میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف کی واپسی اور تحریک عدم اعتماد

نواز شریف کی واپسی اور تحریک عدم اعتماد

ویب ڈیسک
جمعه, ۱۴ جنوری ۲۰۲۲

شیئر کریں

پاکستان کی ان سیاسی جماعتوں کے لیے جو حکومت سے باہر ہیں ان کے لیے گذشتہ عام انتخابات کے بعدپہلے روز سے یہ موقع موجود تھا کہ وہ عمران خان کو وزیر اعظم کا عہدہ نہ حاصل کرنے دیتے وفاق اور پنجاب میں اپنی حکومت بنا لیتے لیکن مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کے غیر لچکدار رویے کی وجہ سے یہ ممکن نہ ہو سکا اًس وقت پیپلزپارٹی نے جو فارمولا پیش کیا تھا اس کے تحت آسانی سے موجودہ اپوزیشن کی سیاسی جما عتیں اپنا وزیر اعظم لاسکتی تھیں پیپلز پارٹی نے جو فارمولا پیش کیا تھا اس کے تحت مرکز میں پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم ہوتا اور اہم وزارتیں مسلم لیگ ن کو دی جاتیں اسی طرح پنجاب میں مسلم لیگ ق کا وزیر اعلیٰ ہوتا اور اہم وزارتیں مسلم لیگ ن کے پاس ہوتیں سندھ حکومت کی وزارتوں میں متحدہ قومی موومنٹ کو بھی حصہ دیا جاتا، آصف علی زرداری اپنی مفاہمت کی پالیسی سے آ سانی سے تحریک انصا ف کے بیشتر اراکین کو اپنے ساتھ ملا لیتے اس طرح حکومت بھی مستحکم رہتی اور اسے کوئی خطرہ نہ ہوتا لیکن مولانا فضل الرحمان اور مسلم لیگ ن پیپلز پارٹی کو اقتدار میں بھاری بھرکم حصہ دینے کے لیے تیار نہیں تھے صرف چند مسلم لیگی رہنما سمجھتے تھے کہ وقتی طور پر پیپلزپارٹی کو موقع دینے سے مسلم لیگ کی راہ ہموار ہوگی اور نواز شریف کے تمام مقدمات ختم ہو جائیں گے اور وہ صادق اور امین کا تصدیق نامہ حاصل کرکے سیا ست میںایک مرتبہ پھر سرگرم عمل ہوجائیں گے لیکن مولانا فضل الرحمان مسلم لیگ کو یہ باور کرارہے تھے کہ ہم جلد ہی عمران خان کی حکومت کو اًکھا ڑ کر پھینک دیں گے نتیجہ یہ ہوا کہ عمران خان آسانی سے حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے جس کے لیے جہانگیر ترین نے کلیدی کردار ادا کیا اب ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم عمران خان کو ہٹانے کے لیے تحریک عدم اعتماد کے لیے رابطے جاری ہیں۔
اگر جہانگیر ترین کے ساتھی اس بات پر آمادہ ہوجاتے ہیں کہ وہ عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد میںووٹ دیں گے ایسی صورت میں تحریک عدم اعتماد کے لیے جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اس کے لیے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کو آمادہ کرنا ہوگا اگر پیپلز پارٹی وزیر اعظم کے لیے اپنی جماعت کے علاوہ کسی اور کی حمایت پر تیار ہو جاتی ہے تو وہ مرکز اور پنجاب میں اہم عہدوں کی خواہش رکھے گی اسی صورت میں وہ ایم کیو ایم کو سندھ کی صوبائی حکومت میں حصہ دے گی پیپلز پارٹی سے یہ توقع کرنا کہ وہ غیر مشروط طور پرایسی کسی تحریک کی حمایت کرے گی قریبا ًناممکن ہے مسلم لیگی حلقوں میں یہ تصور زور پکڑ رہا ہے کہ وہ آئندہ انتخابات میں ملک بھر میں بھاری اکثریت حاصل کرلیں گے اور بلاشرکت غیرے وفاق اور پنجاب میں حکومت بنالیں گے خیبر پختون خواہ کا وزیر اعلیٰ بھی ان کا ہوگا لیکن وہاں مخلوط حکومت ہوگی جس میں جے یو آئی کو اہم وزارتیں دی جائیں گی اس طرح کی کامیابی حاصل کرنے کے لیے موجودہ وزیراعظم اور پنجاب کے وزیراعلیٰ کو عہدے سے ہٹانا ایک بہتر حکمت عملی ہوگی اور کامیابی کی صورت سابق وزیر اعظم کی پاکستان واپسی کی راہ ہموار ہوجا ئے گی اور سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس کی آمد کے بعد وہ نااہلی کے خلاف نظر ثانی کی درخواست کے ذریعے ایک مرتبہ اہل قرار پائیں گے اور شاید دیگر مقدمات میں بھی بری ہوجائیں گے یہ کام اب بھی آسانی سے ہو سکتا ہے اگر مسلم لیگ اور پی پی کی مفاہمت ہو اور سابق صدر آصف زرداری کو مذاکرات اور ڈیل کے اختیاررات دیے جائیں آصف زرداری قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہر طرح کے معاملات طے کرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں اس پورے کھیل میں ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت اور مسلم لیگ ق سے پر اعتماد سمجھوتہ بھی ہے جس کے لیے پیپلز پارٹی کا بھرپور کردار ضروری ہے، مسلم لیگ کی کوشش ہے کہ پیپلز پارٹی کے مرکزی کردار کے بغیر تحریک عدم اعتماد کو کامیاب بنایا جائے اس کی راہ ہموار کرنے کے لیے مسلم لیگی رہنما شہباز شریف نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی ہیں پیپلز پارٹی نے فروری کے اختتام پر اسلام آباد کی جانب لانگ ماچ کا اعلان کررکھا ہے۔
اگر پیپلز پارٹی نے بھرپور مہم چلائی تووہ ایک بہت بڑا مظاہرہ کرنے میں کامیاب ہو سکتی ہے پاکستان میںکسی بھی بڑی تبدیلی کے لیے پس پردہ عوامل میں ملک کے طاقتور حلقوں ،پاکستان میں دلچسپی رکھنے والی عالمی طاقتوںاور خطے کے حالات اہم کردار ادا کرتے ہیں روس چین اور امریکا اس خطے میں بد امنی یا عدم استحکام کے مخالف ہیں لیکن یہ تینوں ملک اپنا اثرو رسوخ بھی چاہتے ہیںپاکستان اور افغانستان کے درمیان حالیہ جھڑپیں عدم استحکام کا باعث ہیں اس کشیدگی کو کم کرنے کے لیے سفارتی محاذ پر کام ہورہا ہے لیکن یہ کشیدگی برقرار ہے ادھر قازقستان میں پٹرول کی قیمتوں میں اضافے پر زبردست ہنگامے ہوئے جس پر کسی حد تک قابو پالیا گیا اس کے بارے میں شکوک وشبہات ہیں کہ ان ہنگاموں کے پس پشت کوئی بڑی طاقت تھی خطے کے واقعات میں ایک اور اہم پیش رفت ایران اور افغانستان کے وفود کی ملاقا تیں تھیں اس ملاقات کے بعد ایران نے اس تاثر کی نفی کی کہ وہ افغانستان میں طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے پر آمادہ ہو گیا ہے، ایران کے نمائندے نے اس بات کا اعادہ کیا کہ وہ افغانستان میں وسیع البنیاد حکومت کے خواہاں ہیںافغانستان اور ترکمانستان کے درمیان بھی تنازعہ جاری ہیں اور سرحدی جھڑپوں میں کئی لوگ ہلاک ہو چکے ہیں افغانستان کے مالی حالات انتہائی خراب ہیں اور کئی جگہ سرکاری ملازمین کو تنخواہیں نہیں مل سکی ہیںخود افغان حکومت اپنے اندرونی تنازعات خیم نہیں کرسکی ہے جس کی وجہ سے واضح پالیساں سامنے نہیں آرہی ہیں ملک میں اندرونی اختلافات او رمناسب خوراک اور دیگر اشیاء صرف کی کمی کی وجہ سے خانہ جنگی کا خطرہ بڑھ رہا ہے دیکھنا یہ ہوگا کہ ملکی اور بین الاقوامی صورت حال کس حد تک اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد اور نوازشریف کی واپسی کے لیے موافق ہوگی کھیل جاری ہے اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا چند روز میں یہ بھی واضح ہو جائے گا، تحریک انصاف اور وزیراعظم عمران خان اپوزیشن کے بڑھتے ہوئے دبائو سے نمٹنے کی تیاری کر رہے ہیں حکومت کو کئی محاذوں پر کام کرنا ہوگا اس میں اپنی پارلیمانی قوت کو برقرار رکھنا اور مہنگائی پر قابو پانا سر فہرست ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں