میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
آرمی ایکٹ میں ذکر کردہ جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہی ہوگا،آئینی بینچ

آرمی ایکٹ میں ذکر کردہ جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہی ہوگا،آئینی بینچ

ویب ڈیسک
منگل, ۱۴ جنوری ۲۰۲۵

شیئر کریں

سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا، سویلین کا ملٹری ٹرائل کورٹ مارشل کہلاتا ہے۔سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں کے کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7رکنی آئینی بینچ سماعت کر رہا تھا۔فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت شروع ہوئی تووزارتِ دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل دینے شروع کیے۔جسٹس امین الدین خان نے کہا کہ مناسب ہوگا اپنے دلائل مکمل کر لیں، کون سے مقدمات فوجی عدالتوں کو منتقل ہوئے اور کیوں ہوئے اس کو مختصر رکھیے گا، ججز کے اس حوالے سے سوالات ہوئے تو آخر میں اس کو بھی دیکھ لیں گے۔وکیل خواجہ حارث نے موقف اپنایا کہ سپریم کورٹ نے آرمی ایکٹ کی سیکشن 59(4) کو بھی کالعدم قرار دیا ہے،جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آرمی ایکٹ میں کئی جرائم کا ذکر بھی موجود ہے، ایکٹ کے مطابق تمام جرائم کا اطلاق فوجی افسران پر ہوگا۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سویلنز کا ٹرائل آرمی ایکٹ کی سیکشن 31D کے تحت آتا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سیکشن 31D تو فوجیوں کو فرائض کی انجام دیہی سے روکنے پر اکسانے سے متعلق ہے۔وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فوجی عدالتوں کو آئین نے بھی تسلیم کیا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ فوجی عدالتوں میں کیس کس کا جائے گا یہ دیکھنا ہے، جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیے کہ آئین تو بہت سے ٹربیونلز کی بھی توثیق کرتا ہے، دیکھنا صرف یہ ہے کہ کون سے کیسز کہاں اور کیسے سنے جا سکتے ہیں، مسئلہ یہاں پروسیجر کا ہے ٹرائل کون کرے گا۔خواجہ حارث نے ا ستدلال کیا کہ آئین کے آرٹیکل 6 میں آئین کو معطل کرنے کی سزا ہے، آئین کا آرٹیکل 6 ہر قانون پر فوقیت رکھتا ہے، آرمی ایکٹ میں حلف کی خلاف ورزی کی سزا ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ عدلیہ مارشل لا کی توثیق کرتی رہی، کیا غیر آئینی اقدام پر ججز بھی آرٹیکل 6 کے زمرے میں آتے ہیں۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ پرویز مشرف کیس میں ججز کے نام کیے گئے تھے، سنگین غداری ٹرائل میں بعد ازاں ججز کے نام نکال دیے گئے۔وکیل وزارت دفاع نے کہا کہ ایف بی علی کیس میں جسٹس انوار الحق کا نوٹ موجود ہے، اس وقت آرٹیکل 10 اے نہیں تھا، وکیل کا حق دینا، شواہد پر فیصلہ دینے سمیت پورا طریقہ کار لکھا گیا۔دوران سماعت خواجہ حارث نے کہا کہ احترام کیساتھ کہنا چاہتا ہوں آپ کیس کے میرٹس پر نہیں جا سکتے، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ کے تحت پہلے سویلین عدالتوں میں ٹرائل چلتا تھا، خواجہ حارث نے کہا کہ 1967 سے آفیشل سیکریٹ ایکٹ آرمی ایکٹ کا حصہ ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ آفیشل سکریٹ ایکٹ میں ترمیم 11 اگست 2023 میں ہوئی،واقعہ مئی 2023 کا ہے، کیا قانون کا اطلاق ماضی سے کیا گیا۔وکیل وزارت دفاع نے موقف اپنایا کہ جی آفیشل سکریٹ ایکٹ میں ترمیم کا اطلاق ماضی سے کیا گیا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ میں کل ساری رات پڑھتا رہا، مجھے نہیں ملا آرمی ایکٹ چیپٹر پانچ میں سزا کتنی ہے۔جسٹس حسن اظہر رضوی نے ریمارکس دیے کہ سوال یہ بھی ہے کہ ملٹری کورٹس کو سزائیں سنانے سے روکا بھی سپریم کورٹ نے، اجازت بھی سپریم کورٹ نے دی، جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ کیا ملٹری ٹرائل میں شفاف ٹرائل کا حق دیا گیا۔ سپریم کورٹ نے ملٹری کورٹس کیس کی سماعت آج پھر ہوگی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں