کر لی یہ تو غذا ہے انکی اگر شیر بکریوں کے ساتھ یاری لگالیں تو کھائیں گے کیا؟
میمونہ ولید نے کہاجب سے میں نے اپنے رب کی اطاعت کر لی ہے اْس دن سے اِن شیروں نے میری بکریوں کے ساتھ صلح کر لی ہے۔ تم ہی بتائو کیا یہ رب کے لیے ممکن نہیں۔
اب تم جائو۔۔ اس نے مضبوط لہجے میں کہا میری التجاہے کہ دوبارہ یہاں کبھی نہ آنا اور کسی کو میر بارے کچھ نہ کہنا عبداللہ میرے ساتھ وعدہ کرو۔
عبداللہ بن زید نے مسکراکر سر اثبات میں ہلایا اور نمنیدہ آنکھوں کے ساتھ وہاں سے لوٹ آئے وہ سوچ رہے تھے جو اللہ سے دوستی کرلیتاہے اس کے لئے ناممکن بھی ممکن ہوجاتاہے میمونہ ولید کے مثال ان کے سامنے تھی کیسے شیر بکریوںکی حفاظت کررہے تھے۔
ْ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔