میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کمانڈر سیف گارڈ، بچوں میں دمہ پھیلانے کا ذمہ دار، تولیدی صلاحیت کا بھی قاتل

کمانڈر سیف گارڈ، بچوں میں دمہ پھیلانے کا ذمہ دار، تولیدی صلاحیت کا بھی قاتل

ویب ڈیسک
جمعرات, ۱۴ فروری ۲۰۱۹

شیئر کریں

(رپورٹ: باسط علی) گزشتہ سال ایریزونا اسٹیٹ یونیورسٹی کے محققین نے اینٹی بیکٹریل صابن میں استعمال ہونے والے خام مال ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن کی افادیت کے حوالے سے ایک تحقیق کی۔ اس تحقیق کے مطابق اینٹی بیکٹیریل صابن میں موجود درج بالا کیمیائی مادے بیکٹریا اور دیگر جراثیم کے خاتمے کے لیے عام صابن سے بھی گئے گزرے ہیں لیکن ٹرائی کلو کاربن سے بننے والے اینٹی بیکٹریل صابن کو استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد کررڑوں میں اور صرف امریکا میں ہی اینٹی بیکٹریل صابنوں کی فروخت ایک ارب ڈالر سے زائد تھی۔


پاکستان میں پراکٹر اینڈ گیمبل، ریکٹ بینکیسر اور یونی لیور ایف ڈی اے(فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن) کی واضح ہدایات کے باجود اینٹی بیکٹریل صابن کے استعمال کو پُر فریب اشتہار کاری کے ذریعے فروغ دے رہی ہیں۔ طبی جریدے انوائرمینٹل ہیلتھ پارسیکٹیوز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بھی اینٹی بیکٹریل صابن کو انسانی صحت کے لیے مضر قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کی تجویز دی ہے۔


محققین نے اپنی تحقیق کو ثابت کرنے کے لیے اینٹی بیکٹریل صابن سے بنے محلول والے برتن میں 20 خطرناک جراثیم ای کولائے، لیسٹیریا مونوکیٹوجینز اور سالمونیلا انٹریٹیڈیس کو رکھا اور دوسرے برتن میں انہی جراثیم کو عام صابن سے بنے محلول میں رکھا۔ ابتدا میں برتن میں موجود محلول کا درجہ حرارت 20 ڈگری سینٹی گریڈ رکھا گیا ، اور بعد میں اسے بڑھا کر 40 ڈگری سینٹی گریڈ کردیا گیا۔ درجہ حرارت میں تبدیلی عالمی ادارہ صحت کی اس ہدایات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی جس کے مطابق ہاتھوں کو گرم پانی سے 20 سیکنڈ تک دھونا جراثیم کے خاتمے کے لیے مفید ہے۔


تجربے نے ثابت کیا کہ جراثیم اور بیکٹریا کے خاتمے کے لیے اینٹی بیکٹریل صابن میں موجود کیمیکلز ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلو کاربن انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ہیں
اینٹی بیکٹریل صابن میں استعمال ہونے والے موثر جز ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن انسانی خلیے کے مائی ٹو کونڈریا پر اثر انداز ہو تا ہے جو تولیدی صلاحیت کے لیے لازم ہے


اس پوری تحقیق کے دوران جراثیم والے اس پانی کو مختلف بالغ افراد کے ہاتھوں پر لگایا گیا اور اس میں سے ایک گروپ کو اینٹی بیکٹریل اور دوسرے کو عام صابن سے ہاتھ دھلوائے گئے۔ اس تجربے نے اس بات کو ثابت کیا کہ جراثیم اور بیکٹریا کے خاتمے کے لیے عام صابن اور اینٹی بیکٹریل صابن میں کوئی فرق نہیں ہے۔ جب کہ عام صابن کے برعکس اینٹی بیکٹریل صابن میں موجود کیمیکلز ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلو کاربن انسانی صحت کے لیے نہایت مضر ہیں۔ لیکن پاکستان میں پراکٹر اینڈ گیمبل، ریکٹ بینکیسر اور یونی لیور ایف ڈی اے(فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن) کی واضح ہدایات کے باجود اینٹی بیکٹریل صابن کے استعمال کو پُر فریب اشتہار کاری کے ذریعے فروغ دے رہی ہیں۔ طبی جریدے انوائرمینٹل ہیلتھ پارسیکٹیوز میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں بھی اینٹی بیکٹریل صابن کو انسانی صحت کے لیے مضر قرار دیتے ہوئے اس پر پابندی کی تجویز عائد کی۔ پاکستان میں بھی بیشتر کمپنیاں اس طرح کے جراثیم کش صابن تیار کرتی ہیں جن کے بارے میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ وہ جراثیموں کا مکمل خاتمے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ ان کی قیمت بھی عام صابنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہوتی ہے۔


ماضی میں صارفین کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک پاکستانی تنظیم جراثیم کش صابن( سیف گارڈ، ڈیٹول، لائف بوائے) ہینڈواش اور برتن دھونے کے لیکویڈزکے بارے میں ایک رٹ بھی دائرکرچکی ہے جس میں لیبارٹری رپورٹس کے ذریعے ثابت کیا گیا تھا کہ جراثیم کش صابن‘ہینڈواش اور برتن دھونے کے لیکویڈکے ذریعے کینسر جیسا جان لیوا مرض پھیل رہا ہے جب کہ روایتی صابن جوکہ قیمت میں بھی جراثم کش صابن سے سستے ہیں انسانی صحت اور جلد کے لیے محفوظ ہیں۔
امریکی ریاست مینی کی پروفیسر اور بایو کیمسٹ جولی گوسی اینٹی بیکٹریل صابن میں استعمال ہونے والے موثر جز ٹرائی کلوسین اور ٹرائی کلوکاربن کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ کیمیکل انسانی خلیے کے مائی ٹو کونڈریا پر اثر انداز ہو تا ہے۔ ہم سب یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ مائی ٹو کونڈریا کے افعال کا درست رہنا انسانوں کی تولیدی صلاحیت کے لیے لازم ہے۔ اور ہم یہ بھی جانتے بوجھتے بھی بنا سوچے سمجھے اینٹی بیکٹریل صابن استعمال کرتے ہیں۔ دنیا بھر کی کمپنیاں اس وقت دو ہزار سے زائد پراڈکٹ میں ٹرائی کلوسین کا استعمال کر رہی ہیں۔ جس میں سے96فیصد پراڈکٹ ایسی ہیں جن میں استعمال ہونے والا ٹرائی کلوسین صابن اور ڈیٹرجنٹ کی شکل میں بہہ کر سیوریج لائنوں میں شامل ہوجاتاہے ۔ امریکی ریاست اوریگون میں واقع سائنس اینڈ انوائرمنٹ ہیلتھ نیٹ ورک کے سائنس ڈائریکٹرTed Schettler کا کہنا ہے کہ زیادہ تر صابن اور ڈیٹرجنٹ میں استعمال ہونے والا یہ کیمیکل آبی حیات اور ماحول کے لیے سخت خطرات پیدا کر رہا ہے ۔


ایک پاکستانی تنظیم جراثیم کش صابن( سیف گارڈ، ڈیٹول، لائف بوائے) ہینڈواش اور برتن دھونے کے لیکوئڈزکے بارے میں ایک رٹ بھی دائرکرچکی ہے جس میں لیبارٹری رپورٹس کے ذریعے ثابت کیا گیا تھا کہ جراثیم کش صابن‘ہینڈواش اور برتن دھونے کے لیکویڈکے ذریعے کینسر جیسا جان لیوا مرض پھیل رہا ہے جب کہ روایتی صابن انسانی صحت اور جلد کے لیے محفوظ ہیں۔


یہ سیوریج لائن کے ذریعے ندی نالوں اور سمندر میں شامل ہوجاتا ہے اس طرح ہم جو مچھلی کھا رہے ہیں ، بالواسطہ ہم اس مچھلی کے ذریعے بھی ٹرائی کلوسین سے متاثر ہورہے ہیں۔ یہی پانی کھیتی باڑی میں استعمال ہو کر سبزیوں اور پھلوں میں بھی شامل ہورہا ہے۔ 2017ء میں تحقیقی مقالہFlorence Statement on Triclosan and Triclocarbonکے نام سے شائع ہوا جس میں Schettler سمیت دنیا بھر کے دو سو سے زائد سائنس دان اور میڈیکل پروفیشنل شامل تھے۔ دنیا بھرمیں مشترکہ طور پر ہونے والی اس تحقیق میں ٹرائی کلوسین کے جانوروں پر کیے گئے تجربات سے یہ بات سامنے آئی کہ یہ کیمیکل ٹیسٹو ایسی ٹییرون کی سطح میں کمی کر کے مادہ منویہ کی پیداوار کم کردیتا ہے۔ یہ کیمیکل تھائیرائیڈ غدود پر اثر انداز ہو کر بچوں کی ذہنی نشوو نما کو متا ثر کرتا ہے۔ اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ٹرائی کلوسین جانوروں کی طرح انسانی جسم کے افعال اور غدود پر بھی اسی طرح اثر انداز ہوتا ہے۔ اینٹی بیکڑیل صابن اور ہینڈ واش میں استعمال ہونے والا یہ مضر کیمیکل انسانی جلد کی حساسیت میں اضافے کے ساتھ دمے جیسی مہلک بیماری کا سبب بھی بن رہا ہے ۔

ادویات، زیر آب پانی اور ٹوتھ پیسٹ میں موجود ٹرائی کلوسین کے مہلک اثرات
پر فریب اشتہار کاری کے ذریعے کیلشیم ، میگنیشم ، فلورائیڈ اور ٹرائی کلوسین جیسے کیمیکلز کو محفوظ اور صاف دانتوں کا ضامن بتایا جاتا ہے، اور یقیناً ایسا ہوتا بھی ہوگا، لیکن کیا آپ کو پتا ہے کہ دانتوں کی صفائی کے چکر میں اس کیمیکلز کا استعمال آپ کو کن مہلک جسمانی اور دماغی بیماریوں میں مبتلا کر رہا ہے؟ ٹوتھ پیسٹ کے اشتہاروں میں ٹرائی کلوسین اور فلورائیڈ کو دانتوں کی بیماریوں کا واحد حل بتایا جاتا ہے۔ لیکن یہی فلورائیڈ آپ کی صحت کے لیے اتنا ہی مضر ہے جتنا سنکھیا، سیسہ اور پارہ۔ ممتاز طبی جریدے The Lance میں شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق فلورائیڈ پر مشتمل پانی اور ٹوتھ پیسٹ کا استعمال انسانوں میں نیورو ٹوکسیٹی(اعصابی نظام پر مرتب ہونے والے زہریلے اثرات جواعصابی خلیات میں ٹوٹ پھوٹ کا سبب بنتے ہیں)اور معدے کے امراض کا سبب بن رہا ہے۔ عالمی ادارہ برائے صحت نے دانتوں کے لیے فلورائیڈ کی سطح 0.5ملی گرام سے ایک ملی گرام فی لیٹر مقرر کی ہے۔ اس حد سے تجاوز کی صورت میں اس کے مہلک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ فلورائیڈ کا استعمال نہ صرف ٹوتھ پیسٹ بلکہ ادویہ سازی میں بھی کیا جا رہا ہے اور بیس فی صد ادویات میں فلورائیڈ کسی نہ کسی شکل میں شامل ہے، جب کہ ٹوتھ پیسٹ میں اس کا استعمال خصوصاً بچوں میں معدے اور کینسر جیسے موذی امراض کا سبب بن رہا ہے جس کی وجہ بچوں میں ٹوتھ پیسٹ یا اس کی جھاگ کو نگلنے کی شرح زیادہ ہونا ہے۔ ( جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں